آئینِ پاکستان میں ممکنہ 26ویں آئینی ترمیم کے بہت چرچے ہیں۔ کہیں اعلا عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ عمر کے تعین کا چرچہ ہے، توکہیں آئینی عدالت کے قیام پر قیاس آرائیاں۔ کہیں آئینی عدالت کے قیام کی شدید مخالفت کی جارہی ہے، تو کہیں اس کے حق میں توجیہات پیش کی جارہی ہیں۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے برخلاف ہونے والی تنقید بھی بے جا نہیں۔
جیسے جیسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ قریب آرہی ہے، ویسے ہی موجودہ حکومت کی عدالتی اصلاحات کے لیے پھرتیوں نے تمام معاملات کو مشکوک بنا دیا ہے۔ بہ ہرحال آئین و قانون اور موجود سیاسی، سماجی اور عدالتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ آیا آئینی عدالت کا قیام سیاسی چال ہے، یا پھروقت کی اشد ضرورت؟
سوال کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے کے جواب کی کھوج مجھے میثاقِ جمہوریت کی دستاویزات تک لے پہنچی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے دہائیوں کے سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر 14 مئی 2006ء چارٹر آف ڈیموکریسی یعنی میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔ اس کے سیکشن 4 میں درج تھا کہ ’’آئینی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس میں ہر وفاقی اِکائی کو مساوی نمایندگی دی جائے گی۔ عدالت کے ممبران جج ہوں گے، یا سپریم کورٹ کے جج بننے کے اہل۔ اور ان ججوں کی تعیناتی چھے سال کی مدت کے لیے ہوگی۔ ججوں کا تقرر اُسی طریقے سے کیا جائے گا، جس طرح اعلا عدلیہ کے ججوں کا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس دیوانی اور فوج داری مقدمات کی باقاعدہ سماعت کریں گی۔‘‘
سوال کے پہلے حصے کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بادی النظر میں دونوں جماعتوں کی جانب سے آئینی عدالت کے قیام کے لیے تگ و دو کرنا سیاسی چال نہیں، بل کہ یہ ایک ایسا سیاسی و سماجی معاہدہ تھا، جس پر یہ جماعتیں آج سے 18 سال پہلے متفق ہوئی تھیں، لیکن یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ میثاقِ جمہوریت کے بعد دونوں جماعتیں پانچ پانچ سال برسرِاقتدار رہیں، مگر اس دوران میں اُن کو آئینی عدالت بنانے کا خیال کیوں نہ آیا؟
یاد رہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کی صورت میں دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت کے بیش تر نِکات پر عمل درآمدکرلیا تھا۔یہی وہ وقت تھا، جب طاقت ور حلقوں نے پی ٹی آئی کی صورت میں متبادل تیسری سیاست قوت کے پلان کو عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کرلیا تھا۔ کیوں کہ طاقت ور حلقے یہ جانتے تھے کہ اگر میثاقِ جمہوریت پر 100 فی صد عمل دارآمد کرلیا گیا، تو ان کی طاقت پر گہری چوٹ لگے گی۔ پھر دونوں جماعتوں کے خلاف محلاتی سازشیں رچائی گئیں، جن میں دونوں جماعتیں خود ایک دوسرے کے خلاف سازش کا ایندھن بھی بنیں۔ اس بنا پر میثاقِ جمہوریت کی باقی ماندہ شقوں پر عمل بھی نہ ہو پایا۔
سوال کا دوسرا حصہ، کیا آئینی عدالت کی واقعی ضرورت ہے؟ اس سوال کے جواب کی کھوج میں ہمیں ’’لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ کی شش ماہی رپورٹ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اس رپورٹ کے مطابق دسمبر 2023ء تک پاکستان کی تمام عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 22 لاکھ سے زائد ہے اور خصوصاً سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 56 ہزار ہے اور سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 16 ستمبر 2024ء تک زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ میں اگر مزید مقدمات دائرنہ بھی کیے جائیں، تو ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف انھی 60 ہزار مقدمات کی شنوائی کے لیے کم از کم تین سے چار سال درکار ہوں گے۔
عام عوام کے مقدمات سالوں تک ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوپاتے، مگر آئینی معاملات کی تشریح کے لیے رٹ پٹیشن نہ صرف فی الفور مقررہوجاتی ہیں، بل کہ شنوائی کے لیے ججوں کی فوج بھی دست یاب ہوتی ہے۔ بسااوقات آدھی رات کو عدالتیں بھی کھل جاتی ہیں اور ہفتوں، بل کہ مہینوں تک ان مقدمات کی سماعتیں جاری رہتی ہیں۔ ان سماعتوں کے دوران میں فوج داری اور دیوانی مقدمات پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔
یاد رہے 1997ء کے ایکٹ کے مطابق سپریم کورٹ ججوں کی تعداد بہ شمول چیف جسٹس 17 طے پائی تھی، جس وقت پاکستان کی کل آبادی 14 کروڑ کے قریب تھی، مگر آج 25 کروڑ آبادی کے لیے وہی 17 جج ہیں۔
اسی طرح کی صورتِ حال پاکستان کی پانچوں ہائیکورٹس کی ہے۔ یاد رہے دوہرا عدالتی نظام بہ شمول جرمنی، اٹلی، سپین، آسٹریا، جنوبی افریقہ، پولینڈ، روس، ترکیہ، کولمبیا، جنوبی کوریا، چلی اور پرتگال سمیت یورپی، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے کئی ممالک میں رائج ہے۔ جس میں فوج داری مقدمات اور آئینی معاملات کے لیے علاحدہ علاحدہ عدالتیں قائم ہیں۔
آپ حکومت کی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی مخالفت اس بنا پر ضرور کرسکتے ہیں کہ اس کی ٹائمنگ بہت غلط ہے۔ کیوں کہ اپوزیشن جماعتیں خصوصاً پی ٹی آئی وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور ممکنہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو آئینی عدالت کی سربراہی ملنے پر شدید تحفظات کی شکار ہے، مگر آپ آئینی عدالت کے قیام کی ضرورت سے انکار نہیں کرسکتے۔ انصاف کے حصول کے لیے کئی دہائیوں تک ذلیل و خوار ہونے والی عوام کی دادرسی کے لیے نہ صرف عدالتوں میں ججوں کی تعداد کو بڑھانا ہوگا، بل کہ آئینی عدالت کے قیام کے لیے رستے ہم وار کرنا ہوں گے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی کو اعتماد میں لینا ہوگا اور اس تاثر کو زائل کرنا ہوگا کہ حکومتِ وقت کی جانب سے آئینی عدالت کے قیام کا مقصد صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہر صورت عدالتی اثر ورسوخ میں رکھنا اور سپریم کورٹ کی طاقت کو کم زور کرنا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی تمام پارلیمانی و سیاسی جماعتیں عوام الناس کے دُکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے پارلیمینٹ میں بے لوث و شفاف انداز میں قانون سازی کرتے ہوئے وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور اعلا عدلیہ میں ججوں کی تعداد کو بڑھانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں اور متفقہ طور آئینی و قانونی ترامیم کو منظور کروائیں، تاکہ دہائیوں تک عدالتوں میں دھکے کھاتی عوام کے لیے تیز رفتار حصولِ انصاف ممکن ہوسکے۔
یاد رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 37-C کے تحت ریاستِ پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ سستے اور تیز رفتار انصاف کو یقینی بنائے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔