یوم دفاع ختم نبوتؐ

Blogger Advocate Muhammad Riaz

قیامِ پاکستان کے وقت جہاں بہت سے مسائل ریاستِ پاکستان کو ورثہ میں ملے، وہیں پر انگریز سرکار کی سرپرستی میں بنایا گیا، فتنۂ قادیانیت بھی پاکستان کے حصہ میں آیا۔ فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے وقفے وقفے سے پُرامن تحاریک چلائی جاتی رہیں، مگرکلمۂ طیبہ کے نام پر بننے والی ریاست کی سرکار کی جانب سے ختمِ نبوتؐ کے مجاہدین کو ریاستی جبر ظلم و ستم برداشت کرنا پڑا۔ سال 1953ء میں مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا مودودی ایسے کئی جید علمائے کرام کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں۔
فتنۂ قادیانیت کے برخلاف تحاریک کو عروج اُس وقت ملا، جب 29 مئی 1974ء صوبہ پنجاب کے شہر ربوہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کے طلبہ پر قادیانیوں نے حملہ کرکے نہتے طلبہ کے ناک، کان اور جسم کے دیگر اعضا بے دردی سے علاحدہ کردیے۔ اس سانحے کو ’’سانحۂ ربوہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس بربریت کے خلاف شدید مظاہرے، احتجاج اور ہنگامے شروع ہوگئے۔ اس پُرفتن موقع پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے پُرامن و عصرِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق پارلیمینٹ کا رُخ کیا اور جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے قومی اسمبلی میں 30 جون 1974ء کو قادیانیت کی دونوں شاخوں یعنی احمدی اور لاہوری گروہ کے خلاف اِک قرارداد پیش کی، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ گروہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں، جب کہ حضرت محمدؐ، اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ لہٰذا اس باطل عقیدے کی بنا پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ قرارداد کو بعد ازاں آئینی ترمیمی بل میں بدل دیا گیا۔
اسمبلی ہال میں بیٹھے اکثر سیاست دان اس مسئلے کو فرقہ وارانہ مسئلہ سمجھتے تھے؛ جب اسمبلی ہال میں مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی ایسے جید علمائے کرام نے احمدیوں کے باطل عقائد کو نمایاں کیا۔ ممبرانِ اسمبلی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ آئین میں ترمیمی بل کو پاس کرنے سے پہلے پوری پارلیمنٹ کو کمیٹی روم کا درجہ دیا گیا اور قادیانی مذہب کے اکابرین باوجود کہ وہ پارلیمنٹ کے ممبر نہ تھے، اُن کو اس کمیٹی روم میں کھل کر اپنے عقائد کے دفاع کا موقع فراہم کیا گیا۔ تاکہ قادیانیت کے پیروکار پارلیمینٹ کارروائی کو اپنے خلاف تعصب، غیر منصفانہ قرار دینے کا ڈھونگ نہ رچائیں۔ ردِ قادیانیت میں علمائے کرام کے علاوہ دیگر سیاست دانوں نے بھرپور حصہ لیا، جن میں نواب زادہ نصر اللہ خان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ بحث و مباحثے ہوتے رہے؛ کئی کئی گھنٹے کیمرے کے سامنے بیانات، دلائل اور جرح کا سلسلہ جاری رہا۔ یاد رہے اس پوری کارروائی میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اُنھوں نے ملک میں پائی جانے والی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے اسے فوری حل کرنے کے لیے اپنا مثبت اور قائدانہ کردار ادا کیا۔ ڈھیر سارے سیاست دان اس تحریک سے قبل اس مسئلے کی سنگینی سے ناواقف تھے، لیکن جب اُنھیں احمدی نمائندوں (مرزا ناصر وغیرہ) کے قول و اقرار سے اصل صورتِ حال کا علم ہوا، تو وہ بھی اپنے ایمان کی حفاظت کے سلسلہ میں سنجیدہ ہوگئے۔ بالآخر مرزا ناصر سے ایک سوال ہوا کہ اگر کبھی دنیا میں کہیں تم لوگوں کی حکومت قائم ہو جائے، تو تم (احمدی/ مرزائی) غیر احمدی کلمہ گو مسلمانوں کو کس درجے میں رکھوگے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ ہم انھیں اقلیت سمجھیں گے۔ یوں انھی کے کلیہ کے عین مطابق احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ بعد ازاں احمدیوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس آئینی ترمیم کو چیلنج کیا، لیکن احمدی اعلا عدالتوں میں بھی خود کو مسلمان ثابت نہ کرسکے۔ آئین کے آرٹیکل 106 اور آرٹیکل 260 میں واضح ترامیم کی گئیں۔ 7 ستمبر 1974ء کو منظور کی گئی دوسری آئینی ترمیم کے بعد آئینِ پاکستان میں لفظ مسلمان یا مسلم میں پائے جانے والے ابہام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ جیسا کہ:
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (a) کے مطابق:
مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
مسلمان سے مراد وہ شخص ہے، جو اللہ تعالا کی وحدت و توحید قادرِ مطلق اللہ تبارک تعالا اور خاتم النبیین حضرت محمدؐ کی ختمِ نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور ایک نبی یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو اور نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمدؐ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعوا کیا ہو، یا جو دعوا کرے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (b) کے مطابق:
غیر مسلم کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :
غیر مسلم سے ایسا شخص مراد ہے، جو مسلمان نہ اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو ’’احمدی‘‘ یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخصی یا کوئی بہائی، اور کسی درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہے۔
آئینِ پاکستان میں ختمِ نبوتؐ اور مسلمان کی واضح تعریف کے بعد کس بھی قسم کے غیر آئینی اقدام کی روک تھام کے لیے مجموعۂ تعریزات پاکستان کے سیکشن 298 میں 1984ء میں ایک آرڈیننس کے تحت ترامیم کی گئی۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 (B) (1) کے مطابق:
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں، یا کسی دوسرے نام سے جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری نمایندگی کے ذریعے درجِ ذیل افعال کرے:
(الف) حضرت محمدؐ کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی بھی شخص کو ’’امیر المومنین‘‘، ’’خلیفۃ المومنین‘‘، ’’خلیفۃ المسلمین‘‘، ’’صحابی‘‘ یا ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(ب) حضرت محمدؐ کی کسی زوجہ محترمہ کے علاوہ کسی ذات کو ’’ام المومنین‘‘ کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(ج) حضرت محمدؐ کے خاندان ’’اہل بیت‘‘ کے کسی فرد کے علاوہ کسی بھی فرد کو ’’اہل بیت‘‘ کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(د) اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے۔
درجِ بالا جرائم کی صورت میں اُس شخص کو قید کی سزا دی جائے گی، جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے اوراس کے علاوہ جرمانہ بھی عائد کیاجائے گا۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 (B) (2) کے مطابق:
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو ’’احمدی‘‘ یا کسی اور نام سے پکارتا ہے) جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری نمایندگی کے ذریعے، اپنے مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے، یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں۔ اسے دونوں میں سے کسی ایک صورت میں قید کی سزا دی جائے گی، جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے اوراس کے علاوہ جرمانہ بھی عائد کیاجائے گا۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ298 (C) کے مطابق:
قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا کوئی فرد (جو اپنے آپ کو ’’احمدی‘‘ یا کسی اور نام سے پکارتا ہے)، جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے، یا اپنے عقیدے کو اسلام کہتا ہے، یا اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہے یا اس کی تبلیغ کرتا ہے، یا دوسروں کو اپنے عقیدے کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے، الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا تحریری، یا ظاہری نمایندگی کے ذریعے، یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی صورت میں کی قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت تین سال تک ہوسکتی ہے اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
آج سے ٹھیک 50 سال پہلے 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی پارلیمینٹ نے منھ زور فتنۂ قادیانیت کے آگے آئینی و قانونی بند باندھ دیا۔ اب پاکستان کے مسلمان غیر سرکاری طور پر 7 ستمبر کو یومِ ختمِ نبوتؐ کے طور پر مناتے ہیں اور سال 2024ء کو گولڈن جوبلی سال کے طور پر منایا جارہا ہے۔
50سال پہلے آئینِ پاکستان میں واضح ترمیم کے باوجود فتنۂ قادیانیت کے پیروکاروں نے اس قانون سازی کو ابھی تک قبول نہیں کیا۔ گاہے بہ گاہے فتنۂ قادیانت کے پیروکار آج بھی سازشوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ عقیدۂ ختمِ نبوتؐ درحقیت اتحاد بین المسلمین کی ضمانت ہے، یعنی یہ مسلمانوں کے مشترکہ اور متفقہ عقائد میں سے ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جس نے تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا کیا ہوا ہے۔ ورنہ ہم مسلمان کم، بل کہ سُنی، شیعہ، دیوبندی، حنفی، بریلوی اور وہابی زیادہ ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح سے ردِ قادیانیت کے موقع پر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے اپنے اپنے مسلکی و فروعی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عقیدۂ ختمِ نبوتؐ پر پہرہ دیا۔ اسی طرح ہم سب کو چھوٹے چھوٹے مسلکی و فروعی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر اتحاد بین المسلمین کا شان دار عملی مظاہرہ کرنا چاہیے اور محراب و منبر سے دوسرے مکاتبِ فکر کے مسلمانوں کے خلاف کفریہ، مشرک، بدعتی، گستاخ وغیرہ کے فتوؤں کو چھوڑنا ہوگا۔ اسی میں مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس میں بسنے والے مسلمانوں کی بقا ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو پکا سچا مسلمان بنائے اور زندگی کے آخری سانس تک عقیدۂ ختمِ نبوتؐ پر قائم دائم اور اس عقیدہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ کریم کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آقائے تاج دار ختمِ نبوتؐ پر اور آپ کے اہلِ بیت اور اصحاب پاک رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر اور عقیدۂ ختمِ نبوت کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں پر اور 1974ء میں دوسری آئینی ترمیم کروانے والے جید علمائے کرام اور سیاست دانوں پر، آمین ثم آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے