کیلاشی جدید تحقیق کے آئینے میں

Blogger Khalid Hussain

28 جون 2024ء کی سہ پہر کو، نمازِ جمعہ کی ادائی کے بعد مسجد سے باہر نکلتے ہی مولانا زبیر گورداسپوری صاحب فرمانے لگے کہ یار تم تو کہتے تھے کہ یہاں غیر مسلم لوگ آباد ہیں، مگر یہ مسجد تو نمازیوں سے بھری پڑی تھی۔ مَیں نے کہا کہ یہاں ’’شیخاں دیہہ‘‘ میں اَب سارے لوگ مسلمان ہوچکے ہیں۔ نیچے ’’کراکال‘‘، ’’باتریک‘‘، ’’برون‘‘، ’’آنش‘‘ اور پہلوان دیہہ میں زیادہ تر سیاہ پوش کافر کیلاش رہتے ہیں۔ یہاں شیخاں دیہہ میں رہنے والے مسلم شیخ پہلے سرخ کافر کہلاتے تھے، جن کا فرق مَیں نے آپ کو پہلے بتایا تھا۔
دراصل جدید تحقیق کے مطابق یہ اس علاقے کے سب سے پرانے رہایشی ہیں، جو دو سے تین صدیوں سے یہاں پر ان اور ان سے ملحقہ سارے علاقوں میں رہ رہے ہیں۔
’’رازول کوہستانی‘‘ کی تحقیق کے مطابق ان کا تعلق قدیم ’’بروقپا‘‘ لوگوں کے ’’دارد‘‘ قبیلے سے ہے۔
’’بروقپا‘‘ کا مطلب ہے پہاڑوں میں رہنے والے لوگ۔ ان کی زبان کو ’’بروقسکت‘‘ یعنی پہاڑی لوگوں کی زبان کہا جاتا ہے۔ بروقپا اپنے آپ کو اس خطے میں بچے ہوئے داردی لوگوں کی آخری غیر مخلوط آریائی نسل کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ لداخ کے علاقوں لیہہ اور کارگل کے علاوہ پاکستان میں گلگت بلتستان کے علاقے سکردو کے ضلع کھرمنگ کے سرحدی دیہات ’’مرول‘‘، ’’گنوخ‘‘، ’’ژھے ژھے تھنگ‘‘ اور ’’دنسر‘‘ نامی جگہوں پر آباد ہیں۔ لداخی علاقوں میں رہنے والے بروقپا مسلم اور بدھ مت ہیں، جن کی تعداد 5 ہزار کے قریب ہے۔ جب کہ پاکستان میں آباد بروقپا اپنے قدیمی مذہب کو چھوڑ کر اب مسلمان ہوچکے ہیں، جن کا تعلق گلگت بلتستان کے رہایشی شین دارد قبائل سے ہے اور ان کی تعداد کم و بیش 2 ہزار ہے۔
انھی دارد گروہ کے قبیلے کی ایک قسم یہ کیلاشی ہیں، جو یہاں چترال کے قریب افغان بارڈر سے متصل شمال مغربی علاقے میں، کوہِ ہندوکش کے دامن میں رہایش پذیر ہیں۔ یہ یہاں پر اب تین وادیوں تک محدود ہو کر رہ رہے ہیں، جن کے نام ’’بمبوریت‘‘، ’’بریر‘‘ اور ’’ریمبور‘‘ وادیاں ہیں۔ کبھی چترال سے لے کر نیچے دروش کی طرف لواری تک کا سارا علاقہ، چترال کے مشرق میں مستوج تک، مغرب میں افغان صوبہ نورستان جب کہ شمال میں افغانستان کی سرحدی پٹی، واخان کوریڈور سے جڑے تمام علاقوں پر یہی لوگ، ان کا اثر و رسوخ اور ان کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ ان کے پرانے قصے کہانیوں میں وادئی جنجریت، وادئی شیشی کوہ، بروز، وادئی مستوج، وادئی تورکھو سے لے کر نورستان تک کا ذکر ملتا ہے۔
’’شیخاں دیہہ‘‘ کو ’’شیخانا ندیہہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، جب کہ اس کا پرانا نام ’’برومبوتول‘‘ ہوا کرتا تھا۔ شیخاں دیہہ میں موجود جامع مسجد کا مینار لکڑی کا ہے۔ پرانے دور میں گھر سمیت دوسری مختلف عمارات لکڑی سے بنائی جاتی تھیں، جن میں یہاں کی مسجد سمیت شیخاں دیہہ کا پرانا پورا گاؤں بھی ہے، جسے شیخاں دیہہ کلاں کہتے ہیں، جو اس نئے گاؤں سے تھوڑا آگے جا کر واقع ہے۔ ہمارے فرنٹیئر ہوٹل، جس میں ابھی ہم قیام پذیر ہیں، کی پرانی دو منزلہ عمارت بھی ساری کی ساری لکڑی کی بنی ہوئی ہے۔ کراکال گاؤں کے گھروں کی بناوٹ میں بھی زیادہ تر استعمال لکڑی کا ہے۔ شیخاں دیہہ میں ایک بڑا فش فارم اور ایک ترک شدہ اور پرانے بجلی گھر کے آثار بھی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر اونچے اونچے صدیوں پرانے اخروٹ کے درخت ہیں، جن کا اخروٹ گرچہ بناوٹ میں تھوڑا چھوٹا ہوتا ہے، مگر بہت لذیذ ہوتا ہے۔ افغان جنگ کے بعد تھوڑا آگے آرمی والوں کی چیک پوسٹ بن چکی ہے، جو اب ٹورسٹ کو اس آبادی سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ ورنہ اس سے پہلے ایسی کوئی پابندی نہ ہوا کرتی تھی۔ مَیں خود ایک بار شیخاں دیہہ سے کافی آگے تک جا چکا ہوں۔
یہ بات ہے سنہ 2001ء کی۔ اُس وقت ابھی افغان جنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ چترال سمیت یہاں کا سارا علاقہ اور اس کے رہایشی بہت پُرامن لوگ ہیں۔ کیلاش کی تینوں وادیوں میں پولیس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوا کرتا تھا۔ مَیں نے خود کبھی یہاں پر کوئی پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری یا آرمی کا کوئی سپاہی نہیں تک دیکھا تھا۔ افغان جنگ شروع ہونے کے بعد پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح طالبان کی درانگیزی کو روکنے کے لیے یہاں پر بھی چیک پوسٹ بناکر افغانستان کی طرف سے آنے جانے والے لوگوں پر نظر رکھنے کا سامان کیا گیا۔ ’’شیخاں دیہہ‘‘ کے سرخ پوش کیلاش لوگوں کا تعلق کیلاشیوں کے ’’کاتی‘‘ قبیلے سے ہے۔ جو افغانستان کے صوبہ نورستان سے ہجرت کرکے یہاں آئے ہیں۔ ان کے بہت سے رشتہ دار نورستان میں آباد ہیں۔ ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ یہ لوگ اکثر ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے تھے۔ حکومت پاکستان کو بھی دوسرے افغان بارڈر کی طرح اس بارڈر سے بھی کوئی ڈر اور شکایت نہ تھی۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی چترال کے ’’کٹور‘‘ خاندان نے اُنھیں یہیں پر قیام پذیر رہنے دیا۔
وادئی کیلاش کا یہ علاقہ افغانستان اور چترال حکومت کے درمیان ’’بفرزون‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔
اس ٹور پر میرے ساتھ ساجد اقبال، شاہد حمید، پرویز اور جعفر رشید بھی تھے۔ جعفر رشید بھائی تو کب کا داعئی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دنیا فانی کو چھوڑ چکے ہیں۔ جب کہ پرویز بھائی کا ابھی پچھلے دنوں انتقال پُرملال ہوا ہے۔
خیر، ایک دن ہم نے فرنٹیئر ہوٹل کے مالک بابا شکور ولی سے کہا کہ آپ ہمیں وادئی بریر جانے کے لیے ایک عدد جیپ کا بندوبست کرادیں۔ وہ جواباً کہنے لگا کہ وادئی بریر میں آپ کے دیکھنے کے لیے تو کچھ نہیں ہے۔ تنگ سی وادی ہے۔ آپ وہاں جا کر بور ہوں گے۔ آپ ایسا کریں کہ اسی وادی میں ’’شیخاں دیہہ‘‘ سے اگلے علاقے کی طرف چلے جائیں۔ یہ وادی آگے جا کر تھوڑی کھلی ہو جاتی ہے، جہاں تھوڑی ’’گرینری‘‘ بھی ہے۔ مَیں ایک جیپ والے کو جیپ سمیت آپ کے ساتھ بھیج دیتا ہوں۔ وہ آپ کو گھما پھرا کر واپس لے آئے گا۔
بابا شکور ولی جیپ کی تلاش میں نکل گیا۔ اسی دوران میں بابا شکور ولی کے بڑے بیٹے حسین نے بھی ہمارے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ کہنے لگا کہ آپ میرے والد محترم کو کہیں کہ وہ مجھے بھی آپ کے ساتھ بھیج دے۔ وہ آپ کی بات نہیں ٹالے گا۔ ہم تین چار دِن سے اُن کے پاس اُن کے ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ اس وجہ سے اُن کی ہمارے ساتھ اچھی خاصی گپ شپ اور انڈرسٹینڈنگ ہو گئی تھی۔ ہم نے جب بابا شکور ولی کو اسے اپنے ساتھ لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا، تو اُس نے بہ خوشی اجازت دے دی۔ اُس نے نہ صرف اجازت دی، بل کہ حسین سے چھوٹے اپنے بیٹے اخلاق کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیا۔
جیپ ڈرائیور بھی ان کا کوئی رشتہ دار تھا۔ مَیں اور حسین ڈرائیور کے ساتھ والی جیپ کی اگلی سیٹوں پر براجمان ہوگئے۔ جب کہ باقی دوست ہم سے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ شیخاں دیہہ کلاں میں لکڑی سے بنی عمارتوں کے بیچ تنگ گلی سے گزرتے ہوئے ہم دریائے بمبوریت کے کنارے چلنے لگے۔ تھوڑا آگے چل کر وادی نسبتاً کھلی اور ہم وار ہو گئی۔ ایک ٹوٹی پھوٹی تنگ سی کچی سڑک دریا کے ساتھ ساتھ چلتی جاتی ہے۔ قریباً آدھ گھنٹے کے سفر کے بعد دریا کے ساتھ چلنے والی یہ سڑک غائب ہو گئی۔ دریا کے ساتھ کہیں کہیں لکڑی سے بنائے گھر اور ان سے ملحقہ کھیت بھی تھے۔ جن میں مکئی کی فصل کاشت کی گئی تھی۔ سڑک کے اختتام پر ڈرائیور نے چرس سے بھرا ایک سگریٹ سلگا کر اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسالیا۔ جیپ کا ایک پہیا دریا کے کنارے کنارے جب کہ دوسرا پہیا اُس نے دریا کے اندر ڈال کر آگے کی جانب سفر شروع کر دیا۔ جیپ ’’ڈکو ڈولے‘‘ اور ہچکولے کھاتی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔ اسی دوران میں وہ چرسی سگریٹ کے کش پہ کش لگاتا اپنی لوکل زبان میں حسین کے ساتھ اُونچی آواز میں گپیں لگاتا رہا۔ کبھی کبھی دریا کے پانی کے چھینٹے مجھ پر بھی پڑتے، جس کی وجہ سے میرے کپڑے بھی تھوڑے بھیگ گئے تھے۔ اس کی سگریٹ کا چرسیلا دھواں مجھے بہت تنگ کر رہا تھا۔ میری یہ حالت دیکھتے ہوئے حسین نے اپنی زبان میں اسے کچھ کہا، تو اُس نے وہ سگریٹ دریا برد کر دیا۔ میرے سانس میں سانس آئی۔
اُن دنوں وہاں پر چرس کا نشہ کھلے عام ہوتا تھا۔ وہاں کے سارے لوگ سرِ عام چرس پیتے تھے۔ اس وقت حسین کی عمر تقریباً 16، 17 سال کی تھی۔ مَیں نے اس سے پوچھا کہ تم بھی یہ چرس سے بھرا ہوا سگریٹ پیتے ہو؟ تو اُس نے نفی میں سر ہلا کر کہا کہ ابو سے ڈر لگتا ہے۔ وہ بڑی سخت طبیعت کے مالک ہیں۔
ابھی ہم نے دریا کے اندر تھوڑا سا ہچکولے دار سفر طے کیا ہوگا کہ آگے ایک ڈیرہ سا آگیا۔ وہاں پر لکڑی سے بنا ایک دو منزلہ مکان بھی تھا۔ اس مکان کا نچلا حصہ لکڑی کے ساتھ لکڑی جوڑ کر بنایا گیا، چاروں طرف سے بند تھا جب کہ اوپری حصہ، حسینی پل کی طرح، تھوڑا وقفہ دے دے کر جڑی لکڑیوں سے بنا ہوادار تھا۔ حسین نے بتایا کہ نچلا حصہ سردیوں میں اپنی اور مویشیوں کی رہایش کے لیے بنایا گیا ہے۔ جب کہ اوپر والا حصہ مویشیوں کے لیے چارے کو سٹور کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔
یہاں قریب ہی ایک ایسا درخت بھی دیکھا، جس کے پتے ہرے مگر بوہڑ جیسے چوڑے چوڑے سے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُن پتوں سے سرسوں کے تیل جیسا ایک گاڑھا اور سیال مادہ نکل نکل کر زمین پر گرتا تھا۔ مَیں بے خبری میں اس کے نیچے جا کر کھڑا ہوگیا۔ اسی لمحے حسین نے مجھے خبردار کیا کہ یہاں سے ہٹ جاؤ۔ ورنہ یہ درخت تمھارے کپڑے خراب کر دے گا۔ جیپ کو وہیں چھوڑ کر ہم پیدل آگے کی طرف چل پڑے۔ دریا کے ساتھ ساتھ ایک پگڈنڈی بنی ہوئی تھی۔
چاروں اور ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔ نہ کوئی بندہ نہ کوئی بشر تھا۔ دریا کے ساتھ ساتھ چیل اور دیار کے اونچے اونچے درختوں پر مشتمل گھنا جنگل تھا اور ہم تھے۔ دوپہر دو بجے تک چلتے گئے۔ ایک جگہ پر دریا پر ایک لمبا درخت کاٹ کر رکھا ہوا تھا، جو پل کا کام دیتا تھا۔ ہم اس درختی پل پر سے گزر کر دریا کے دوسرے کنارے پر چل دیے۔
چل چل کر تھکاوٹ ہونے کے ساتھ ساتھ بھوک بھی لگ گئی تھی۔ اس لیے ہم نے واپسی کی راہ لی، مگر واپسی دریا کے دوسرے کنارے پر چل کر کی۔
رستے میں ڈرائیور نے دریا پار کرکے جیپ سنبھال لی، مگر ہم باقی دوستوں نے اپنا پیدل سفر جاری رکھا۔ شیخاں دیہہ کلاں سے کافی پہلے دریا کنارے ایک گھر آیا۔ جس کے باہر ایک بوڑھا شخص درخت کے نیچے چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ سلام دعا کے بعد ہم نے اس سے پانی مانگا۔
ظاہر ہے ہماری بات تو وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ حسین ہمارے ساتھ گائیڈ کے طور پر چل رہا تھا۔ وہ ہماری بات کو اپنی لوکل زبان میں ترجمہ کر کے اسے سمجھاتا تھا۔ وہ بزرگ اندر گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک لوٹے میں پانی بھر لایا۔ ہم انگشتِ بدنداں ہو کر ایک دوجے کو دیکھنے لگے کہ یہ کیا ہے؟ پینے والا پانی اور لوٹے میں……! میری تو شدتِ پیاس ختم ہو کر جاتی رہی اور مَیں بٹربٹر کر کبھی بابا جی کو دیکھتا، تو کبھی لوٹے کو۔ ہماری پریشانی دیکھ کر وہ بزرگ فوراً بول اٹھا۔ کہ یہ وضو والا پاک لوٹا ہے۔ وضو والا لوٹا یہاں عزت و تکریم کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ہاں جب کوئی مہمان آتا ہے، تو اُسے ہم بہ طور عزت و تکریم لوٹے میں ڈال کر پانی دیتے ہیں۔
سب سے پہلے وہ پانی حسین نے پیا اور پھر ہمیں پینے کے لیے دیا۔ وہ بھی کچھ اس انداز سے کہ لوٹے کی مٹھ والا حصہ دائیں ہاتھ میں پکڑ کر تھوڑا اوپر کی جانب اُٹھا کر لوٹے کی دوسری جانب ٹونٹی کے آگے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو ٹونٹی کے گرد بھینچ کر اپنے منھ کے ساتھ لگا کر ایک پائپ کی شکل دی، تا کہ لوٹے میں موجود پانی بہ جائے نیچے زمین پر گرنے کے سیدھا ہمارے منھ کے اندر تک پہنچے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے