نئی آئینی عدالت کے قیام کا اصل مقصد

Blogger Tariq Hussain Butt

آج کل آئینی ترمیم کا بڑا زور و شور ہے۔ اسے منظور کروانے کے لیے بڑے جتن ہو رہے ہیں، لیکن قانونی ماہرین اور وکلا نے اس ترمیم کو ذاتی مفادات کا شاخ سانہ قرار دے کر رد کر دیا ہے۔ ایک ملک گیر تحریک اس آئینی ترمیم کے بطن سے جنم لے رہی ہے، جس کا ہراول دستہ وکلا بنے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی اور آئین پرست طبقات اس کو افرادی قوت مہیا کررہے ہیں۔
آج کل پی ٹی آئی کے جلسے حکومت کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں، جنھیں روکنے کے سارے جتن کیے جا رہے ہیں، لیکن جب عوام نے ان سارے حربوں کے خلاف مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور اسلام آباد میں 8 ستمبر کو رکاوٹوں کے باوجود بھر پور جلسہ کر کے حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے، تو پھر پی ٹی آئی کے چند ممبرانِ اسمبلی کی گرفتاری کے لیے 10 ستمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس پر سیاہ نقاب پوشوں نے حملہ کر دیا۔ کتنی رسوائی مقدربنی اور دنیا میں کتنی جگ ہنسائی ہوئی؟ وہ کوئی سر بستہ راز نہیں۔اگر منتخب ممبران اپنی پارلیمنٹ میں محفوظ نہیں اور اُنھیں وہاں سے بھی اُٹھا لیا جائے گا، تو پھر جمہوریت کے نعروں کی ساری کہانی بالکل کھوکھلی ہو جائے گی۔ کتنی شرم ناک حرکت ہے کہ حکومتِ وقت نے منتخب ممبران کو رات کے اندھیر ے میں خود اِغوا کیا اور اس کا الزام بھی اپو زیشن کی تحریک پر دھر دیا۔
وہ نقاب پوش کون تھے جو پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ آور ہوئے، کون تھا جس نے اُنھیں بھیجا تھا، اس سازش کا سرغنہ کون تھا، کس کے حکم پر سارا کھیل کھیلا گیا، پارلیمنٹ کا محافظ تو سپیکر اسمبلی ہوتا ہے، تو پھر پوچھا جانا چاہیے کہ سپیکر اس وقت کہاں تھا، پارلیمنٹ لاجز کی چابیاں کس نے نقاب پوشوں کے حوالے کیں، پارلیمنٹ کی روشنیاں کس نے گل کیں، کون تھا جو ممبران کے اِغوا کا ماسٹر مائنڈ تھا، کس نے پورے نظام کو پاؤں تلے روندا، پسِ پردہ کون سے مقاصد تھے جس کے لیے اتنا بڑا قدم اُٹھا یا گیا، پارلیمنٹ کا تقدس کس نے پاؤں تلے روندا، کیا آرٹیکل 6 اُن طاقت ور حلقوں کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے، جوراتوں رات پارلیمنٹ ہاؤس سے ممبران کو اِغوا کر لیتے ہیں؟
سب سے پہلے تو سپیکر قومی اسمبلی کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے، جس کی موجودگی میں یہ شرم ناک اقدام ہوا۔ اگر ہاؤس کا ’’کسٹوڈین‘‘ سویا ہوا ہے، تو اسے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ کیوں کہ پارلیمنٹ کی توہین، آئین کی توہین ہے اور آئین کی توہین، قوم کی توہین ہے۔ حکومت کی ساری توجہ تو اپوزیشن کو نیست و نا بود کرنے پر مرکوز ہے، لیکن سپیکر قومی اسمبلی تو حکومتی نمایندہ نہیں ہوتا، لہٰذا اُسے تو اپوزیشن کے ساتھ اس طرح کا ہتک آمیز رویہ روا نہیں رکھنا چاہیے تھا۔
پی ٹی آئی اپنی شعلہ بیانی اور غیر اخلاقی زبان کی وجہ سے تنقید کا مرکز بنی ہوئی تھی کہ پارلیمان پر حملہ ہوگیا اور پی ٹی آئی کے ممبران کو گرفتار کر لیا گیا،تو پی ٹی آئی کی جان میں جان آئی۔ اسلام آباد، لاہور اور راولپنڈی کے احتجاج نے حکومت کی مت مار دی ہوئی ہے اور وہ اوچھی حرکتوں پر اتری ہوئی ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور کم زور وکٹ پر کھیل رہی ہے۔
پی پی پی جو آئین اور جمہوریت کی دعوے دار ہے، اُس کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہو ر ہا ہے، لیکن وہ پھر بھی مسلم لیگ (ن) کے نیچے لیٹی ہوئی ہے۔ اسے تو آئین شکنوں سے سخت لہجے میں بات کرنی چاہیے تھی، لیکن لگتا ہے کہ بی بی شہید کے ساتھ ہی پی پی پی کا نظریاتی وجود بھی ہوا میں تحلیل ہوگیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اس شرم ناک واقعے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوگا۔ کیوں کہ نقاب پوش حکومتی اشیر باد سے حملہ آور ہوئے تھے۔ لہٰذا اُن سے باز پرس کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ اگر یک جاہو جاتی، تو پھر سب کچھ ممکن تھا، لیکن پارلیمنٹ کی اکثریت تو مالی مفادات کی حریص بنی ہوئی ہے اور اپنے فنڈز کے چکر میں پارلیمنٹ کے تقدس کو غیر اہم سمجھ رہی ہے۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم نے روایتی تقاریر میں زبانی جمع خرچ تو ضرور کیا، لیکن باز پرس کی حد تک بالکل خاموشی کی چادر اُوڑھی ہوئی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اِن دونوں جماعتوں کی ترجیح حکومتی آئینی ترمیم کے لیے ممبران کو پورا کرنا ہے۔ حا لاں کہ یہ آئینی ترمیم جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی پر کھلا حملہ ہے۔ بد دیا نتی اور بد نیتی کبھی سرخ رُو نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح اس آئینی ترمیم پر دو تہائی اکثریت کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ یہ پاکستان، عدلیہ اور عوام کے خلاف کھلا ڈاکا ہے۔ جمہوریت پسند افراد اور اداروں کے لیے ڈاکے کی حمایت کرنا ناممکن ہے۔ لہٰذا ترمیم کی ساری کاوشیں نقش بر آب ہو ں گی۔
مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترمیم پر جو موقف اپنایا ہے، وہ حقیقت پسندانہ ہے۔ کمال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کا مسودہ کسی بھی جماعت کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا تھا۔ اس آئینی ترمیم کو شب کے اندھیرے میں منظوری کا جو ڈراما رچایا گیا تھا، وہ فی الحال ناکام ہو چکا ہے، لیکن حکومت کے لیے سید منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنانا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
فارم 45 کی کہانی ابھی منظرِ عام پر نہیں آئی۔ کیوں کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ الیکشن دھاندلی والی پٹیشن کو سننا نہیں چاہتے۔ وہ پٹیشن 8 فروری کے بعد ابھی تک التوا میں ہے، جو کہ حکومت کے لیے عافیت کا باعث ہے ۔ سید منصور علی شاہ نے پہلا کام یہی کرنا ہے کہ فارم 45 والے امیدواروں کے سارے فارم مکمل ریکارڈ کے ساتھ حاضر کرلینے ہیں اور پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی چوں کہ دھاندلی کی پیدا وار ہیں، اس لیے وہ سید منصور علی شاہ کے بحیثیت چیف جسٹس حلف اٹھانے کے مخالف ہیں۔ ایک ماہ سے کم وقت رہ گیاہے اور ابھی تک سید منصور علی شاہ کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا۔
نئی آئینی عدالت کے قیام کا واحد مقصد انتخابی دھاندلی کے سارے ریکارڈ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنا ہے۔ پوری اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن اور انتظامیہ 8 فروری کے انتخاب کی ہیرا پھیری کی مجرم ہے۔ لہٰذا خوف زدہ ہے کہ سید منصور علی شاہ کی بحیثیت چیف جسٹس تعیناتی ان کے لیے بلیک وارنٹ کے مترادف ہوگی۔ لہٰذا وہ شاہ صاحب کو ہر قیمت پر روکنا چاہتے ہیں۔ پی پی پی جس کے دورِ حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہوتا تھا، آج اُن کے دورِ اقتدار میں سیاسی قیدیوں کا سیلاب آیا ہوا ہے اور وہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ اور ممبران کا اِغوا اتنا بڑا واقعہ تھا، جس پر پی پی پی کو پی ڈی ایم سے اپنی حمایت واپس لے لینی چاہیے تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا، بل کہ آصف علی زرداری نے پروسیجیرل کمیٹی والے متنازع آرڈینس کا اجراع کرکے ثابت کر دیا کہ پی پی پی اب اقتدار پرست جماعت ہے۔ پی پی پی نے جس طرح قاضی فائز عیسیٰ کو کھلا ہاتھ دیا ہوا ہے، اُس پر آئین پسند حلقے حیرانی میں مبتلا ہیں۔ ایسے تمام مقدمات جن میں حکومت کی سبکی کے امکانات ہیں، وہ سارے مقدمات قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں لگیں گے اور حکومت کی موجیں ہو ں گی۔
فارم 45 جو کہ انتخا بی عمل کی سب سے اہم دستا ویز ہے، قاضی فائز عیسیٰ اسے کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ چیف جسٹس کی کرسی پر رونق افروز ہونے والا انسان اگر فارم 45 کی اہمیت کا انکاری ہے، تو پھر دھاندلی کی پٹیشن کا فیصلہ نوشتۂ دیوار ہے۔ ایک عام انسان کو بھی اس بات کا علم ہے کہ فارم 45 ہی الیکشن 2024ء کی بنیادی اور اصلی دستاویز ہے اور اسی فارم کی بنیاد پر سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہونا ہے، لیکن قاضی صاحب اسی کی صحت سے انکاری ہیں۔ حکومتِ وقت کے لیے تھیلوں میں ووٹ بھرنا کتنا آسان ہو تا ہے اورجنرل ایوب خان کے الیکشن سے یہی کچھ ہو رہا ہے، لیکن قاضی صاحب کی معصومیت دیکھیے کہ اُنھیں اس بات کا بھی علم نہیں کے ڈبے بدلے اور بھرے جاتے ہیں۔ اُن کے سامنے سب کچھ ہوا ہے۔ جیتے ہوئے ہر وائے گئے ہیں، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ کیوں کہ اُنھیں ایکسٹینشن لینی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے