وزیرِ اعلا خیبر پختونخوا جناب علی امین گنڈا پور نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے مخصوص جوشیلے انداز میں حکومت کو ’’وارننگ‘‘ دی ہے کہ دو ہفتے میں اُن کے لیڈر عمران خان کو رہا نہ کیا گیا، تو پھر وہ خود اُن کو رہا کروالیں گے۔
قارئین! حیرانی کی بات ہے کہ ایک صوبے کے منتخب وزیرِ اعلا نے یہ الفاظ کہے ہیں، جو اپنے منصب کے لحاظ سے قانون کی حکم رانی کا نہ صرف خود پابند ہے، بل کہ اپنی پورے صوبے میں قانون کی حکم رانی پر عمل درآمد کروانے کا ذمے دار بھی ہے۔ اس کی زبان سے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جیل توڑ کر کسی شخص کو رہا کروانے کا بھرے جلسے اور میڈیا کے سامنے اعلان کرنا قانون کی گرفت میں آتا ہے یا نہیں؟ اس کا پتا تو قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کو ہوگا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ واقعی ایسا کر گزریں گے، یا یہ محض دعوا اور دھمکی ہے؟
چند ہفتے پہلے بھی جناب علی امین گنڈا پور اڈیالہ جیل پر چڑھائی کر کے اپنے لیڈر کو آزاد کروانے کا دعوا کرچکے ہیں، جس کا جواب بھی اُنھیں ریاست کی طرف سے فوراً ہی دے دیا گیا تھا کہ وہ ضرور تشریف لائیں۔ ان کا ’’شایانِ شان‘‘ استقبال کیا جائے گا۔
قارئین! شایانِ شان ہم نے اپنی طرف سے مہذب زبان میں لکھا ہے، ورنہ اُدھر سے تو بہت سخت الفاظ استعمال کیے گئے تھے، جن میں منھ اور تھپڑ کا ذکر بھی آتا ہے۔
گذشتہ ہفتے اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان کی رہائی کے لیے ایک کروڑ سٹوڈنٹس کے دھرنے کا دعوا بھی کیا گیا تھا۔ انھی دِنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں پی ٹی آئی کا جھنڈا اُٹھائے کل چھے عدد سٹوڈنٹس کو دکھایا گیا تھا، جو نعرے مارتے ہوئے غالباً پشاور کے کسی بازار سے گزر رہے تھے۔ یقینی طور پر اُن کا رُخ اڈیالہ جیل کی طرف ہی ہوگا، مگر جانے کس ناہنجار نے منت ترلا کرکے یا زبردستی اُنھیں راستے ہی میں روک لیا اور وہ ’’منزلِ مقصود‘‘ تک نہ پہنچ پائے۔
ہمارے شہر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں بونگہ صاحبہ میں ’’بوہگی‘‘ نام کا ایک میر عالم رہا کرتا تھا۔ قریباً 50 سال پہلے کا مبینہ واقعہ ہے۔ وہ غربت و افلاس سے بہت تنگ تھا۔ اُس نے اپنی غربت دور کرنے کی ایک ترکیب سوچی کہ تمام برادری کی دعوت کر کے اُن سے مالی امداد حاصل کی جائے۔
اُس نے اپنے رشتے داروں کو دعوت پر بلوا بھیجا۔ مقررہ روز ساری برادری اُس کے گھر اکٹھی ہوگئی۔ دن کے تین بج گئے۔ بھوک سے سب کا برا حال تھا، مگر کھانا نظر نہیں آ رہا تھا۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔
بوہگی ایک پلیٹ میں اُبلے ہوئے دیسی چاول لایا اور تمام مہمانوں کی ہتھیلی پر چند دانے چاولوں کے رکھ کر بولا: ’’بھائیو! انھیں چند دانے نہ سمجھنا، مکمل کھانا سمجھ کر کھالو۔ میرا ہاتھ بہت تنگ ہے۔ آپ سب لوگ میری مدد کرو!‘‘
مہمانوں کو جتنا بھی غصہ آتا کم تھا۔ خیر، اُنھوں نے آپس میں صلاح مشورہ کرکے ایک بزرگ کو اپنا نمایندہ چنا۔ اُس بزرگ نے ایک تنکا لیا۔ اُسے پلیٹ میں رکھا اور بوہگی میر عالم کو پیش کرتے ہوئے بولا: ’’لے ایہہ ساڈے ولوں امداد ای۔ ایہنوں ککھ نہ سمجھیں، لکھ سمجھیں۔
یعنی ہماری طرف سے یہ امداد ہے۔ اسے ایک تنکا نہیں، بل کہ ایک لاکھ روپے سمجھنا۔
ہم بھی اُن چھے عدد طلبہ کو ایک کروڑ سمجھنے میں ذرا بھی متامل نہیں۔ افسوس انھیں اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے اڈیالہ نہیں پہنچنے دیا گیا۔
اب ایک مرتبہ پھر بھرے مجمع میں اور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے جناب علی امین گنڈا پور نے دو ہفتے بعد جیل توڑ کر اپنے لیڈر کو رہا کروانے کا دعوا کر دیا ہے۔ اپنی دھمکیوں، دعوؤں اور باتوں کے برعکس ابھی تک تو جناب علی امین گنڈا پور محض ’’درشنی پہلوان‘‘ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس مرتبہ وہ واقعی سلطان راہی کا روپ دھارتے ہیں، یا حسبِ سابق کامیڈین ثابت ہوتے ہیں؟
سنا ہے ماضیِ قریب میں انھیں اپنے صوبے کے چیف سیکریٹری سے سخت شکایات پیدا ہوئی تھیں، مگر وہ کوشش اور خواہش کے باوجود اُسے تبدیل نہیں کروا سکے تھے۔ مقتدر حلقے یہ دعوا کرتے ہیں کہ جب کبھی میٹنگ میں یا بلوائے جانے پر جناب علی امین گنڈا پور اُن کے پاس تشریف لاتے ہیں، تو بڑے شریف بچے بنے ہوتے ہیں۔ سر جھکا کر خاموشی سے سب کچھ سن لیتے ہیں۔ انھیں غصہ آنا تو دور کی بات، کبھی کچھ ناگوار بھی نہیں گزرتا۔ اگر یہ سچ ہے، تو پھر پی ٹی آئی کے ورکر اُن کے دبنگ خطاب کو زیادہ سیریس نہ لیں۔ یہ خطاب اُن کی مجبوری تھی کہ مقتدرہ سے میل جول نے پارٹی کے اندر ہی اُن کی پوزیشن کو مشکوک بنا دیا ہے۔ اُنھوں نے اپنے اوپر لگنے والے اس داغ کو گہرا ہونے سے پہلے ہی مٹانے کی کوشش کی ہوگی، جسے یار لوگ ’’دبنگ خطاب‘‘ کا نام دے کر اڈیالہ جیل پر ان کی چڑھائی کے منتظر ہیں۔
اُدھر وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری صاحبہ نے علی امین گنڈا پور کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے دو ہفتے کی بہ جائے انہیں 20 دن دے دیے ہیں کہ اس عرصے میں ہمت پکڑیں اور اڈیالہ کی طرف روانہ ہوں۔ اَب ایک خاتون نے چیلنج دے دیا ہے، تو علی امین صاحب اس چیلنج کو کس طرح پورا کریں گے؟ اس کا انتظار کرتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔