ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب، لڑکی معافی کیوں مانگے؟

Blogger Advocate Muhammad Riaz

بہ حیثیت مسلمان مَیں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو بہت پسند کرتا ہوں۔ دینِ اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
گذشتہ دنوں لکی مروت کی رہایشی لڑکی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر ڈاکٹر صاحب کو سیخ پا ہوتے دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کے لب ولہجے اور غصے نے حیران کردیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے لڑکی نے ڈاکٹر صاحب کی ذات پر کوئی الزام لگا دیا ہو۔ پہلی بات لڑکی نے تقابلِ مذاہب پیش نہیں کیا تھا۔ وہ تو صرف یہی پوچھنا چاہ رہی تھی کہ اتنے مذہبی ماحول میں بھی لوگ اس طرح کی قبیح حرکات کیوں کرتے ہیں؟
سوال کا جواب دینے کی بہ جائے ڈاکٹر صاحب نے سوال ہی غلط قرار دے دیا اور بار بار معافی مانگنے کی تلقین کرتے رہے۔ ایک موقع پرایسا محسوس ہورہا تھا کہ سوال پوچھنے والی لڑکی کو سجدۂ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب یا اُن کے چاہنے والوں نے اُس لڑکی پر توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کرنے کا حکم یا فتوا جاری نہیں کردیا۔
ڈاکٹر صاحب سے حد درجہ محبت کرنے والوں نے ڈاکٹر صاحب کے طرزِ عمل پر توجیہات اور وضاحتیں دینے کے ساتھ ساتھ لڑکی کو ’’غیر ملکی ایجنٹ‘‘، ’’لبرل مافیا کی رُکن‘‘ وغیرہ وغیرہ قرار دے دیا ہے۔
لڑکی پر ہونے والی تنقید پر مجھے سال جون 2021ء کا واقعہ یاد آگیا۔ جب بندۂ ناچیز نے مشہورِ زمانہ مفتی عبدالعزیز موضوع پر ’’قومِ لوط کی بیماری ہے، ابھی تک ہے جاری‘‘ٹائٹل سے کالم لکھا، تو راقم کو اُس وقت شدید تنقید، گالیوں، فتوؤں، دھمکیوں اور بد دعاؤں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اپنے آپ کو سچا اور پکا مسلمان اور محبت وطن ثابت کرنے کے لیے ایک اور کالم ’’مفتی عزیز کالم لکھنے پر ملنے والی گالیاں، فتوے اور بدعائیں‘‘ ٹائٹل سے کالم لکھنا پڑا۔
لڑکی کا واضح سوال کہ ایک طرف سوسائٹی کے لوگ بہ ظاہر بہت مذہبی ہیں اور دینی شعائر کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ تبلیغی اجتماعات بھی منعقد کرواتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف نشہ آور ادویہ کا استعمال، بدکاری، بچوں کے ساتھ زیادتی اور سود جیسے جرائم میں بھی ملوث ہیں۔
سوال دراصل معاشرے کے متضاد رویے پر تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب نے سوال کو ہی متضاد قرار دے دیا۔ میرے خیال میں لڑکی یہ جاننے کی کوشش کررہی تھی کہ اس بد ترین عملی تضاد کے پیچھے آخر کیا عوامل ہوسکتے ہیں اور اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ مگر اُنھوں نے اُلٹا سوال کرنے پر ہی ڈانٹ پلا دی۔
ڈاکٹر صاحب اور اُن سے محبت کرنے والے دوستوں سے چند سوالات ہیں:
سوال پوچھنا گناہ/ جرم کب سے ہوگیا؟
کیا پاکستان اسلامی ریاست نہیں؟
کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زنا، لونڈے بازی، سود خوری، رشوت ستانی، جھوٹ ایسے کبیرہ گناہ و جرائم رپورٹ نہیں ہوتے؟
کیا مساجد، مدارس، سکول، کالج، یونیورسٹی، گھروں، محلوں میں زنا اور قومِ لوط جرائم کے مقدمات درج نہیں ہوتے ؟
کیا ان گناہوں، جرائم کے سدباب کے لیے قوانین اور سزائیں موجود نہیں؟
اسلامی معاشرے میں گناہ کیوں نہیں ہوسکتے؟
اگر ایسا نہ ہونا ہوتا، تو حدود کے قوانین نافذ ہی کیوں کیے جاتے؟
ڈاکٹر صاحب کو غصہ کیوں آیا؟
لڑکی معافی کیوں مانگے؟
اب ڈاکٹر صاحب کے جواب کو دوسرے رُخ سے دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں ایسے گناہ اور جرائم نہیں ہوسکتے۔ آئینِ پاکستان کے مطابق وطنِ عزیز اسلامی ریاست ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اپنے ہی کلیے کے مطابق جرائم میں ملوث علاقے کے افراد اور خصوصاً آئمۂ مساجد اور مدرسین کو دائرۂ اسلام سے خارج کر نا پڑے گا (خدا نہ خواستہ) اور پاکستان کو غیر اسلامی ریاست ڈکلیئر کرنا پڑے گا (خدا نہ خواستہ)۔
افسوس اس بات پر بھی ہورہا ہے کہ شائستگی سے پوچھے گئے صاف اور سادا سوال کا جواب انتہائی کرخت اور دھتکارنے والے انداز میں دیا گیا (بل کہ جواب تو دیا ہی نہیں گیا) تو اُس وقت وہاں بیٹھے افراد تالیاں بجا کر ڈاکٹر صاحب کو داد دے رہے تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں سوال پوچھنے والے کو تنقیدی اور توہینِ مذہب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ افسوس اس بات پر بھی ہو رہا ہے کہ اتنے عظیم داعی و مبلغ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سوال پوچھنے پر معافی طلب نہیں کی جاتی۔ کیوں کہ سوال کبھی غلط نہیں ہوتا، سوال غیر متعلق ضرور ہوسکتا ہے۔ لہٰذا آپ سوال کا جواب دیں گے، یا غیر متعلق سمجھ کر نظر انداز کردیں گے؟ غلط ہمیشہ جواب ہوتا ہے۔ اُسی پر معافی مانگی جاسکتی ہے۔ آپ کا کام تھا جواب دینا، مگر روایتی مولوی سے بھی کئی قدم آگے نکل کر نہ صرف یہ کہ ناشایستگی کی، بل کہ تین بار معافی کے لیے اصرار کیا۔ سادا سے سوال پر توہینِ مذہب کا تاثر ظاہر کردیا۔
سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم سے لوگ سخت اور عجیب و غریب سوالات بھی پوچھتے، تو نبیِ دو جہاں کسی کو ڈانٹتے نہیں تھے، بل کہ احسن طریقے سے اس کی اصلاح فرماتے تھے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے۔ نوجوان کی یہ بات سن کر صحابہ اُس کی طرف متوجہ ہو کر اُسے ڈانٹنے لگے اور اُسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوان سے فرمایا میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ بالآخر نبی کریم کے حُسنِ سلوک، تبلیغ اور دعا کی بہ دولت اُس نوجوان نے ساری زندگی گناہ کی طرف نہ دیکھا۔
کاش! ڈاکٹر صاحب نبی کریم کی تعلیمات کے عین مطابق سوال پوچھنے والی لڑکی سے حُسنِ سلوک کرتے۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب سے میرا ایک سوال ہے کہ مسجد اور مدرسے سے متبرک کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی، مگر افسوس آئے دن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مولوی حضرات کے خلاف زنا اور لونڈے بازی کے مقدمات درج کیوں ہورہے ہیں؟
ڈاکٹر صاحب! معافی لڑکی کو نہیں، بل کہ آپ کو اپنے طرزِ عمل پر مانگنی چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے