(فضل رازق شہابؔ صاحب کی انگریزی میں لکھی گئی خود نوشت "Never Ever Dream Again” کا اُردو ترجمہ، جسے لفظونہ ڈاٹ کام پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے)
میرے پیارے قارئین! آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ کس طرح ریاستی نظام، شان دار رفتار اور کارکردگی کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ رابطے کا واحد ذریعہ ٹیلی فون تھا۔ ریاست میں تقریباً 80 سے زیادہ قلعے تھے۔ یہ سبھی ٹیلی فون کے ذریعے دارالحکومت سے جڑے ہوئے تھے۔
ایک دِن میں سیدو سے بھاگنے کے لیے جلدی گھر سے نکلا۔ میرے گھر والوں نے سوچا کہ شاید میں سکول میں ہوں۔ میرے بڑے بھائی کو میری غیر موجودگی کے بارے میں بتایا گیا۔ وہ میرے والد کے دفتر گئے اور اُنھیں اطلاع دی۔ چناں چہ میرے والد نے فوراً کوٹہ کے قلعے کو فون کیا کہ وہ مجھے میرے چچا کے گھر میں تلاش کریں اور مجھے فوراً واپس بھجوا دیں۔ یہی وجہ تھی کہ سپاہی نے مجھے ٹریس کرلیا تھا۔ کیوں کہ ہمارا خاندان اس علاقے میں جانا پہچانا تھا۔ لہٰذا قارئین سے میری گزارش ہے کہ اُس دور کی سماجی و اقتصادی اور طرزِ حکم رانی کو بھی ذہن میں رکھیں۔ یہ ریاست کے قانون کی طاقت کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔
شگئی اسکول کے آغاز ہی سے سکول میں مخلوط طریقۂ تعلیم رائج تھا۔ یہ طرزِ تعلیم غالباً بہت پہلے سے تھا۔ کیوں کہ جب مَیں نے 1950ء میں سکول جانا شروع کیا، تو اُس وقت اوپری کلاسوں میں کافی بڑی لڑکیوں کو پڑھتے دیکھا، لیکن کسی نے کبھی اس عمل کو عجیب یا غیر معمولی نہیں سمجھا۔
’’سیکس‘‘ ایک ممنوعہ موضوع تھا۔ مَیں نے کبھی کسی کو جنسی تعلقات کے بارے میں بات کرتے نہیں سنا، جب تک کہ مَیں اپنے بھائی کی صحبت سے محروم نہیں ہوگیا۔ اُسے آٹھویں جماعت کے ’’اے‘‘ سیکشن میں ایڈجسٹ کیا گیا تھا اور مجھے ’’بی‘‘ کلاس میں بھیج دیا گیا تھا۔ وہیں مَیں نے انسانی جسم کے بارے میں عجیب و غریب جملے سنے۔ میرے سکول کے زمانے میں جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ کبھی نہیں ہوا۔ البتہ سیدو کا ایک لڑکا سکول کے پیچھے ایک لڑکی کو چومتے ہوئے پایا گیا۔ معاملے کو مزید نہ بگاڑنے کی خاطر، لڑکے کو مینگورہ کے ہائی سکول بنڑ بھیج دیا گیا۔
پھر لڑکیوں کے لیے الگ سکول کی ضرورت محسوس کی گئی اور سنٹرل ہسپتال کے قریب سیدو میں لڑکیوں کے لیے ایک عظیم الشان اور جدید اسکول تعمیر کیا گیا، جس میں دوسری منزل پر بورڈنگ کی سہولت اور خواتین عملے کے لیے ڈھیر سارے رہایشی کوارٹر تھے۔
’’سڈومی‘‘ کا ذکر عام طور پر اُس وقت کیا جاتا تھا، جب لڑکے آپس میں جھگڑتے تھے، لیکن اس سے آگے نہیں۔ ہم سیدو خوڑ میں نہایا کرتے تھے، بالکل برہنہ…… لیکن کبھی شرم یا شیطانیت محسوس نہیں کرتے تھے، بالکل بھی منفی جذبات کے بغیر۔ روح اور جسم کی پاکیزگی ابھی باقی تھی، خاص طور پر افسر آباد میں رہنے والے ہمارے لڑکوں کے حلقے میں۔
سیکشن اے میں اپنے بھائی کو چھوڑ کر، مَیں اپنی زندگی کے کچھ مشکل دن یاد کرنے جا رہا ہوں۔ اَب ہم چار بھائی سکول میں تھے۔
میرے والد ابتر حالت میں گھر چلا رہے تھے، جسے انگریزی محاورے کے مطابق ’’ہاتھ سے منھ کہلانے والی حالت‘‘ (Hand to mouth) کہتے ہیں۔ والی صاحب نے، میرے والد صاحب کی تحصیل داری کی پیش کش کو ٹھکرانے کی وجہ سے اُسے مزید ترقی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اُن کے ساتھی صوبیدار میجر بن گئے، جیسے غالیگئی کے دلارام خان، سیدو کے بخت بلند اور مٹہ کے علی حیدر وغیرہ۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔