اونسالا رصدگاہ سویڈن کے دورے کا احوال

Blogger Khwaja Naveed

رصد گاہ (Observatory) ایک ایسی جگہ کو کہتے ہیں، جو مخصوص طور پر آسمانی، زمینی اور بحری اجسام و واقعات کے مشاہدے کے لیے ایک خاص ہیئت پر بنائی جاتی ہے۔
یہ ہئیت فلکیات (Astronomy)، موسمیات (Meteorology)، سمندری سائنس (Oceanography) اور آتش فشانیات (Volcanology) پر تحقیق میں کام آتی ہے۔
پچھلے دنوں ہماری یونیورسٹی نے سویڈن کے شہر گوتھیمبرگ کے نزدیک واقع ایک اہم رصدگاہ ’’اونسالا‘‘ کا دورہ کرایا۔ سکول کے دنوں ہی سے مَیں رصد گاہوں کے متعلق اپنی فزکس کے نصاب میں بہت کچھ سنتا چلا آیا تھا۔ لہٰذا اس بابت میری دل چسپی بھی بہت تھی۔
رصد گاہ کی انتظامیہ کی طرف سے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر پہلے ہی سے پارکنگ لاٹ میں انتظار کررہے تھے، تاکہ جاتے ہوئے وہ راستے میں ہمیں بنیادی اور تاریخی معلومات اور ہدایات دیں۔ وہی ڈاکٹر صاحب سارے دورے میں گائیڈ کے طور پر ہمارے ساتھ موجود رہے۔
وہاں پہنچ کر سب سے پہلے ایک لیکچر ہال میں رصدگاہ کے بنیادی طریقۂ کار اور تکنیکی معلومات پر مبنی ’’پریزینٹیشن‘‘ دی گئی، جس سے معلوم ہوا کہ ’’اونسالا‘‘ بنیادی طور پر ریڈیو ٹیلی سکوپ (نظر نہ آنے والی شعاووں کی مدد سے کام کرنے والی دوربین) ہے، جو کہ آپٹک دوربین (روشنی کی مدد سے کام کرنے والی دور بین) سے زیادہ کار آمد ہوتی ہے۔
ریڈیو ٹیلی سکوپ کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ دن رات اور ہر قسم کے موسم یا بارش میں بھی اپنا کام بغیر کسی تعطل کے جاری رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح یہ ٹیلی سکوپ خلا میں آپٹیکل ٹیلی سکوپ کے مقابلے میں زیادہ دور تک مشاہدات کرسکتا ہے۔
’’اونسالا رصدگاہ‘‘ میں دو ریڈیو ٹیلی سکوپ ہیں، جو مختلف النوع تحقیقی پراجیکٹس پہ کام کررہے ہیں۔ ایک ٹیلی سکوپ کا قُطر 25 میٹر ہے، جو کہ ستاروں کی پیدایش اور فنا، ہماری کہکشاں یعنی ’’ملکی وے‘‘ اور دوسرے کہکشاؤں میں موجود مادوں پر تحقیق کے لیے مختص ہے، جب کہ دوسرا ٹیلی سکوپ 20 میٹر قُطر کا ہے، جو ایک 30 میٹر ڈایا کے ڈوم میں سمایا گیا ہے، تاکہ اس کے انٹینا کو موسمیاتی اور دیگر اثرات سے بچایا جاسکے۔
لیکچر کے بعد ان دونوں ٹیلی سکوپ کا معائنہ کرایا گیا۔ علاوہ ازیں، اس رصد گاہ میں کششِ ثقل میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو جانچنے کے آلات کا بھی معائنہ کروایا گیا۔
عوام الناس کی آگاہی اور بنیادی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہاں پر ایک گیم روم بھی بنایا گیا ہے جو کہ ’’پلینیٹیرئم‘‘ کی طرح کا بندوبست ہے، جہاں آپ مجازی حقیقت (Virtual Reality) ٹیکنالوجی کے ذریعے سے محظوظ ہوسکتے ہیں اور جس سے اس قسم کے علوم اور آلات کا بنیادی تعارف بھی حاصل ہوجاتا ہے۔
ہمارے ملک میں بھی انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کے نام سے ایک یونیورسٹی اور سپارکو کے نام سے تحقیقی ادارہ موجود ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس تک رسائی عام سکولوں اور کالجوں کے بچوں تک نہیں۔
مَیں جب اپنا پرائیویٹ ٹیکنکل کالج چلا رہا تھا، تو اُن دنوں غالباً 2012ء کی بات ہے کہ اپنے شاگردوں کو ’’انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی‘‘ کا دورہ کرایا تھا اور اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنا پڑے تھے۔
کلر کہار کے نزدیک ’’البیرونی کی ایک رصد گاہ‘‘ کی باقیات اب بھی موجود ہیں، جس کے متعلق مشہور ہے کہ زمین کے قُطر کا تخمینہ اُنھوں نے اسی کی مدد سے لگایا تھا۔ یاد رہے کہ البیرونی کا لگایا گیا تخمینہ، اصل کے بہت قریب ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سکول اور کالج کے طالب علموں کے لیے ایسے مواقع بہم فراہم کیے جائیں، جہاں اُنھیں تھیوری میں پڑھائے گئے اسباق و تصورات کی عملی جہات و اطلاقات کابھی تصور دیا جائے۔ یوں تعلیم اور عمل کی دنیاوؤں کے مابین دوریوں کو سمیٹا جاسکے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے