کبھی خواب نہ دیکھنا (دسویں قسط)

Blogger Riaz Masood

مَیں نے سوات کے حکم ران خاندان کے ناموں، اُن کی اصل اور بادشاہ صاحب کی جد و جہد اور کامیابیوں کے بارے میں جانا۔ مَیں نے اُن کی بے رحم اور بے خوف لڑائیوں اور مشکل حالات سے نمٹنے کی صلاحیت کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں۔ مَیں نے سوات پر عبدالغفور المعروف قاسمی میاں، زیب سر تاج محمد خان کی بہت سی دست یاب کتابیں پڑھیں۔ مَیں نے تاریخِ فرشتہ اُس وقت پڑھی جب میں چھٹی جماعت میں تھا۔ اسی بل بوتے پر مَیں نے افسران کے درمیان عمومی بحث میں حصہ لینے کے لیے گفت گو کی جرات پیدا کی۔ میرے والد مجھے اُن عہدے داروں کے ساتھ، اُن کی حسبِ مراتب ذہن میں رکھتے ہوئے، ایک ہی سطح پر بات کرتے ہوئے سن کر بہت خوش ہوتے۔ تقریباً 60 سال گزر جانے کے بعد، جب مَیں نے مقامی اخبارات میں لکھنا شروع کیا، تو اعلا حکام کے ساتھ اُن نشستوں میں، اُن کے ساتھ اُن مباحثوں نے مجھے بہت مدد دی۔ میرا پہلا کالم غالباً 2011ء میں شائع ہوا۔ مَیں اپنے اندر موجود تمام خوبیوں کے لیے اپنے والد کا مقروض ہوں، مگر مَیں اپنے اندر موجود تمام برائیوں کا ذمے دار خود ہوں۔
سکول کے زمانے کو پھر سے یاد کرتے ہیں۔ یہ 1950ء کی دہائی کا دوسرا نصف تھا اور مَیں اب نویں جماعت میں تھا۔ مَیں 13 سال کا تھا اور حیدر علی خان کے علاوہ کلاس میں سب سے چھوٹا بچہ تھا۔ پہلے اُن کا نام باور خان ہوا کرتا تھا۔ وہ کمان افسر عبدالرازق خان کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ۔ وہ والئی سوات کی رہایش گاہ کے پیچھے رہتے تھے۔ وہ بہت ذہین اور خوب صورت لڑکے تھے اور ہمیشہ مہنگے لباس میں ملبوس رہتے تھے۔ افسر آباد میں رہنے والے اُن کے بڑے بھائی، اُس وقت تحصیل دار بابوزئی تھے، جو بعد میں ریاستی انتظامیہ میں مشیر بن گئے جو سول کم جوڈیشل افسر کا ایک اعلا عہدہ تھا ۔
اِس موقع پر مَیں آج کل کی ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں۔ زیادہ تر لوگ مشیر کا ترجمہ مشورہ دینے والے کے طور پر کرتے ہیں، جیسے مشیرِ والی برائے محصولات، مشیرِ والی برائے امورِ خارجہ۔ ایسی تمام تعبیریں بے بنیاد ہیں۔ اُن مشیروں کو پہلے نائب وزیر کہا جاتا تھا اور بعد میں مشیر نام دیا گیا۔ وہ اکثر جوڈیشل افسران ہوتے تھے اور اپنی اپنی تحصیلوں کے مقدمات کی سماعت کرتے تھے۔ جیسے مشیرِ کوز سوات، مشیرِ بر سوات۔ مشیرِ مال، امپورٹ ایکسپورٹ، ٹیکس، عشر اور دیگر ریاستی وسائل پر مبنی ریاستی محصولات کا کلکٹر تھا۔
میری پہلی جماعت سے ہی حیدر علی کے ساتھ دوستی تھی۔ وہ بھی میری طرح معمول سے ہٹ کر، سال میں دو دو مرتبہ امتحان دے کر اگلی جماعتوں میں پروموٹ ہو گیا تھا۔ وہ اکثر افسر آباد اپنے بھائی محمد ماجد خان کے گھر آیا کرتا تھا اور ہم اکثر اُس کے بھائی کے ڈیرے کے کھلے لان میں کھیلا کرتے تھے۔
نویں جماعت میں ہمارے پاس بہت تجربہ کار اساتذہ تھے۔ ریاضی اور سائنس کے لیے پیر محمد خان، انگریزی کے لیے گران باچا، اُردو اور فارسی کے لیے مولوی احمد حسن تھے، جنھیں عام طور پر شیخ سعدی کہتے تھے۔ ودودیہ میں سکول کی زندگی کے دن میرے لڑکپن کا بہترین حصہ ہیں۔ مَیں نے اب سیکھ لیا تھا کہ غنڈا گردی کرنے والے سینئر لڑکوں سے کیسے نمٹا جائے اور بڑی عمر کے جارح مزاج لڑکوں سے کیسے دور رہنا ہے۔ اُن دنوں لڑکیوں کو بہت کم عمری میں پردہ کرایا جاتا تھا۔ اس لیے مخالف جنس کے درمیان محبت کی پینگیں بڑھانا عام نہیں تھا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، صرف ایک طالب علم تھا، جو ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا۔ اُس نے اپنے چاندی کے نسوار کی ڈبیا پر اس کا نام کندہ کر رکھا تھا۔ اسی وجہ اُس کا راز کھل گیا۔ متبادل کے طور پر لڑکوں کو دوسرے لڑکوں سے پیار ہوتا اور اس طرح کے سکینڈل سکولوں میں عام تھے۔ مَیں اس موقع پر چارلس لنڈھوم سے اتفاق کرتا ہوں، جیسا کہ اُس نے اپنی ایک کتاب میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کا نام اَب میرے ذہن میں نہیں ہے۔(جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے