کیا پارلیمان آزاد ہوگیا؟

Blogger Fazal Manan Bazda
 ہماری پارلیمانی تاریخ تو یہ ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد 25 سال تک بے آئین ملک رہا۔ اسی عرصے میں پاکستان کا قانون انگریز کا ’’انڈیا پینل کوڈ‘‘ اور ’’انڈین کرمنل پروسیجر کوڈ‘‘ ہی رہا۔ پاکستان نے اس کا نام ’’پاکستان پینل کوڈ‘‘ اور ’’پاکستان کرمنل کوڈ‘‘ رکھ دیا اور اسی قانون سے حکم ران ریاستی کاروبار چلاتے رہے، جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت بھی ہوا۔ 
اس کے بعد 1973ء کا آئین ملا، تو بھی اس کے خالق نے اپنے مرتب کردہ آئین میں ذاتی مفادات کی خاطرترامیم شروع کیں۔ اُس کے بعد جو بھی حکم ران آیا، اُس نے آئینِ پاکستان میں من مرضی کی ترامیم کیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں آج تک اگر جمہوری نظام ڈی ریل ہوا ہے، تو اس کی ذمے داری طاقت ور اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر ڈالی جاسکتی ہے، جب کہ ان کی سہولت کاری میں سیاسی عمائدین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ 
برسرِ اقتدار اتحادی حکومت نے 22 اکتوبر کو رات کے اندھیرے میں 26ویں آئینی ترمیم منظور کی۔ آئینی ترامیم کی منظوری سے پہلے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن( تحریکِ انصاف) ایک جج ( یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) سے اور حکومت دوسرے جج (یعنی جسٹس منصور علی شاہ) سے ڈر رہی ہے۔ عوام میں بھی دونوں جسٹسوں کے عدالتی فیصلوں سے یہ تاثر قائم ہوا۔ 
اس طرح یہ تاثر بھی عام ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم پاس کرانے میں 9 ماہ لگ گئے تھے، تو 26 ویں آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے پہلے راتوں رات پاس کرانے کا مقصد کیا تھا؟ سب جانتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی اور جسٹس منصور علی شاہ کا بہ حیثیت چیف جسٹس تقرر تھی۔ 
عوام کا یہ بھی خیال ہے کہ حکم رانوں کے لیے 26ویں آئینی ترمیم منظور کرانا ممکن نہ تھا، لیکن چیف جسٹس قاضی فائز نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا وہ فیصلہ معطل کر دیا، جس میں کسی پارٹی کے کسی منحرف رکن کا ووٹ دوسری پارٹی کے حق میں شمار نہیں کیا جا سکے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس فیصلے نے ایوان میں ضمیروں کی خرید و فروخت کا راستہ کھول دیا۔ اسی فیصلے کو مدِ نظر رکھ کر تحریکِ انصاف اور بی این پی کے پارلیمانی اراکین کے ضمیر جاگے اور اُنھوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا۔ 
اس ترمیم سے عوام کو کیا ملا؟ کیا بے روزگاری میں کمی آئی، مہنگائی کم ہوگئی، عوام کو مفت تعلیمی اور صحت کی سہولیات میسر آئیں، انصاف ملنا آسان اور سستا ہوگیا، ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوگئی یا حکم ران اپنی مراعات سے دست بردار ہوگئے؟ 
اور اگر ایسا نہیں ہوا، تو پھر ججوں کے آنے جانے سے عوام کو کیا سروکار؟ یہ تو بڑوں کے مفادات کی لڑائی تھی، جس میں بعض کام یاب ہوئے اور بعض کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ 
ہاں! عوام کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کے لیے اب دس ہزار روپے کی بہ جائے دس لاکھ روپے فیس جمع کرانا پڑے گی۔ حکم ران جس کا راستہ روکنا چاہتے تھے، اُن کا راستہ روکنے میں کام یاب ہوگئے۔
مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی فلور پر اپنی تقریر میں کہا کہ ہم نے کالے سانپ کے زہریلے دانت توڑ دیے۔ بلاول زرداری اور شیری رحمان کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے کالے سانپ کو مار دیا اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کا فرمانا تھا کہ آج پارلیمان آزاد ہوگئی۔ 
اگر کسی کے ذہن میں یہ غلط فہمی یا خیال ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم جمہوری نظام یا آئین کو بچاسکتی ہے، تو وہ یہ خام خیال اپنے ذہن سے نکال دے۔ کیوں کہ اصل مسئلہ ججوں کے آنے جانے کا نہیں، بل کہ مقتدرہ کی تابع داری کا ہے۔ اس کی واضح مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ سابق صدر جنرل (ر) سکندر مرزا مرحوم نے جنرل ایوب خان کو وزیرِ دفاع بنایا، تو جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو برطرف کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ اقتدار میں جونیئر ضیاء الحق کو آرمی چیف لگایا، تو اُنھوں نے 1977ء میں نہ صرف مارشل لا لگایا، بل کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھایا۔ سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے جنرل مشرف کو تین جنرلوں پر ترجیح دی، تو جنرل صاحب نے احسان کا بدلہ چکاتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کو 10 سال کے لیے جَلا وطن اور سیاست میں حصہ نہ لینے پر مجبور کیا۔
مذکورہ بالا حضرات کو اپنے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دینے کے لیے اقتدار میں من پسند سیاست دانوں، عدلیہ اور چیف جسٹس لانے پڑے اور جس نے احکامات ماننے سے انکار کیا، اُنھیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔
میر ے خیال میں 26 ویں آئینی ترمیم سے عدلیہ کو وہ تحفظ شاید ہی مل سکے، جس کا تصور کیا جا رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے، تویہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ طاقت کا سرچشمہ کون ہے…… عوام، پارلیمان، عدلیہ یا پھر اسٹیبلشمنٹ؟ 
 ..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے