ملک شیخ آدم ملی یوسف زئی عالم فاضل مشاہیر میں سے ایک تھے، جو یوسف زئی کے مشہورملک، ملک احمد خان بابا کے ہم عصر اور اُن کے رفقائے کار میں سے تھے۔ پختونخوا پر قبضہ کے بعد بڑا سوال یہ تھا کہ مقبوضہ علاقوں کویوسف زئی اقوام میں کیسے تقسیم کیاجائے اور یہ کام شیخ آدم ملی نے بہتر طریقے سے سرانجام دیا۔
ملک شیخ آدم ملی ایک تاریخ دان، جغرافیہ دان اور ادیب تھے، لیکن اُن کا سب بڑا کارنامہ اراضی کابندوبست اور تقسیم ہے، جس کے مطابق یوسف زئی، مندڑ اور معاون قبائل میں گندھارا کا سابقہ علاقہ پشاور، دوآبہ، ہشت نگر، مردان، صوابی، سوات، دیر، بونیر، شانگلہ، باجوڑ اور دیگر علاقوں کو بڑی مہارت کے ساتھ مُلک یوسف زئی، مُلک محمد زئی، مُلک گگیانی، مُلک داؤد زئی، مُلک خلیل اور مُلک مہمند میں تقسیم کیا۔ اراضیات کی تقسیم وہ شخص کرسکتا تھا، جو بڑا مفکر، قبائلیوں کے مزاج سے با خبر اور جغرافیہ کی شد بد رکھتا ہو اور شیخ آدم ملی کو ان سب کی مہارت حاصل تھی۔
اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ملک شیخ ملی نے اراضیات کی تقسیم کا ایک بہتر نظام وضع کیا، جو یوسف نامے میں ’’ویش‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ انھوں نے یہ کام اس قابلیت، مہارت، ہوش یاری اوردانائی سے کیا کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ قبیلوں کی آپس کی لڑائیوں سے بچنے کے لیے اُن کی اراضیات کے درمیان یوسف زئی ستانہ داروں کو اراضیات بہ طور سیرئی دے دی گئیں۔
یوسف زئی اور مندڑ یوسف زئی میں جو اراضیات تقسیم کی گئی تھیں، وہ ایک جیسے زرخیز اور آب پاشی کے لائق نہیں تھیں۔ اس لیے دستور کے مطابق یہ تقسیم مستقل نہیں رکھی گئی اور وضع کردہ دستور کے مطابق اُن کی آپس میں قرعہ اندازی ہوتی تھی۔ قبائل ایک خاص مدت تک قرعہ میں ملنے والی زمینوں پر رہایش پذیر ہوا کرتے تھے۔ یہ قرعہ اندازی کہیں پانچ سال، کہیں سات سال اور کہیں دس سال پر محیط ہوتی تھی۔ مدت پوری ہونے پر یہ عمل دوبارہ دہرایا جاتا تھا ۔
شیخ آدم ملی کی یہ تقسیم علاقے میں ’’ویش‘‘ کے نام سے موسوم تھی اور اس کا ریکارڈ ’’دفتر شیخ ملی ‘‘ کے نامہ سے جانا جاتاہے۔
شیخ ملی کی اراضیات کی اس تقسیم کا ریکارڈ ’’ دفتر شیخ ملی ‘‘ کہیں بھی دست یاب نہیں۔ حمید اللہ خان آف سوات کے مطابق’’ دفتر شیخ ملی‘‘ کی تین کاپیاں تھیں، ایک کاپی سوات ڈھیرئی کے ایک ملا، دوسرا نسخہ خوانین تھانہ اور تیسرا نسخہ شاہ کوٹ کے ملا غلام محمد کے پاس تھا۔
شیخ ملی کی دوسری کتاب ’’ فتح سوات‘‘ ہے، یہ بھی دست یاب نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں کتابیں’’میجر راورٹی‘‘ حیلوں بہانوں سے حاصل کر کے برطانیہ بھیج چکے ہیں۔ اسے یوسف زئی قوم کی بے حسی یا بد قسمتی کہیے کہ اُنھیں اپنے بزرگوں کی قبروں کے بارے میں علم ہی نہیں اور اگر علم ہے بھی، تواُن مزارات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، جو وقت گزرنے کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوچکے ہیں، یا اُن مزارات کی اراضی پر قبضہ مافیا قبضہ کرچکے ہیں۔
ہمارے حرص اور لالچ کا یہ حال ہے کہ ہم نے مقبروں پر دُکانیں، مارکٹیں اوربلند و بالا عمارات تعمیر کیں، یا اُنھیں دوسروں کے ہاتھ فروخت کر دیے۔ یہی کچھ یوسف زئی کے مایہ ناز ’’اتل‘‘ (ہیرو) ملک شیخ آدم ملی کے مزار کے ساتھ بھی ہوا۔ پہلے تو شیخ ملی کے مزار کے بارے میں کسی کو علم ہی نہیں تھا، لیکن بعض تاریخ دانوں نے اُن کے مزار کی نشان دہی کی اور اُن کی کوششوں سے مزار کو سرکاری طور پر از سرِ نو تعمیر بھی کیا گیا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ قمبر سوات میں شیخ ملی کے مزاراور مقبرے کی بیش تر اراضی پر قبضہ مافیا نے قبضہ جما کر مکانات تعمیر کیے اور مزار کی اِرد گر کی اراضی پر کاشت کاری کی جا رہی ہے، جب کہ مزار تک آنے جانے کے لیے راستہ تک نہیں۔ مزار کے متوالے نے مزار کے اندر پیاز سے بھری بوریاں رکھ کر گودام میں تبدیل کر دیا ہے۔ مزار کے اِرد گرد نکاسئی آب کی نالیوں میں ہر وقت گندا پانی جمع رہتا ہے، جس کی بد بُو سے مزار کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔
مزار اور مقبرے کی زمین پر قبضہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اُن کی پدری جائیداد ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پختونوں اور خاص کر یوسف زئیوں کے اتنے بڑے مشہور ملک ’’ملک شیخ آدم ملی‘‘ کو جہاں دفن کیا گیا تھا، تو کیا وہ صرف دو گز کی زمین تھی؟ نہیں، بالکل نہیں……! ایسا ہو ہی نہیں سکتا، بل کہ مزار اور مقبرے کی اراضی کئی کنال پر مشتمل تھی، لیکن قبضہ مافیا اسے اپنی جائیداد ظاہر کر رہا ہے۔
مزار تعمیر کرنے والے مزدوں کا کہنا تھا کہ کھدائی کے وقت یہاں سے کافی تعداد میں مُردوں کے باقیات برآمد ہوئے ہیں، جن میں بعض کی کھوپڑیاں اتنی بڑی تھیں کہ سیمنٹ کی بوری میں سما نہیں سکتی تھیں۔
مقامی لوگوں سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ مقبرے کی یہ اراضی کئی کنال پر مشتمل تھی، لیکن اس پر بعض لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
مردان کے شکیل پرویز یوسف زئی کی کوششوں سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ اراضی مقبرے ہی کی ہے۔ گردآور کے ریکارڈ کے مطابق یہ اراضی 59 کنال اور 5 مرلے پر مشتمل ہے، جس میں سے 5 مرلے شاید کسی کی ذاتی ملکیت ہو، جب کہ بقیہ اراضی مقبرے ہی کی ہے۔
یوسف زئی قوم اور خاص کرنوجوانوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کے مزارات کو از سرِ نو تعمیر کرکے اُن کی تقدس کوبہ حال کریں گے۔ اُن مزارات میں سے ایک مزار شیخ ملی بابا کا ہے، جس کی اراضی پر بعض لوگ قابض ہیں۔نوجوانوں کاکہنا ہے کہ ہم شیخ ملی بابا مقبرے کی اراضی کو کسی بھی صورت میں واگزار کرائیں گے، خو اہ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔
مقبروں کی حفاظت اور تکریم قائم رکھنا انتظامیہ کی ذمے داری میں شامل ہے۔ سوات انتظامیہ میں کمشنر سوات امجد علی خان جس کا تعلق اسی علاقے سے ہے، ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر حامد علی خان، اسسٹنٹ کمشنر اور ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی ذمے داری ہے کہ وہ سرکاری طور پر مزار اور مقبرے کی تقریباً 59 کنال اراضی قبضہ مافیا سے واگزار کروائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔