سارجنٹ میجر مہاتما گاندھی

Blogger Hamza Nigar

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد برصغیر سے ایسٹ انڈیا کمپنی کا راج ختم ہوا اور گریٹ بریٹن کی بہ راہِ راست حکم رانی شروع ہوئی۔ اُس صدی کے آخر میں ’’انڈین سول سروس‘‘ کے ایک ریٹائرڈ آفیسر ’’اکٹیوین ہیوم‘‘ (Allan Octavian Hume) نے انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھ دی، تاکہ ہندوستانیوں کو سیاست کے لیے ایک پلیٹ فارم مل جائے۔ پارٹی کے بانیوں میں ’’سریندر ناتھ بینرجی‘‘، ’’فیروز شاہ مہتا‘‘ اور ’’بدر الدین تائب جی‘‘ تھے۔ یہ سارے راہ نما اپنے سیاسی خیالات میں سیکولر تھے۔ کانگریس پورے ہندوستان کی نمایندہ پارٹی کے طور پہ منظر عام پر آئی تھی۔
مسلم لیگ کے قیام کے بعد کانگریس کی اس دعوے داری میں دراڑ پڑنا شروع ہوگئی۔ شروعات میں یہ صرف مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آگے تھی، لیکن آگے چل کر مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان بڑھتی خلیج، تقسیمِ ہند پر جا کر ختم ہوئی۔ محمد علی جناح پہلے کانگریس میں تھے اور بعد میں مسلم لیگ کے اہم راہ نما بنے۔
1918-19ء تک کانگریس پارٹی میں بال گنگا دھر تلک، بپن چندر پال اور لالا لاجپت رائے جیسے راہ نما ٹاپ لیڈرشپ تھے، لیکن بال گنگا دھر تلک کے انتقال کے بعد کانگریس کی بھاگ دوڑ گاندھی جی کے ہاتھ میں آئی۔ گاندھی جی تقریباً 20 سال ساؤتھ افریقہ میں گزارنے کے بعد ہندوستان لوٹے تھے۔
گاندھی جی ایک وکیل کی حیثیت سے ساؤتھ افریقہ گئے تھے۔ جہاں پہ ہندوستان کے ایک تاجر دادا عبداللہ کا مقدمہ لڑا۔ گاندھی جی وہاں پر ہندوستانیوں کی حالت دیکھ کے اُن کے حقوق کے لیے سرگرم رہے۔ اسی دوران میں ساؤتھ افریقہ میں "Boer War” لڑی جا رہی تھی۔ یہ انگریز سامراج کے خلاف لڑائی تھی، جس کو افریقی کسان لیڈ کررہے تھے۔ گاندھی جی نے انگریز سرکار کی طرف سے لڑنے کی خواہش ظاہر کی، جو کہ مسترد ہوئی۔ گاندھی جی ’’برٹش ایمپائر‘‘ کو بچانے میں پیش پیش تھے۔ بالآخر گاندھی جی کے اصرار پہ اُن کو ایمبولینس سروس لیڈ کرنے کی اجازت ملی، جس کے لیے گاندھی نے 1100 رضاکاروں کی ایک فوج بنائی، جن کا مقصد فوجی زخمیوں کو ہسپتال یا ابتدائی طبی امداد مہیا کرنا تھی۔ ان خدمات کے عوض گاندھی جی کو ’’سارجنٹ میجر‘‘ کا خطاب ملا۔ گاندھی جی ساؤتھ افریقہ میں سفید نسل کی برتری کو بھی مانتے تھے۔
20ویں صدی کی دوسری دہائی میں گاندھی جی ہندوستان پہنچے اور کانگریس کے سپریم لیڈر کے طور پہ سامنے آئے۔ اَب وہ سوٹ بوٹ پہنے وکیل نہیں، بل کہ کھدی کُرتا پہنے، عدم تشدد کا فلسفہ لے کے ہندوستان کے اُفق پہ نمودار ہوئے۔ ایک ایک کر کے پرانے کانگریسی پارٹی سے بے زار ہوئے، جن میں سے ایک بڑا نام حسرت موہانی کا تھا، جو کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے اور جنھوں نے کہا تھا کہ
گاندھی کی طرح بیٹھ کے کاٹیں گے کیوں چرخا
لینن کی طرح دیں گے نہ دنیا کو ہلا ہم
اُسی دور میں گاندھی جی نے ’’خلافت تحریک‘‘ کا آغاز کیا، جس کے پیچھے ’’لارڈ چیمسفورڈ‘‘ تھا، جن کی ڈاکٹر انصاری کو یقین دہانی کے بعد تحریک کا آغاز ہوا۔
خلافت تحریک کے دوران میں ابوالکلام آزاد اور مولانا شوکت علی کو بھی جیل سے رہائی مل گئی، تاکہ یہ دونوں بھی سرگرمِ عمل ہوں۔ جب کہ جناح صاحب نے خلافت تحریک کی مخالفت کی تھی۔
اب کانگریس گاندھی، نہرو، سردار پٹیل اور راج گوپال اچاریہ کے ارد گرد گھومنے لگی۔ 1938ء میں سبھاش چندر بوس کانگریس کے صدر بنے، تو اسے استعفا دینے پہ مجبور کیا گیا۔ کیوں کہ وہ عدم تشدد کے فلسفے کے خلاف تھے۔ سبھاش چندر بوس نے ’’انڈین نیشنل آرمی‘‘ بنائی۔ جاپان اور جرمنی سے مل کے برطانوی سامراج کے خلاف لڑے۔ جب جواہرلال نہرو نے کانگریس کی صدارت کے لیے باچا خان کا نام تجویز کیا، تو گاندھی جی نے اس کی بھی مخالفت کی۔
گاندھی جی ہندوستانیوں کے لیے تو سیکولر تھے، لیکن خواب ان کے رام راجیہ کے تھے۔ ’’وردہ سکیم‘‘ اور ’’ودھیا مندر سکیم‘‘ کو بھی گاندھی جی کی سرپرستی حاصل تھی، جس نے بڑھتی ہوئی ہندو مسلم خلیج کو اور بڑھایا۔ دِلت راہ نما ’’بھیم راؤ امبیڈکر‘‘ کے ساتھ بھی گاندھی جی کی کچھ خاص نہیں بنتی تھی۔
’’نتھو رام گودسے‘‘ نے "Why I killed Gandhi” میں لکھا ہے کہ گاندھی جی کا عدم تشدد کا فلسفہ غلط تھا۔ جس عدم تشدد کی گاندھی بات کررہے تھے، اس کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں۔
گودسے کے مطابق ’’رامائن‘‘ اور ’’بھارت‘‘ میں تشدد واضح طور پہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
گاندھی جی کا رویہ ایک سنیاسی کا تھا، نہ کہ ایک سیاست دان کا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو، برا مت بولو۔‘‘ عدم تشدد کا فلسفہ جہاں سے لیا گیا تھا، وہاں بھی تشدد کی گنجایش رہی۔ کرشن، ارجن، رام، گورو گوبند سنگھ اور شیوا جی سب نے ہتھیار اٹھائے تھے۔
گاندھی جی سے اختلاف بہت سارے ہوسکتے ہیں، لیکن وہ ’’سابرمتی آشرم‘‘ میں چرخہ چلاتے چلاتے ’’موہنداس‘‘ سے ’’مہاتما‘‘ اور پھر ’’باپو‘‘ بن گئے۔ وہ منصب جو آشوک تخت پہ بیٹھے اور تخت ٹھکرا کے بھی حاصل نہ کرسکے۔ وہ تقسیم کے بعد چندر گپت موریہ نہیں، بلکہ ’’کوٹلیہ چانکیہ‘‘ بنے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے