سیاست، چمکتا کاروبار

Blogger Rafi Sehrai

آج کے سیاست دانوں کو اقتدار کے لیے سازشیں کرتے، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے، جھوٹے مقدمات بناتے، اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سیاسی مخالفین کو رگڑا لگاتے دیکھتے ہیں، تو سیاست اور سیاست دانوں سے نفرت سی ہونے لگتی ہے۔
سیاست کو کبھی خدمت کا ذریعہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا، بل کہ عبادت کا درجہ بھی دیا جاتا تھا۔ سیاست دان الیکشن کے دنوں میں سیاسی جوڑ توڑ تو کرتے تھے، مگر اپنے مخالفین کے ساتھ صرف سیاسی مخالفت ہی کیا کرتے تھے۔ سیاسی مخالفت ذاتی دشمنی میں بدلنے کی نوبت نہیں آیا کرتی تھی۔ کٹر مخالف سیاست دان بھی ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہونا فرض سمجھتے تھے۔ لیڈر شپ سے ہٹ کر باقی سیاست دانوں میں ان روایات کی اَب بھی پیروی کی جاتی ہے۔ البتہ سیاسی لیڈرشپ نے سیاسی مخالفت کو آپس کی شدید دشمنی میں اس حد تک بدل دیا ہے کہ یہ لیڈران کسی بھی فورم پر مل بیٹھنے کو تیار نہیں ۔ سیاست میں یہ شدت اس وجہ سے آئی ہے کہ ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اَب سیاست کھیل نہیں، بل کہ نشہ بن گئی ہے۔ سیاست کو خدمت یا عبادت کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا، بل کہ اب مطمحِ نظر محض اقتدار کا حصول، بے تحاشا اختیارات سے لطف اندوز ہونا اور اپنی دولت میں کئی گنا اضافہ کرنا رہ گیا ہے۔ سیاست دان جن عوام کے کندھوں پر چڑھ کر ایوانوں میں پہنچتے ہیں، اُن کو اپنے پیروں کی خاک بنائے رکھتے ہیں۔ خود جائز و ناجائز سرکاری مراعات سے فیض یاب ہوتے ہیں، جب کہ عوام کو آٹا، گھی اور پٹرول کی قطاروں میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ بجلی اور گیس کو بے تحاشا مہنگا کرکے عوام کی توجہ اپنی کرپشن اور اللوں تللوں ہٹا سے ہٹا کر انھیں روزی روٹی کی فکر تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ اُوپر والی سطح کی لیڈرشپ اور وزرا سے ہٹ کر ایم پی ایز اور ایم این ایز کی مراعات دیکھ لیں، تو لگتا ہے کہ ہم پوری دنیا کو قرض دینے والا امیر ملک ہیں، جب کہ عوام کی حالتِ زار دیکھیں، تو کسی افلاس زدہ تباہ حال افریقی ملک کا گمان ہوتا ہے۔
شاید یہ بات بہت سے قارئین کے لیے انکشاف کی حیثیت رکھتی ہو کہ عوامی نمایندے ’’ہمارے لیے‘‘ فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کی مد میں جو گرانٹ منظور کرواتے ہیں، اس کا 10 فی صد کمیشن لینا ان کے لیے سرکاری طور پر جائز ہے۔ اب یہ عوامی نمایندے پر منحصر ہے کہ 50 کروڑ کا کوئی منصوبہ منظور کروا کر 5 کروڑ ’’جائز کمیشن‘‘ جیب میں ڈال کر لاتعلق ہوجاتا ہے، اپنا کمیشن چھوڑ کر ٹھیکے دار سے ایمان داری کے ساتھ منصوبہ مکمل کرواتا ہے، یا 10 فی صد کے علاوہ بھی ٹھیکے دار سے مک مکا کر کے منظور شدہ منصوبے کا بیڑا غرق کرتا ہے۔
صرف یہی نہیں، ہمارے یہ نمایندے بھاری بھرکم تنخواہ اور الاؤنسیں بھی ہر ماہ وصول کرتے ہیں، جب کہ دیگر مراعات کے اخراجات اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔ ان کا میڈیکل فری ہے۔ انھیں بیرونِ ملک بھی سرکاری طور پر علاج معالجے کی سہولت دست یاب ہوتی ہے۔ ہر ماہ ریل اور جہاز کے ٹکٹ ملتے ہیں۔ گاڑی میں سرکاری پٹرول استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بجلی اور گیس کے بل سرکار ادا کرتی ہے۔ ٹیلی فون سرکار کے خرچے پر استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں۔ یہ ایسے نشے ہیں، جو ایک بار لگ جائیں، تو چھوڑے نہیں جا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار کے نشے کی خاطر انھوں نے قوم کو تقسیم کر دیا ہے۔ ان کی اپنی اولادیں بیرونِ ممالک پُرتعیش زندگی گزار رہی ہیں اور یہ عام لوگوں کی اَولاد کو جھوٹے نعروں اور دعوؤں کے پُرفریب جال میں پھنسا کر سڑکوں پر مروا رہے ہیں۔ کیا کسی احتجاجی تحریک کے دوران میں آپ نے ہمارے انقلابی لیڈروں کی اولادوں کو بھی مقدس انقلاب کا حصہ بنتے اور احتجاجی جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے دیکھا ہے؟
ہمارے ہاں سرکاری خزانے کو ذاتی پونجی سمجھ لیا گیا ہے اور توشہ خانہ نے ہر ’’امیر المومنین‘‘ کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس بہتی گنگا میں سب نے مقدور بھر ہاتھ دھوئے ہیں، بل کہ اَشنان تک کیا ہے۔ عوام آٹے کے پیچھے رُل جاتی ہے، جب کہ سرکاری گوداموں میں گندم پڑی پڑی گل سڑ رہی ہوتی ہے۔ جب تک عوام زندہ باد، مردہ باد کے نعروں سے نکل کر اپنے نمایندوں سے اپنے حقوق کی بابت سوال نہیں کریں گے، تب تک یہ ذلت ایسے ہی ان کا مقدر رہے گی۔ تب تک ہمارے راہ بر ایسے ہی راہ زن بن کر ہمیں لوٹتے رہیں گے۔ تب تک عوام کے لیے سرکاری خزانہ یوں ہی خالی اور ان مراعات یافتہ لوگوں کے لیے بھرا رہے گا۔ اقتدار میں آ کر کئی گنا اثاثے بنانے والوں سے جب تک ان کی آمدن کا حساب نہ لیا جائے گا، تب تک یہ برہمن بن کر عوام سے شودروں جیسا سلوک کرتے رہیں گے۔
ہمارے ہاں ذاتی اَنا کی خاطر ملکی مفاد کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن دانستہ حکومت سے تعاون نہیں کرتی کہ کہیں حکومت مضبوط اور مقبول نہ ہو جائے۔ ملکی مفاد جائے بھاڑ میں۔ البتہ ارکانِ پارلیمنٹ کی مراعات اور تنخواہ میں اضافے کی بات ہو، تو ایسے بِل کی حمایت میں محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
محمد بن عروۃ یمن کا گورنر بن کر شہر میں داخل ہوئے۔ لوگ استقبال کے لیے اُمڈ آئے۔ اُن کا خیال تھا کہ نئے گورنر لمبی چوڑی تقریر کریں گے۔ محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ تھا: ’’لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت ہے۔ اس سے زیادہ لے کر مَیں واپس پلٹا، تو مجھے چور سمجھا جائے۔‘‘
یہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سنہرا دور تھا۔ محمد بن عروہ نے یمن کو خوش حالی کا مرکز بنا دیا۔ جس دن وہ اپنی گورنری کے ماہ و سال پورے کرکے واپس پلٹ رہے تھے۔ لوگ اُن کے فراق پر آنسو بہا رہے تھے۔ وقتِ رخصت لوگوں کا جمِ غفیر موجود تھا۔ اُمید تھی کہ لمبی تقریر کریں گے۔ اپنی کامیابیوں کے قصے بیان کریں گے۔ محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ تھا: ’’لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت تھی، مَیں واپس جا رہا ہوں۔ میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘
پاکستانیو! اپنے وزرائے اعظم، وزیروں، مشیروں، صدور، گورنروں اور وزرائے اعلا کے آنے اور جانے والے دن کا تقابل کیجیے۔ آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ وہ کتنا ایمان دار اور عوام کا خیرخواہ رہا ہے۔
مرحوم سائیں ناز حسین نازؔ کیا خوب کَہ گئے ہیں:
راہ زن ہیں راہ بروں کے بھیس میں
ہم لٹے اپنوں سے اپنے دیس میں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے