ایڈوکیٹ عطاء اللہ جان، ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

Blogger Sajid Aman

قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ بام عروج پر پہنچ جاتی ہیں، تو کھبی تاریخی جبر کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہی تاریخ تخلیق کرتی ہے اور سیکھنے کو ملتا ہے کہ بامِ عروج سے زوال کیسے آیا، یا زوال سے نکل کر عروج پر پہنچ کیسے ہوئی؟ تبھی علامہ اقبال فرما گئے کہ
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
عروج و زوال ایسے لوگوں کو پیدا کرتی ہے، جو قوموں کے لیے عروج یا زوال کے راستے متعین کرتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں پشتون، بلوچ، کرد اور فلسطینی اقوام تاریخی جبر کا شکار ہیں۔ ہر قوم پر جبر اس کے وسائل اور خطے پر کنٹرول کے لیے روا رکھا گیا ہے۔ عالمی سامراجی و استعماری طاقتیں اپنی مقامی شراکت داری میں جبر کو جاری رکھے ہوئی ہیں۔ یہ اتفاق نہیں کہ ان تمام اقوام میں اصلی لیڈرشپ کو پیدا نہیں ہونے دیا جارہا، بل کہ یہ ایک منظم طریقے سے قوموں میں جعلی شوشے، تحاریک، پارٹیاں، فرقے وغیرہ پیدا کرکے یک جا ہونے سے دور رکھنا خصوصی ایجنڈے ہیں۔
مگر یہ تاریخ، فطرت اور مکافات کی سنت کے خلاف ہے۔ حالات کی شدت سے مزاحمت جنم لیتی ہے، جو آگے چل کر بغاوت کا روپ دھارتی ہے اور بغاوت حالات کو تصادم کی طرف لے جاتی ہے۔ کارل مارکس کہتے ہیں کہ تاریخی مراحل ناگزیر ہیں۔ تاریخی مراحل کو پھلانگا نہیں جاسکتا۔
کہیں استعمار، مکاری، ظلم اور زیادتیاں کرکے تاریخی مراحل طویل کر دیتا ہے۔ کہیں اس کربلا کے صحرا میں ایک پھول کھل کر اور بہار کی گواہی دے کر تاریخی مراحل کی طوالت کو کم کر دیتا ہے۔
پختون سر زمین پر ہمیں ایک نام ملتا ہے، تعلیم یافتہ، مہذب، عدم تشدد کا قائل، بہترین مقرر، مدبر، ادیب، شاعر، نقاد، پُرجوش وطن پرست اور حقیقی قوم پرست ’’عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ!‘‘
آئیں، وکیل صاحب کی زندگی، اُن کے خاندانی پس منظر، کردار اور خدمات کا جائزہ لیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کی تحصیل چغرزئی روایت پسند، دلیر، قوم پرست اور حریت پسند افغان پختونوں کی سر زمین ہے۔ وکیل صاحب کے آبا و اجداد نے بھی افغانستان سے نکل کر اجتماعی طور پر تاریخی ارتقا سے گزرتے ہوئے چغرزئی کے علاقے کو جائے سکونت بنایا اور اس مٹی کو اپنی پہچان بنایا۔ ’’پختو دور‘‘ میں قبائلی جنگ و جدل نے ایک افسوس ناک ڈگر پر وکیل صاحب کے خاندان کو لاکھڑا کیا، جہاں باہمی دشمنی کو مزید بڑھانے سے روکنے کے لیے اس خاندان کو مادرِ وطن چغرزئی چھوڑ کر جانے پر مجبور ہونا پڑا ۔ ڈگر پاچا کلی روڑ پر ’’بھائی کلے‘‘ اس خاندان کا نیا ٹھکانا بنا، مگر دشمنی کی حدت یہاں بھی پہنچ رہی تھی اور بھائی کلی کو چھوڑ کر ملک پور پیر بابا میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یوں خاندان نے خاموشی سے آکر زمین داری شروع کی۔ اُس وقت بونیر سوات نہیں تھا، مگر سوات اور بونیر کی سیاست اور قبائلی اثرات ایک دوسرے کو متاثر کر رہے تھے۔ سیدو بابا کی اولاد کے اپنے اپنے اثرات اور قبائلی تعلقات تھے، جو مضبوط ’’ڈلہ‘‘ (گروہ) بن کر موجود تھے۔ وکیل صاحب کے پرنانا لاشہ خان بابا، امیر باچا ( باچا صاحب کے چچا زاد بھائی)کے ڈلہ کی خصوصی شخصیت تھے اور اُنھیں خصوصی گارڈ کا اعزاز حاصل تھا۔ امیر باچا کے بھائی سید باچا کا پہلے ہی قتل ہو چکا تھا۔ اخون بابا سیدو شریف میں ایک بدقسمت دن میانگل امیر باچا کا قتل ہوا اور اس کے جواب میں امیر باچا کے ڈلے اور خصوصی گارڈ نے باچا صاحب پر جوابی فائرنگ کی، جس میں باچا تو محفوظ رہے، مگر لاشہ خان بابا سیدو شریف چھوڑ کر حمداللہ، جو عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کے دادا تھے، کے پاس ملک پور چلے گئے۔
میانگل سید باچا اور میانگل امیر باچا کی ایک بہن تھیں، جن کو سیدو بی بی کہتے تھے۔ وہ سیدو شریف کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر بانڈئی چلی گئیں اور وفات تک وہاں مقیم رہیں۔ سید باچا اور امیر باچا کی بیواؤں سے باچا صاحب اور اُن کے بھائی شیرین شہزادہ نے شادی کرلی اور یوں یہ خاندان عملی طور پر وارث پیدا نہیں کر پایا۔ جب سید باچا اور امیر باچا نہیں رہے اور اُن کے ’’ڈلے‘‘ بکھر گئے، تو باچا صاحب نے اُن کے وفاداروں کو جرگوں کے ذریعے قائل کیا اور کہا کہ امیر باچا کا قتل محض ایک غلطی یا حادثہ تھا۔ اُن کو قتل کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ اس لیے اُن کی بیواؤں کو اپنے گھر کی عزت بنایا گیا ہے۔
لاشہ خان جب سیدو شریف لوٹے، تو ان کے ساتھ حمداللہ( عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کے دادا) خاندان بھی آیا۔ ان کو شاہی دوست قرار دیا گیا اور لاشہ خان اور حمداللہ خاندان نے بھی شاہی خاندان کے وفاداروں کے طور پر حلف لیا ۔
عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کے والد صاحب اور چچا سخی جان اس وقت بہت کم سن تھے۔ جب سیدو شریف آئے، تو زندگی بھر والی صاحب اور پھر احمد زیب باچا کے ’’ڈلے‘‘ میں رہے،جس کا تسلسل اب تک جاری ہے۔
اب آتے ہیں عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کی طرف۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری لی۔ اس سے پہلے پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج سے ایم ایس سی میتھس کرچکے تھے۔ 2007ء سے باقاعدہ طور پر وکالت شروع کی۔
زمانۂ طالب علمی سے مطالعے کا شوق تھا۔ دنیا بھر کے مزاحمتی ادب کو پڑھا۔ مزاحمتی تحریکوں کی تاریخ، وجوہات و اسباب اور نتائج کا مطالعہ کیا۔ ادب اور شاعری سے رغبت روزِ اول سے تھی۔ حساس طبیعت اور حلیم مزاجی نے ان کو شاعری کرنے پر مجبور کیا۔ ’’گل گیڈئی‘‘ ان کے ذوق کا عکاس مجموعہ ہے جس میں دنیا کی بیش تر زبانوں کا بہترین ادب (نظمیں) ترجمہ شدہ شکل میں موجود ہے۔
ادبی خدمات میں ’’ادبی تنقید نگاری‘‘ کے حوال سے وقیع کام ہے جو شائع ہونا ہے۔
عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کی گہری نظر کی وجہ ہے کہ پشتو ادب میں کسی شعر، غزل، رباعی، سندرہ کا نام لیں، آپ کو شاعر کا نام پورے متن اور نفس شاعری کے ساتھ مل جائے گا۔
پشتو ادب پر گہری نظر اور محبت کو دیکھتے ہوئے دوستوں نے مشورہ دیا کہ پشتو ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلیں۔ 2020ء میں وکیل صاحب نے پختو ادب میں ماسٹر کی ڈگری نہ صرف حاصل کی، بل کہ گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔
سیاسی نظریات ہمیشہ حریت، آزادی، قومی وحدت، پشتون وطن، استحصال اور ظلم و جبر کے خاتمے پر محیط رہے۔ شاہی خاندان سے قریبی تعلقات اور ’’ڈلے‘‘ میں موجودگی کے باوجود سیاسی سوچ الگ رہی۔
دورانِ طالب علمی اور عملی زندگی میں ہم خیال سیاسی خیالات سے وابستگی رہی۔ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی تشکیل کے بعد یوں لگا کہ جس تحریک کو تصور کیا تھا، وہی ’’پی ٹی ایم‘‘ ہے۔ تن من دھن سے پی ٹی ایم کا حصہ بنے۔
پشتون اولسی پاسون کے نام پر پشتون نوجوانوں میں شعوری بیداری شروع کی۔ امن، بھائی چارے، قومی وسائل اور علم دوستی کا درس شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پشتون اولسی پاسون کی آواز خیبرپختونخوا کی ہر گلی، کوچے اور چوک میں سنائی دینے لگی۔ پشتون نوجوانوں نے سوال اٹھانا شروع کیے۔ پشتون سر زمین دہائیوں سے میدان جنگ کیوں ہے، پشتون وسائل پر قبضہ کیوں ہے، سول اور فوجی بیورو کریسی نے پشتون قوم کو کیوں پس ماندہ، کچلا ہوا اور دبایا ہوا رکھا ہوا ہے، ہر وقت پشتون سرزمین حالتِ جنگ میں کیوں ہے، دریائے سندھ کے مغرب میں جنگ و جدل اور مشرق میں صنعتی ترقی، خوش حالی اور امن کیوں ہے، ریاست کا رویہ سفاکانہ کیوں ہے؟
عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کی زندگی سیاسی جد و جہد، سیاسی مزاحمت، ادب اور شاعری اور محبت اور موسیقی کا مرقع ہے۔ حساس طبع ہیں، لیکن ایک بہترین انسان ، وکیل ، شاعر ، باریک نظر نقاد اور ایک سنجیدہ سیاسی کارکن ہیں۔
شاید ایسی ہی شخصیت کے لیے کہا گیا تھا کہ
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے