عموماً گیراج، گاڑیوں کے لیے ہوتے ہیں، لیکن مینگورہ شہر کے محلہ رحیم آباد میں گورنمنٹ پرائمری سکول رحیم آباد نمبر2 کے 900 سے زائد طلبہ و طالبات پچھلے 6 سالوں سے گاڑیوں کے لئے بنائے گئے گیراجوں میں زمین پر بیٹھ کرزیورِ تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔ اس سکول کے لیے محکمہ یا ایم پی اے نے کبھی عمارت نہیں بنائی۔
یہ سکول کوآپریٹو کی ایک عمارت میں کھولا گیا تھا، لیکن پھر 2018ء میں مذکورہ محکمے کو ضرورت پڑی، تو محکمہ تعلیم نے ان بچوں کے لئے کرایہ پہ گیراج لے لیے۔ اُس وقت سے 900 سے زیادہ بچے گیراجوں میں پڑھ رہے ہیں۔ بچوں کا کہنا ہے کہ گیراج تنگ ہے۔ اس لیے اُن کو بہت تکلیف کا سامنا ہے۔
سکول کے ایک استاد جمال الدین کہتے ہیں کہ ان گیراجوں میں اساتذہ کے بیٹھنے کی جگہ نہیں۔ اس لیے چھٹی تک اساتذہ کھڑے ہوکر بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ علاقہ گنجان آباد ہے اور قریب میں کوئی دوسرا سرکاری سکول بھی موجود نہیں۔ علاقہ کے زیادہ تر لوگ محنت کش ہیں۔ اس لیے وہ نجی سکولوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
سکول کے ہیڈ ماسٹر عبدالطیف نے کہا کہ انھوں نے بہت کوشش کی، لیکن کوئی زمین دینے کے لیے تیار نہیں۔ گورنمنٹ پرائمری سکول رحیم آبادمیں پہلے 1300 بچے پڑھتے تھے، لیکن سردی اور بیماریوں کی وجہ سے 400 بچے تعلیم حاصل کرنا چھوڑ گئے۔
سکول کے طالب علم محمد طلحہ کہتے ہیں کہ سکول کے قریب کارخانے ہیں، جہاں کیمیکل کے استعمال سے زیادہ بچوں کے سینے خراب رہتے ہیں۔ اکثر بچوں کو نمونیا ہوجاتا ہے۔ موسمِ سرما میں گیراجوں کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور بارش کے دوران میں پانی گیراجوں کے اندر داخل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بچے تنگ آکر تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔
گورنمنٹ پرائمری سکول رحیم آباد کواب علاقے میں ’’گیراجوں والا سکول‘‘ کہا جاتا ہے۔ رحیم آباد کے رہنے والے محمد علی کہتے ہیں کہ علاقہ کے لوگوں سے اگر کوئی شخص اس سکول کے قریب کسی کے گھر کا پتا پوچھے، تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ گیراجوں والے سکول کے اُس جانب ہے۔
سکول کے بچوں کا کہنا ہے کہ دوسرے سکولوں کے شرارتی بچے اُن کو مختلف گاڑیوں کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور اکثر پوچھتے ہیں کہ کون سے ماڈل کے ہو؟ کبھی کبھار جب ہم راستے سے گزرتے ہیں، تو وہ منھ سے ہارن بھی بجا تے ہیں۔
گورنمنٹ پرائمری سکول رحیم آباد مینگورہ شہر کی حدود میں ہے۔ اس حلقہ کے ایم پی اے فضل حکیم خان یوسف زئی کو لوگوں نے تین بار ایم پی اے منتخب کیا۔ اَب وہ حیوانات کے صوبائی وزیر بھی ہیں۔ تینوں انتخابات میں رحیم آباد کے لوگوں نے اپنے پولنگ سٹیشن پر بھاری اکثریت سے انھیں کام یاب کیا، لیکن تینوں بار ایم پی اے منتخب ہونے کے باوجود انھوں نے سکول کے لیے زمین خریدی اور نہ عمارت تعمیر کی۔