دریائے سوات مختلف مافیاؤں کے نرغے میں

Blogger Tauseef Ahmad Khan

دریائے سوات قدرت کا ایک اَن مول تحفہ ہے، جو اپنے دامن میں مختلف رونقیں سمیٹے ہوئے ہے۔ دریائے سوات ہندوکش کے سرسبز پہاڑوں سے نکل کر وادی کے بیچ سے گزرتے ہوئے چارسدہ کے قریب دریائے کابل میں شامل ہو جاتا ہے۔
یہ دریا وادی کے طول و عرض میں اپنے چاہنے والوں کے لیے دل کش اور پُرکشش مناظر پیش کرتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس دریا کو دیکھنے کے لیے سوات کا رُخ کرتے ہیں۔
دریائے سوات نہ صرف وادی کی سیاحت کو پروان چڑھاتا ہے، بل کہ مقامی زراعت کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ دریا کے پانی سے سوات کی پوری وادی سیراب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی زرخیزی ہمیشہ سے قائم و دائم ہے۔ اس کی بہ دولت یہاں کی فصلیں لہلہاتی ہیں۔
دریائے سوات نہ صرف یہاں کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے، بل کہ دلوں کو بھی سکون بخشتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر دریا کو وادئی سوات سے نکال دیا جائے، تو یہ وادی جنت سے صحرا میں تبدیل ہو جائے۔
اس کے علاوہ دریائے سوات صدیوں سے یہاں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا امین رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دریا ہمیشہ سے ثقافتی ورثے کا اہم حصہ رہا ہے۔ مشرقی اور مغربی اَدب دونوں میں دریائے سوات کا ذکر ملتا ہے۔ مشہور پشتون شعرا جیسے رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، افضل خان خٹک اور غنی خان نے اپنی شاعری میں اس دریا کی خوب صورتی اور اس کی موجوں کی مدھم گونج کو اپنی شاعری میں انتہائی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مغربی سیاح اور محققین بھی دریائے سوات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ معروف برطانوی محقق ایچ جی راورٹی (H.G. Raverty) نے اپنی کتاب "Notes on Afghanistan and Baluchistan” میں سوات کے دریا کا تفصیلی ذکر کیا ہے، اور اسے وادئی سوات کی شہ رگ قرار دیا ہے۔
معروف سیاح اور سفیر ’’الیگزینڈر برنس‘‘ نے بھی اپنی کتاب "Travels into Bokhara” میں اس دریا کے کنارے گزارے گئے لمحوں کو انتہائی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔
تاریخی کتابیں، جیسے "The Pathans” از ’’سر اولف کیرو‘‘ (Sir Olaf Caroe) بھی اس بات کا ذکر کرتی ہیں کہ دریائے سوات نے صدیوں سے نہ صرف پشتونوں، بل کہ اس پورے خطے کے لوگوں کی معیشت اور ثقافت کو پروان چڑھایا ہے۔
اس دریا کے کنارے تہذیبوں کا جنم ہوا، اور سوات کی قدیم تہذیبوں کے آثار آج بھی اس وادی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
دریائے سوات نہ صرف ماضی کا آئینہ ہے، بل کہ آج بھی مقامی لوگوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور سوات کی پہچان اسی دریا سے وابستہ ہے۔ برطانوی ملکہ، ملکۂ الزبتھ دوم، نے سوات کے پُرکشش منظر کو دیکھنے کے بعد اس کو ’’سونے‘‘ سے تشبیہ دی تھی، جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دریائے سوات، جو اتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہے، آج چند مافیاؤں کے رحم و کرم پر ہے۔ مسلسل مائننگ اور ریت بجری نکالنے کی وجہ سے اس کی خوب صورتی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ جگہ جگہ گہرے گڑھے کھودے جا رہے ہیں، جس سے دریا کا قدرتی بہاو اور پیٹرن بگڑ چکا ہے۔ دریائے سوات، جو کبھی اپنے پُرسکون اور دل کش مناظر کی بہ دولت سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا تھا، اَب اپنی سیاحتی حیثیت کھو رہا ہے۔ کچھ مافیا، باقاعدہ طور پر اداروں کی سرپرستی میں اپنے مفاد کے لیے اس خوب صورت دریا کو برباد کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دریا کی یہ حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
پہلے دریائے سوات سے ریت اور بجری نکالنے میں صرف ایک مخصوص مافیا ملوث تھا، لیکن بدقسمتی سے 27 اکتوبر 2023ء کو سول انتظامیہ نے ایک لیز ایگریمنٹ کے ذریعے خود کو اس عمل میں شامل کرلیا۔ اس معاہدے کے تحت پورے دریائے سوات کی شامیلاتی زمین کو لیز پر دینے کا فیصلہ کیا گیا، اور صرف ایک کروڑ پچاس ہزار روپے کی معمولی رقم کے عوض دریائے سوات کی کل 1502 ایکڑ زمین ایک ٹھیکے دار کے حوالے کر دی گئی۔ حکومت بہ ظاہر ایک کروڑ روپے کا فائدہ حاصل کرنے میں کام یاب تو ہوگئی، لیکن اگر نقصانات کا جائزہ لیا جائے، تو وہ اربوں روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔
محکمہ منرل اینڈ مائن نے غیر قانونی طور پر دریائے سوات کو ایک ٹھیکے دار کے ایسے حوالے کر دیا ہے، جیسے یہ اُس کی ذاتی جاگیر ہو۔ تاریخی، سیاحتی اور معاشی اہمیت رکھنے والے دریائے سوات کو ذاتی مفادات کی خاطر مافیاؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک ایسا دریا جسے ہزاروں سال سے لوگ مقدس سمجھتے آئے ہیں، اَب ایک ٹھیکے دار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس سے یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھیکے دار اپنی مرضی سے دریائے سوات کے کنارے واقع کسی بھی سیاحتی مقام کو تباہ کرسکتا ہے اور اسے اپنی مرضی سے کھنڈرات میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک لیز ایگریمنٹ نہیں، بل کہ دریا کی بربادی کا ایک لائسنس ہے۔ اب ٹھیکے دار کی من مانی چل رہی ہے، اور وہ جہاں چاہے کھدائی کر کے دریا کو کھنڈرات میں بدل رہا ہے، چاہے وہ جگہ سیاحتی اہمیت کی حامل ہو یا نہ ہو۔ اس کے اثرات انتہائی سنگین ہیں۔
کھدائی کے نتیجے میں دریا کی آبی حیات بری طرح متاثر ہو رہی ہے، اور دریا کا توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ حفاظتی پشتے کھدائی کی وجہ سے کم زور ہوچکے ہیں، جس سے مقامی آبادیوں کو سیلاب کی صورت میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ دریا کے قدرتی بہاو کا رستہ بگڑ چکا ہے، اور یہ بگاڑ نہ صرف ارد گرد کی زمینوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، بل کہ مقامی لوگوں کی اِملاک بھی شدید خطرے میں ہیں۔
سب سے بڑا اور ناقابلِ تلافی نقصان سیاحت کو پہنچ رہا ہے۔ دریائے سوات، جو کبھی اپنی خوب صورتی اور پُرکشش مناظر کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھا، اَب اس بے ہنگم کھدائی کی وجہ سے اپنی دل کشی کھوتا جا رہا ہے۔ سیاحتی مقامات کی اہمیت اور رونق ماند پڑ رہی ہے، اور وہ قدرتی مناظر جو کبھی دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے تھے، اب بگاڑ کا شکار ہیں۔ یہ سب نہ صرف دریا کے قدرتی حسن کو تباہ کرنے کا باعث بن رہا ہے، بل کہ ماحولیات، مقامی زراعت اور سیاحت پر بھی اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کیوں کہ سوات کی سیاحت اس دریا کی خوب صورتی پر منحصر ہے۔ اس غیر ذمے دارانہ فیصلے کے سبب جو وقتی مالی فائدہ حاصل کیا گیا ہے، وہ دراصل ایک دیرپا اور تباہ کن نقصان کی قیمت پر حاصل ہوا ہے۔
دریائے سوات کی لیز دینے سے قبل، ایک جامع ماحولیاتی اثرات کا جائزہ (Environmental Impact Assessment – EIA) لینا نہایت ضروری تھا۔ اس جائزے میں دریا کے قدرتی نظام، اس کی اہمیت اور کسی بھی ممکنہ نقصانات کا مکمل جائزہ لیا جاتا۔ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ لیز ایگریمنٹ کے نتیجے میں ماحولیات کو کوئی نقصان تو نہ پہنچے گا۔
ایک جامع سروے اور اسسمنٹ رپورٹ کے بغیر، دریا کو لیز پر دینا دریائے سوات کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
اس کے ساتھ لیز پر عمل درآمد سے قبل، محکمہ آب پاشی کی ایک تفصیلی رپورٹ کا ہونا انتہائی ضروری تھا۔ اس رپورٹ میں یہ جانچنا لازمی تھا کہ کھدائی کے باعث حفاظتی پشتوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور کیا دریا کا رُخ بدلنے سے آس پاس کی آبادی کو سیلاب کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟
یہ بھی جانچنا ضروری تھا کہ مائننگ سے زیرِ زمین پانی کی سطح متاثر ہو گی یا نہیں؟ ماضی میں دریائے سوات کی غیر قانونی کھدائی کے نتیجے میں مقامی آبادی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ خاص طور پر سیلاب کے دوران میں، جب تیز بہاو نے کھدائی کے باعث کم زور حفاظتی پشتوں کو اپنے ساتھ بہا دیا تھا۔ بے ترتیب کھدائی کی وجہ سے دریائے سوات اپنی اہمیت کھوچکا ہے اور مقامی آبادی قدرتی آفات کے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔
اس کے علاوہ لیز پر عمل درآمد سے قبل، محکمہ وائلڈ لائف کی ایک جامع رپورٹ بھی لازمی تھی۔ یہ رپورٹ دریائے سوات کے ساتھ منسلک خشک حصے (ٹانگ) پر رہنے والے پرندوں کے لیے لیز کے ممکنہ منفی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بہت ضروری تھی۔ اس دریا کی وجہ سے ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور روس سے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے مختلف پرندے، جن میں ’’سائبیرین کرین‘‘، ’’مالارڈ ڈک‘‘، ’’پنٹیل ڈک‘‘، ’’کمن ڈک‘‘، ’’سیہ سر مرغابی‘‘ اور ’’فلمنگو‘‘ شامل ہیں، یہاں آتے ہیں۔ یہ پرندے دریائے سوات کے ٹانگ اور مقامی پہاڑوں کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ کھدائی کے باعث ان کے قدرتی مسکن کو شدید نقصان پہنچا ہے، جس سے ان کی بقا کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ یہ نایاب پرندے، جو کبھی دریائے سوات کی رونق ہوا کرتے تھے، اب سول انتظامیہ کی غیر ذمے دارانہ رویہ کی وجہ سے نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، ریونیو اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا سروے اور ڈیمارکیشن بھی نہایت ضروری تھی، کیوں کہ دریائے سوات کی زمینیں شاملاتی حیثیت رکھتی ہیں، یعنی یہ کئی اقوام کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ تاہم، سول انتظامیہ نے انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریونیو ریکارڈ میں مالکان کو نوٹس دیے بغیر اُن زمینوں کو ذاتی مفاد کے لیے لیز پر دے دیا۔ یہ عمل نہ صرف قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی ہے، بل کہ شاملاتی مالکان کے حقوق کو بھی نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔
مزید برآں، کھدائی کے عمل سے قبل محکمہ فشریز کی جامع رپورٹ کی ضرورت تھی، تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ آبی حیات کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات کیا ہو سکتے ہیں؟ دریائے سوات مختلف اقسام کی مچھلیوں کے لیے مشہور ہے، جن میں خاص طور پر مہاشیر، ٹراؤٹ اور سنگھاڑی جیسی قیمتی اقسام شامل ہیں۔ ریسرچ کے مطابق دریائے سوات میں مچھلیوں کی 60 سے زیادہ اقسام ہوا کرتی تھیں، جو اَب نایاب ہوچکی ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کا اس پر جامع رپورٹ موجود ہے۔ ان کے سیمپل پشاور یونیورسٹی کے فشریز ڈیپارٹمنٹ کی لیبارٹری میں موجود ہیں۔اس آبی حیات کا قدرتی مسکن دریائے سوات ہے اور کسی بھی قسم کی کھدائی یا ماحولیاتی تبدیلی اس کی رہایش و افزایش کے عمل پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ لہٰذا، ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ ساتھ آبی حیات کی بقا کے لیے ضروری تھا کہ اس عمل سے پہلے مکمل تحقیق اور منصوبہ بندی کی جاتی…… لیکن افسوس کہ تمام رپورٹوں اور اسسمنٹ کے بغیر، چند افسران نے ذاتی مفاد کے تحت دریائے سوات کو لیز پر دیا ہے، جس کا فائدہ محض چند مافیا اور بدعنوان افسران تک محدود ہے۔ اس کے نتیجے میں سوات کے لوگوں کو اجتماعی طور پر بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ ہماری سیاحت شدید متاثر ہو رہی ہے اور دریا کا قدرتی حسن تباہ ہو رہا ہے۔ ہمارے پاس ایسے متبادل وسائل موجود ہیں، جن سے تعمیراتی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے، جیسے قریبی پہاڑ جہاں کرش پلانٹ نصب کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ان پہاڑوں کی کٹائی مناسب انجینئرنگ کے تحت کی جائے، تو مقامی لوگوں کو زلزلوں کے دوران میں سلائیڈنگ کے خطرے سے بھی تحفظ مل سکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف مقامی آبادی کو فائدہ پہنچے گا، بل کہ ماحولیات اور سیاحت بھی محفوظ رہیں گی۔
اس کے علاوہ دریائے سوات میں غیر منصوبہ بند مائننگ نے دریا کے قدرتی بہاو کے نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ دریائے سوات میں موجود قدرتی ریت اور پتھروں (River Beds) قدرتی پیٹرن کے لیے انتہائی اہم تھے۔ یہ ’’ریور بیڈز‘‘ دریا کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ مچھلیوں کی افزایش میں بھی بنیادی کردار ادا کر رہے تھے۔ ان ’’ریور بیڈز‘‘ میں مختلف انواع و اقسام کی مچھلیاں نشو و نما پا رہی تھیں، جن سے مقامی ماہی گیروں کا روزگار وابستہ تھا۔ تاہم، جب سے غیر قانونی مائننگ کا سلسلہ شروع ہوا ہے، دریا کا قدرتی بہاو مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر بائی پاس کے نزدیک دریائے سوات کا جائزہ لیا جائے، تو ایک وقت تھا جب دریا کی چوڑائی تقریباً 700 فٹ ہوا کرتی تھی، جس کی تصدیق پٹوار میں بھی درج ہے، لیکن مسلسل کھدائی کی وجہ سے اَب اس کی چوڑائی 1500 فٹ سے بھی تجاوز کرچکی ہے، جس کے نتیجے میں دریا کا پورا نظام بگڑ گیا ہے اور اب یہ نظام مقامی آبادیوں کے لیے مسلسل خطرے کا باعث بن رہا ہے۔ ماضی میں ہر 10سال میں ایک بار سیلاب آتا تھا، لیکن اب ہر سال مختلف شکلوں میں آبادیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دریا کی اس بگڑی ہوئی حالت کی بنیادی وجہ مائننگ کے ذریعے اس کے قدرتی بہاو کے پیٹرن کا خاتمہ ہے۔ دریا کا پانی اِب بے ترتیب انداز میں بہتا ہے، جسے فزکس کی اصطلاح میں "Turbulence” کہا جاتا ہے۔ اس "Turbulence” کی وجہ سے مقامی لوگ مسلسل ایک بڑے خطرے سے دوچار ہیں۔
ایک وقت تھا جب مقامی لوگ دریائے سوات کے خشک کناروں (River Beds) پر تفریح کے لیے جایا کرتے تھے۔ وہاں پکنک اور کیمپنگ کرتے تھے اور ان وسیع میدانوں میں وقت گزارتے تھے، جو دریا کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ یہ ٹانگ چہل قدمی اور کھیلوں کے لیے مثالی جگہیں تھے۔ ہمارے علاقے نویکلے کے شاملاتی ٹانگ میں تین بڑے گراونڈ ہوا کرتے تھے، جہاں فٹ بال، ہاکی اور کرکٹ جیسے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ مقامی لوگ اپنے مویشیوں کو بھی یہاں چراگاہوں میں لایا کرتے تھے۔ کیوں کہ یہاں مویشیوں کے لیے وافر مقدار میں چارہ دست یاب ہوتا تھا، لیکن سرکاری و غیر سرکاری مافیا کی مداخلت نے دریائے سوات کی اس رونق کو ختم کر دیا اور اَب یہ خوب صورت دریا آہستہ آہستہ کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔
دریائے سوات کے کنارے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاح بھی بڑی تعداد میں بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن مائننگ کے دوران میں وہاں سیفٹی کا کوئی مناسب انتظام نہیں کیا جاتا اور نہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ ہی کیا جاتا ہے کہ اس مقام پر مائننگ جاری ہے، یا مکمل ہوچکی ہے۔ اس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ بچے نہاتے وقت ڈوب جاتے ہیں اور کئی سیاح بھی ان گہرے گڑھوں کا شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہر سال درجنوں قیمتی جانیں، خصوصاً بچوں کی، دریا میں ڈوبنے کے باعث ضائع ہوجاتی ہیں۔ ان الم ناک حادثات کو روکنے کے لیے فوری اور موثر حفاظتی اقدامات اور مائننگ کے دوران میں سیفٹی پروٹوکولز کا نفاذ نہایت ضروری تھا، جسے یک سر نظرانداز کر دیا گیا۔
قدرت نے دریائے سوات کی صورت میں جو اَن مول خزانہ عطا کیا ہے، وہ یہاں کے باسیوں کے لیے کسی آبِ حیات سے کم نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آخری زمانے میں جنگیں پانی پر ہوں گی اور ایسے میں دریائے سوات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کا تحفظ ہم سب کی اولین ذمے داری ہے۔ اگر ہم نے اس قدرتی خزانے کی حفاظت نہ کی، تو شاید یہ وادی اپنی رہی سہی رونق بھی کھو دے۔ دریائے سوات کا ہر قطرہ ایک امانت ہے اور اس کی حفاظت سوات کے ہر باسی پر واجب ہے۔ اس کے بغیر وادی کی بقا خطرے میں ہے۔
حکومت کو فوری طور پر اس لیز سمیت تمام غیر قانونی مائننگ سرگرمیوں کو منسوخ کرنا چاہیے اور تمام کرش پلانٹس کو فوری طور پر سیل کرنا چاہیے۔ دریائے سوات جیسے قدرتی وسیلے کو کسی فرد یا ٹھیکے دار کے سپرد کرنے کی بہ جائے اس کے تحفظ اورخوب صورتی کی دوبارہ بہ حالی کے لیے فی الفور جامع اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ حکومت کو اس علاقے میں ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کے لیے تفریحی مقامات، کھیلوں کے میدان اور ماحول دوست بجلی کے منصوبے شروع کرنے چاہئیں، تاکہ نہ صرف مقامی آبادی، بل کہ سیاحوں کے لیے بھی یہ علاقہ مزید پُرکشش ہو۔ مچھلیوں کی افزایش کے لیے جدید دریائی فارم بنائے جائیں، تاکہ مقامی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے۔اس کے علاوہ دریائے سوات کو ’’نیشنل پارک‘‘ کا درجہ دیا جائے اور اس کی حفاظت کے لیے ایک خصوصی اتھارٹی قائم کی جائے، جو دریائے سوات کو ایک قدرتی ورثے کے طور پر محفوظ رکھ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ اس ماحولیاتی تباہی میں ملوث ہیں، اُن کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کی جائے اور ان کو جواب دہ ٹھہرایا جائے ۔
دریائے سوات صرف ایک دریا نہیں، بل کہ ہماری ثقافت، سیاحت اور معیشت کا اہم حصہ ہے۔ اس کی حفاظت ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ اس کے لیے ہم سب کو مل کر آواز اٹھانا ہوگی، تاکہ اسے آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھا جاسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے