اب واپس 1956ء میں چلتے ہیں۔ تب میرا بھائی سیکشن اے میں تھا۔ سیدو شریف کا ایک اور لڑکا میرا ڈیسک فیلو بن گیا۔ وہ مجھ سے زیادہ غریب گھرانے سے تھا۔ اُس کے والد سیدو بازار میں نسوار بیچتے تھے اور ’’نسواری ماما‘‘ کہلاتے تھے۔ مَیں نے اُس لڑکے سے کبھی نہیں پوچھا کہ اُس کے والد کا اصل نام کیا ہے؟ ’’سیفورگے‘‘ نامی اس لڑکے کی نظر بہت کم زور تھی۔ وہ کتاب کو پڑھنے کے لیے اپنی آنکھوں کے قریب رکھتا تھا۔ وہ بعد میں عظیم ماہرِ تعلیم بن گیا اور اپنے بنائے گئے جدید، آرام دِہ گھر میں رہنے لگا۔
ایک صبح دو لڑکے کلاس روم میں داخل ہوئے۔ ایک لڑکا، دو بستے اُٹھائے ہوئے تھا۔ ایک اُس کا اپنا تھا اور دوسرا اُس دوسرے لڑکے کا تھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ نیا آنے والا تھانہ گاؤں سے تھا اور کسی بڑے ملّا کا بیٹا تھا، جو کبھی والی صاحب کے بیٹے کا اَتالیق رہ چکا تھا۔ دوسرا لڑکا اُس کا نوکر تھا، جو طالبِ علم بھی تھا، لیکن اُس کا کام ملا کے لڑکے، جسے ’’صاحبِ حق‘‘ کہتے تھے، کی کتابیں اُٹھانا تھا۔ وہ سیدھا میرے پاس آیا اور ’’سیفورگے‘‘ کی سیٹ سنبھال لی۔ مَیں نے اُس سے کہا کہ یہ سیٹ پہلے ہی سیفورگی کی ہے۔ اُس نے کہا کہ وہ یہیں بیٹھے گا اور کوئی اُسے روکنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ اُس کا نوکر بنچوں کی آخری لائن پر بیٹھ گیا۔ جب سیفورگے کلاس میں آیا اور نئے آنے والے کو اپنی سیٹ چھوڑنے کو کہا، تو صاحبِ حق نے اُس کے سینے پر ایک ضرب لگائی۔ اُس نے اعلان کیا کہ اُسے دوبارہ کوئی پریشان نہ کرے۔ جب سیفورگی نے شکایت کی، تو اُستاد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ وہ اس وحشی کو سیٹ چھوڑنے کے لیے نہیں کَہ سکتا۔
چند دنوں کے حسنِ سلوک اور نرم گفت گو کے بعد اُس لڑکے نے اچانک میرے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرلیا۔ وہ شاعرانہ اندازمیں، مبالغہ آمیز فقروں میں میری صورت کی تعریف کرنے لگا۔ پوری کلاس جانتی تھی کہ مَیں ایک عام سا قبول صورت لڑکا تھا۔ لیکن اس پِلے نے مجھے چھیڑنے کے لیے اپنی بکواس جاری رکھی۔ مَیں جانتا تھا کہ اُس کے خلاف میری شکایت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، اس لیے مَیں نے اپنے بھائی کو سارا معاملہ بیان کر دیا۔ اُس نے اُسے تھپڑ مار کر اُسے اپنی فضول گوئی روکنے کو کہا۔ لیکن وہ ایک بے شرم بطخ کی طرح تھا اور اُلٹا میرے بھائی کے خلاف شکایت کر دی۔ ہیڈ ماسٹر نے میرے بھائی کو ہدایت کی کہ وہ اُس لڑکے سے دور رہے۔
ایک دن میرے پاس بیٹھ کر اُس نے میری ران پر ہاتھ رکھا۔ مَیں نے اُس کا ہاتھ پیچھے کر دیا۔ اُس نے پھر وہی حرکت کی اور تھوڑا آگے بڑھا۔ میرے اوپری حصے کو چھوتے ہوئے …… مَیں نے اپنے جسم میں ایک سنسنی خیز کرنٹ محسوس کیا۔ اُس نے کچھ دیر انتظار کیا۔ اچانک مَیں سمجھ گیا، وہ اپنے ’’اچھے اشارے‘‘ کی واپسی کی توقع کر رہا تھا، لیکن مَیں بے حرکت رہا۔ یہ سوچ رہا تھا کہ کاش وہ اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لے۔ اچانک اُستاد نے مجھ سے کچھ سوال کیا اور مَیں سکون کی سانس لے کر جواب دینے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ روحانی طاقتوں نے مداخلت کرلی تھی۔
اس سے پہلے کہ میرا بھائی امتحان کے بعد ممبئی کے لیے روانہ ہوتا، اُس گندے ذہن کے بگڑے لڑکے کو ایک اہم ’’وی آئی پی‘‘ کی شکایت پر ریاست سے نکال دیا گیا، اور ہمیں اُس نا پسندیدہ شخص (Persona Non Grata) سے نجات مل گئی۔ (جاری ہے)
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔