مَیں اب چند اساتذہ کے بارے میں کچھ دل چسپ تفصیلات بتانا چاہتا ہوں۔
شیخ سعدی کے نام سے مشہور احمد حسن صاحب بنیادی طور پر چارباغ کے رہنے والے تھے، لیکن اُنھوں نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ پرانی دہلی میں گزارا تھا۔ وہاں وہ مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ وہ ایک پرنٹنگ پریس کے مالک تھے۔ چند ملازم، اُن کے کاروبار میں، اُن کا ہاتھ بٹاتے۔ اُن کی آمدنی کا ایک اور ذریعہ بھی تھا۔ وہ ایک ٹیوشن سنٹر چلا رہے تھے، جہاں وہ ایم اے اور بی اے کا اُردو اور فارسی کورس پڑھاتے تھے۔ مختصراً یہ کہ وہ ایک کامیاب آدمی تھے۔
ہندوستان کو دو آزاد ریاستوں میں تقسیم کرنے کے اعلان کے بعد ہندوستان میں اچانک فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔ ہندو انتہا پسندوں نے اُن کے دفتر پر دھاوا بول دیا اور اُن کا تمام سامان لوٹ لیا۔ اُنھوں نے ایک جوڑے کپڑوں اور تھوڑی سی نقدی کے ساتھ دہلی کو چھوڑ دیا۔ بڑی مشکلات برداشت کرنے کے بعد سوات پہنچ کر اپنے آبائی گاؤں میں سکونت اختیار کرلی۔ جلد ہی اُن کے پاس نقدی ختم ہوگئی۔ اُنھیں کسی نے مشورہ دیا کہ وہ سوات کے والی (اُس وقت کے ولی عہد) سے ملیں اور محکمۂ تعلیم میں نوکری مانگیں۔ ملاقات کے دوران میں والی صاحب نے اُنھیں مشرقی علوم کے اُستاد کے عہدے کی پیش کش کی۔ ’’میری تنخواہ کیا ہوگی؟‘‘ اُنھوں نے پوچھا۔ اُنھیں بتایا گیا کہ ریاست 100 روپے ماہانہ برداشت کرسکتی ہے۔ اُنھوں نے یہ کَہ کر اس پیش کش کو ٹھکرا دیا کہ وہ دہلی میں اپنے نوکر کو اتنی ہی تنخواہ دیتے تھے۔ وہ اپنے گاؤں واپس چلا گئے اور گھر چلانے کے لیے وہ پتھر سے بنی گھریلو استعمال کی چیزیں گدھے پر مینگورہ بازار فروخت کرنے لانے لگے۔
ایک دن والی صاحب نے اُن کو، اتفاقاً، اس دگرگوں حالت میں دیکھ لیا۔ اُنھوں نے اپنی گاڑی روکی اور محافظوں کو مولوی صاحب کو لانے کو کہا۔ والی صاحب گاڑی سے باہر نکلے اور اتنے بڑے عالم کو اس حالت میں دیکھ کر دُکھ کا اظہار کیا۔ اُنھوں نے اپنی پیش کش دُہرائی۔ اس بار مولوی صاحب نے انکار نہیں کیا۔ اُنھیں اسکول کے قریب رہنے کے لیے ایک بڑا گھر بھی دیا گیا اور اُنھوں نے نویں اور دسویں جماعت کو پڑھانا شروع کر دیا۔ اُن کی اولاد بھی بہت ذہین ثابت ہوئی۔ اُن کے ایک صاحب زادے فضل اللہ اُردو کے پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اُن کی ایک بیٹی بھی محکمۂ تعلیم میں اعلا عہدے پر پہنچی۔ سوات کے اولین گرلز ہائی سکول سیدو شریف کی ہیڈ مسٹریس بھی رہیں۔
دوسرے محترم اُستاد جن کی میں بات کرنا چاہتا ہوں، وہ ہمارے انگلش ماسٹر گران بادشاہ خان تھے۔ اُن کا تعلق مایار، جندول سے تھا اور وہ اپنے مہمانوں کے لیے ایک طویل و عریض حجرے کے ساتھ پتھر اور گارے سے بنے لکڑی کی چھت والے ایک کشادہ مکان میں رہ رہے تھے۔ یہ گھر بادشاہ صاحب کی ذاتی رہایش گاہ کے بالکل قریب تھا، جہاں شاہی خاندان سکونت پذیر تھا۔ اُنھیں یہ رعایت اس لیے دی گئی تھی کہ وہ بادشاہ صاحب کی دوسری بیگم جو ’’مایار بی بی‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھیں، کے رشتہ دار تھے۔ مایار بی بی سے بادشاہ صاحب کے دو بیٹے تھے۔ ایک بیٹا شہزادہ سلطان روم تھا، جو والیِ سوات سے عمر میں چھوٹا تھا۔ دوسرا بیٹا شاہ روم تھا۔ وہ بچپن ہی میں فوت ہوگیا تھا۔
گران باچا بہت لمبے مگر دُبلے تھے۔ چہرہ بہت سرخ تھا اور سامنے کے دو دانت نسبتاً بڑے تھے۔ ہم نے سنا تھا کہ ایک بار جشن آزادی کے موقع پر اُنھوں نے اسکول کے اسٹیج ڈرامے میں قائد اعظم کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ گران بادشاہ، کا جیسا کہ مَیں جانتا ہوں، ایک ہی بیٹا تھا۔ انگریزی زبان کے بہترین لہجے کے ساتھ اُن کا طریقۂ تدریس بہت متاثر کن تھا۔ اس عظیم اُستاد کا ایک اور امتیاز یہ تھا کہ وہ رباب کے بہترین فن کار تھے ۔
بہت سے لوگوں نے بیان کیا، کہ وہ اکثر رباب پر سریلی دُھنیں بجا کر سامعین کو رُلا دیتے، لیکن وہ صرف اپنے چنندہ حلقۂ احباب میں رباب بجاتے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت دکھ ہو رہا ہے کہ اُن کے آخری دن اتنے خوش گوار نہیں تھے۔ ایسا مالی پریشانی کی وجہ سے نہیں تھا۔ کیوں کہ اُن کی اچھی خاصی آمدنی تھی، لیکن کسی اندرونی غم نے اُنھیں توڑ ڈالا تھا اور اُنھوں نے مارفین وغیرہ کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ کورس کی کتابوں کے علاوہ میں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا تھا اور اُن کی ذاتی راہ نمائی سے، مَیں نے انگریزی کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی۔ اللہ تعالیٰ اُن کی روح کو اپنے جوارِ رحمت میں رکھے، آمین! (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔