پاکستان میں اعلا ترین عہدے دراوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو حکومت بچانے کے لیے پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں 3 سال کے لیے توسیع دینا پڑی۔ پرویز مشرف کے خلاف ’’آرٹیکل 6‘‘ کے تحت چلائی جانے والی کارروائی اور راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے انکار مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے مشکلات کا سبب بنا۔
قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ راحیل شریف کے لیے ’’جانے کی باتیں ہوئیں پرانی‘‘، ’’جانے کی باتیں نہ کرو‘‘ اور ’’خدا کے لیے اب آجاؤ!‘‘ ایسے الفاظ سے مزین بڑے بڑے پینا فلیکس بورڈ پاکستان کے بڑے شہروں میں آویزاں کردیے گئے۔ بہ ہرحال راحیل شریف اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع حاصل کرنے میں ناکام رہے، جس کا خمیازہ مسلم لیگ (ن) کو دورانِ حکومت اور بعد ازاں بھاری قیمت سے چکانا پڑا۔ اس کے بعد تحریکِ انصاف کی حکومت، جس کے بانی جناب عمران احمد خان نیازی مسند اقتدار براجمان ہونے سے پہلے کسی بھی اعلا ترین عہدے دار، خصوصاً آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں اضافہ کے سخت ترین ناقد رہے، اور دوسری جنگِ عظیم اور برطانیہ کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ حالتِ جنگ میں بھی فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں دی گئی، مگر 19 اگست 2019ء کو موصوف نے ’’علاقائی سیکورٹی حالات‘‘ کے نام پر قمر جاوید باجوہ کو 3 سالہ مدتِ ملازمت توسیع کے نوٹیفیکیشن پر دستخط کیے۔ جیسے پیپلز پارٹی افتخار چوہدری بہ حالی کے لیے تحریک کوسپورٹ کرنے پر آج تک پچھتاوے کا اظہار کرتی ہے، اُسی طرح آج کل اڈیالہ میں مقیم ’’قیدی نمبر 804‘‘قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینا سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ’’اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔‘‘ جس طرح تحریکِ انصاف ثاقب نثار، گلزار احمد، آصف سعید کھوسہ، عمرعطا بندیال جیسے ججوں کو اپنے لیے ’’مشکل کشا‘‘ سمجھتی رہی، عین اُسی طرح مسلم لیگ (ن) موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے لیے ’’حاجت روا‘‘ سمجھی بیٹھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ججوں کی ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع، آئینی مقدمات کے لیے علاحدہ عدالت کے قیام اور ججوں کی قابلیت اور تعیناتی کی خاطر آئینی ترمیم کے لیے کی جانے والی پُھرتیاں قابلِ دید ہیں۔
موجودہ پارلیمانی پارٹیوں کی عددی تعداد دیکھی جائے، توحکومتِ وقت کے پاس آئینِ پاکستان میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں، مگر یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے سال 2003ء میں پرویز مشرف کی حامی جماعت مسلم لیگ (ق) اور اپوزیشن جماعتوں بہ شمول مولانا فضل الرحمان نے مل کر 17ویں آئینی ترمیم کو منظور کرکے پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999ء سے لے کر دسمبر 2003ء تک کے غیر آئینی اقدمات کو تحفظ فراہم کرکے آئین کے آرٹیکل "270-AA” کا حصہ بنا دیا اور آمر پرویز مشرف کے لیے مزید 5سال کے لیے صدر بننے کی راہ ہم وار کردی۔اسی طرح قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے وقت تمام پارلیمانی پارٹیوں نے باجماعت منظوری دلوائی تھی۔
یاد رہے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے لیے پارلیمنٹ میں سادہ اکثریتی ووٹوں کی ضرورت تھی، جو تحریکِ انصاف کے پاس پہلے ہی سے موجود تھی، مگر پارلیمنٹ میں موجود تقریباً تمام سیاسی جماعتوں بہ شمول تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بانہوں میں بانہیں ڈال کر آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور کروائی۔ آج بھی اگر طاقت ور حلقوں نے آئینِ پاکستان میں ترمیم کی ٹھان لی، تو چشمِ فلک دیکھے گی کہ کیسے اراکینِ اسمبلی خوشی خوشی آنکھیں بند کرکے قانون سازی میں حصہ لیں گے۔
حکومتی پُھرتیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ یہ کیسی قانون سازی ہے جس کا ڈرافٹ ممبرانِ پارلیمنٹ نے ابھی تک نہیں دیکھا۔ بہ حیثیت قانون کے طالب علم، مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ جج اور عدلیہ کے حوالے سے مبینہ قانون سازی کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈروں میں وکلا تنظیموں کا بھی شمار ہوتا ہے، مگر پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلوں کو اعتمار میں لینے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔
پاکستان جیسی ریاست کی بدقسمتی رہی ہے، جہاں ایک طرف اعلا ترین عہدوں پر براجمان اپنی ایکسٹینشن کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے دِکھائی دیتے ہیں، تو دوسری طرف انھی اداروں کے دیگر عہدے دار ایکسٹینشن مراحل کے دوران میں حمایت یا مخالفت میں ہر حد عبور کردیتے ہیں۔ بالفرض آئینی ترامیم منظور بھی ہوجاتی ہیں اور موجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 65 سال کی بجائے 68 سال کی عمر یعنی مزید 3 سال تک اس عہدے پر براجمان رہتے ہیں، تو کیا پاکستانی عدلیہ کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے؟ کیا سپریم کورٹ سمیت پاکستانی عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد زیرِ التوا مقدمات ختم ہوجائیں گے؟
موجودہ حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح ’’قیدی نمبر 804‘‘ نے اقتدار کو طول دینے کے لیے طویل مدتی پلاننگ کرتے ہوئے قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دی، مگر آج وہ انھی کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ مستقبل میں کہیں مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کی طرح پچھتانا نہ پڑ جائے۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اعلا ترین عہدے داران کے کندھوں پر بھروسا کرنے کی بہ جائے عوام الناس میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے سیاست کرنی چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ایکسٹینشن کے نام پر ہونے والی سیاست اور قانون سازی کی حوصلہ شکنی کی جائے اور شخصیات کی بہ جائے اداروں کومضبوط کیا جائے۔ جب آپ کسی ادارے کے چیف کو ایکسٹینشن دیتے ہیں، تو چیف کے نیچے عہدے دران کی قابلیت پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔ حقیقت میں آپ ادارے کو کم زور تر کررہے ہوتے ہیں۔
بہ ظاہر اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ عوامی مسائل اور ان کا حل نہیں، بل کہ ’’ایکسٹینشن‘‘، ’’ایکسٹینشن‘‘ اور صرف ’’ایکسٹینشن‘‘ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔