کبھی خواب نہ دیکھنا (تیسری قسط)

Blogger Riaz Masood

(فضل رازق شہابؔ صاحب کی انگریزی میں لکھی گئی خود نوشت "Never Ever Dream Again” کا اُردو ترجمہ، جسے لفظونہ ڈاٹ کام پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے)
اَب اپنے بچپن میں واپس چلتے ہیں۔ مجھے غالباً 1950ء میں سکول بھیجا گیا۔ میرا بڑا بھائی پہلے ہی تیسری جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ میرے والد کو دفتر سے ایک گھنٹے کی چھٹی ملی اور وہ مجھے ودودیہ ہائی سکول کے پرائمری بلاک میں لے گئے، جو لالہ جان اُستاد کی سربراہی میں چل رہا تھا۔ مَیں نہیں جانتا کہ اُن کا اصل نام کیا تھا لیکن، اُنھیں ہر کوئی اسی نام سے پکارتا تھا۔
مجھے بھی اسکول کی ٹوپی دیگر تمام طلبہ کی طرح مفت دی گئی، لیکن اُس بلاک میں میرے معدودے چند ہی دن تھے، کیوں کہ شگئی میں ایک نیا اسکول ’’اینگلو ورنیکولر لوئر مڈل اسکول‘‘ کے نام سے نچلی کلاسوں کے لیے تیار ہوچکا تھا۔ ودودیہ سکول کے پرانے پرائمری بلاک کو بورڈنگ ہاؤس میں تبدیل کر دیا گیا اور ہمیں نئی عمارت میں شفٹ کر دیا گیا۔
میرا بڑا بھائی جسمانی طور پر بہت مضبوط تھا اور وہ میرے لیے حفاظت کا بہت بڑا ذریعہ تھا۔ مَیں بہت نازک تھا اور مجھے اسکول کے ساتھ ساتھ افسرآباد میں بھی اُس پر انحصار کرنا پڑتا تھا، جہاں ہماری رہایش تھی۔ وہ زیادہ ذہین تھا اور ہمیشہ مجھے امتحان میں پیچھے چھوڑ جاتا تھا۔ مجھے اُس پر البتہ ایک فوقیت حاصل تھی۔ مجھے خاص طور پر اجازت دی گئی کہ جب بھی مَیں چاہتا اپنے امتحانات دے سکتا تھا اور یوں تین سالوں میں، مَیں نے اپنے بھائی کو چھٹی جماعت میں جا لیا۔
جب مَیں نے ہوش سنبھالا، تو مَیں نے دیکھا کہ میرے پڑوسی بدل گئے ہیں۔ اُس وقت ہمارا پڑوسی عبدالحنان کمان افسر تھا۔ ہم اُنھیں ’’ماما‘‘ کہتے تھے، جیسا کہ اُن کے بیٹے اسفند یار اور بخت روان ہمارے والد کو بھی ’’ماما‘‘ کہتے تھے۔ ہم آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے۔ اکثر ایک دوسرے کے گھروں میں سو بھی جاتے اور زیادہ تر وقت ساتھ رہتے۔ اُن دِنوں لڑکے سکول جانے کی عمر تک ٹخنوں تک بغیر شلوار کے لمبی قمیصیں پہنتے تھے، لیکن لڑکیاں پوری طرح ڈھکی رہتیں، حتیٰ کہ ماؤں کی گود میں بھی۔
مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ سیف الملوک صدیقی کو تحصیل دار کے عہدے پر ترقی دے کر والی صاحب (اُس وقت ولی عہد) کے گھر کے پیچھے ایک مکان میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ میرے والد کو بھی کرنگ، انڈس کوہستان میں تحصیل دار کے عہدے کی پیش کش ہوئی تھی، لیکن اُنھوں نے ہماری تعلیم کی خاطر اتنی دور جانے سے انکار کر دیا۔ والی صاحب نے اُن کا عذر قبول کرلیا اور اُنھیں سیدو میں اپنے آرمی آفس میں رہنے دیا۔
والی صاحب نے یہ پیش کش ہر سال تین، چار بار دہرائی، لیکن والد صاحب انکار پر ڈٹے رہے۔ والی صاحب نے بہ ظاہر اپنی ناراضی ظاہر نہیں کی، لیکن عملی طور پر 1969ء میں ریاست کے انضمام تک میرے والد کو پروموشن کے حقوق سے ہمیشہ محروم رکھا۔
میرے والد نے بہت تکلیفیں برداشت کیں، لیکن اپنے بیٹوں کی تعلیم کی خاطر کبھی شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ لائے۔ اگرچہ ہمارے پاس کافی زمینیں تھیں، لیکن اُن دِنوں پیداواری صلاحیت بہت کم تھی۔ ہائبرڈ بیج ابھی متعارف نہیں ہوئے تھے اور زمین کے مالکان بہت مشکل زندگی گزارتے تھے۔ اسی بنا پر وہ سروس ترک نہیں کر سکتے تھے۔
بہ ہر حال یہ فیصلہ ہمارے خاندان کے کچھ لوگوں کے لیے کارآمد ثابت ہوا۔ (اور نتیجتاً اَب) ہمارا خاندان نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ ہے اور یہاں تک کہ ہماری نوجوان لڑکیاں ڈاکٹر ہیں، یا سائنس اور تعلیم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہیں۔
میرے والد مجھ سے بہت قریب تھے اور اپنے فارغ اوقات میں مجھے اپنے ساتھ رکھتے۔ وہ مجھے اپنے چوڑے سینے پر اپنے ساتھ سونے دیتے۔ میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے شیر خان کے لیے اپنی ساری محبت مجھ پر نچھاور کر دی۔ حالاں کہ مَیں اپنے خاندان میں سب سے بد صورت تھا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے