(فضل رازق شہابؔ صاحب کی انگریزی میں لکھی گئی خود نوشت "Never Ever Dream Again” کا اُردو ترجمہ، جسے لفظونہ ڈاٹ کام پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے)
جب کبھی مَیں اپنے والد کے دفتر جاتا (جس میں دو بڑی دفتری میزیں تھیں، ایک اُن کے باس کے لیے اور دوسری میرے والد کے لیے)، مَیں اُن کو پرنٹ شدہ پروفارموں کے ساتھ بڑے رجسٹر کے ڈھیر کے پیچھے بیٹھے پاتا۔ ہر رجسٹر میں ایک کمان افسر (کیپٹن) کے ما تحت عہدے داروں کا نام و عہدہ، ولدیت، قومیت اور دیگر معلومات درج ہوتیں۔
ریاستِ سوات میں 10 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل فوج تھی۔ ہر ایک کے نام کے ساتھ اسلحہ کی تعداد اور گولہ بارود کی تفصیل بھی درج ہوتی۔ ریٹائرمنٹ یا بھرتی وغیرہ کے مواقع پر تبدیلیاں بھی ریکارڈ ہوتیں۔ ان سب سے بڑھ کر میرے والد صاحب کو اناج کی ادائی کی آرڈر سلپس کی اتنی ہی تعداد لکھنی پڑتی تھی، جس پر خود حکم ران کے دست خط ہوتے تھے۔ اُن کا باس وہاں ایک بہت بڑے گوشت کے پہاڑ کی طرح بیٹھا خراٹے لیتا رہتا۔
ایک دفعہ میرے والد کو اپنے ہاتھوں کی پشت پر جلد کی کچھ تکلیف شروع ہوئی جس کی وجہ سے اُن کے ہاتھ مکمل پٹیوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ یہ پٹیاں سیدو ہسپتال کا عبداللہ نامی ایک میل نرس روزانہ ہمارے گھر آکر، تبدیل کرتا۔ صرف انگلیاں کھلی تھیں اور میرے والد اس تکلیف کی حالت میں بھی حسبِ معمول لکھتے رہتے۔ آخرِکار، ایک مہینے کے بعد، جیسے ہی عبداللہ نے ڈریسنگ ہٹائی، روئی کے ساتھ ساتھ سفید کیلوں جیسا مواد بڑی مقدار میں نکل آیا۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک نعمت تھی۔ پھر ہاتھ بالکل اصلی شکل میں آگئے۔
اگرچہ مَیں اُس وقت آٹھویں جماعت میں تھا اور میری عمر ابھی 13 سال تھی، مگر جسمانی طور پر بہت کم زور تھا۔ اس لیے مَیں زیادہ تر اپنے بڑے بھائی پر انحصار کرتا۔ مجھے اپنے بھائی، یا میرے پڑوسی لڑکوں، اسفند یار اور بخت روان کے بغیر خوڑ میں نہانے کی اجازت نہیں تھی۔ عام لوگ ہمیں ایک ہی خاندان سے سمجھتے تھے۔
ہمارے گاؤں اور سیدو شریف کے درمیان کوئی باقاعدہ بس سروس نہیں تھی۔ جب بھی ہم ابوہا میں اپنی دادی کے ہاں چھٹیاں گزارنے جاتے، ہم ایک تانگا کرایہ پر لیتے۔ میری ماں کے لیے کپڑے کی ایک بڑی چادر پچھلی طرف باندھی جاتی۔ تانگا بان اور میرے والد اگلی نشست پر بیٹھتے۔ سیدو شریف سے شروع ہوکر، پہلا پڑاؤ تیندو ڈاگ سے تھوڑا پہلے بنایا گیا تھا، تاکہ گھوڑی کو ’’برت خیلہ ولہ‘‘ نامی پانی کے نالے سے پینے دیا جائے۔ یہ پانی نہایت شفاف ہوا کرتا تھا۔ چنار کا ایک بڑا درخت نماز کے لیے بنائے گئے ایک سیمنٹ کے چوکور چبوترے پر کھڑا تھا۔ پھر ہم اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوتے۔ پورے سفر میں ڈھائی گھنٹے لگتے۔ میرے والد ایک یا دو دن کے بعد سیدو واپس آ جاتے تھے۔ واپسی سے پہلے وہ میرے چچا کے ساتھ اپنے کھیتوں کا معائنہ کرتے۔ کھیت اگرچہ سائز میں بڑے تھے، لیکن صدیوں پرانے بیجوں کی وجہ سے اتنی زیادہ پیداوار نہیں دیتے تھے، جتنے اَب دیتے ہیں۔
ہم اپنی چھٹیاں اپنی نانی کے ہاں گزارا کرتے تھے۔ حالاں کہ ہمارے چچا گلی کے دوسری طرف رہتے تھے۔ یہ گلی، میاگانو چم اور میرے آبا و اجداد (جو کہ ملاؤں کا خاندن تھا) اور خنڈی خیل پختونوں کو تقسیم کرتی تھی۔ اسی سبب مقامی لوگوں کو غلط فہمی تھی کہ ہم خنڈی خیلوں سے ہیں، جو کہ ہمارا ننھیالی خاندان تھا۔
ایک دن میں ایک تنگ گلی میں اکیلا جا رہا تھا کہ مخالف سمت سے آنے والے ایک بڑی عمر کے لڑکے نے مجھے روکا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنا مہمان بننے کو کہا۔ مَیں تقریباً حواس باختہ ہوگیا اور رونے لگا۔ وہ میرے ردِعمل سے گھبرا گیا اور فرار ہوگیا۔ بعد مَیں اُس کی خوب مرمت کی گئی۔ اس کا انتقال گذشتہ ماہ ہوا۔ آخری عمر میں بہت بوڑھا اور بیمار تھا۔(جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔