انقلاب کے لیے تشدد کا راستہ اپنانا ضروری نہیں

Blogger Nasir Yousafzai

پختونخوا میں قوم پرست تحریکوں سے وابستہ کچھ نوجوان عدم تشدد کے ذریعے احتجاج اور تحریکوں کو بے معنی اور ناکام سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک انقلاب اور تبدیلی کے لیے تشدد کا راستہ اپنانا ضروری ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ پُرامن جد و جہد سے کبھی استعماری یا جابرانہ نظام کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ تاہم، تاریخ اس خیال کی تردید کرتی ہے اور ہمیں ایسے بے شمار واقعات سے روشناس کراتی ہے، جہاں عدم تشدد کی تحریکوں نے استعماری نظاموں کو زوال پذیر کیا۔
سب سے پہلے ہمیں امریکہ کی مثال دیکھنی چاہیے، جہاں ’’مارٹن لوتھر کنگ‘‘ نے عدم تشدد اور امن کے فلسفے کو اپنا کر افریقی امریکیوں کے حقوق کے لیے ایک عظیم جد و جہد کی۔ اس تحریک کے نتیجے میں امریکہ میں نسلی امتیاز کے خلاف قوانین بنائے گئے، جو آج بھی انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ کا "I Have a Dream” خطاب نہ صرف افریقی امریکیوں، بل کہ پوری دنیا کے لیے ایک مشعلِ راہ بن گیا۔ اُن کی تحریک نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ تشدد کے بغیر بھی تبدیلی ممکن ہے، اور تبدیلی بھی ایسی جو دیرپا اور مضبوط ہو۔
اسی طرح جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی قیادت میں چلنے والی تحریک ایک اور روشن مثال ہے۔ نیلسن منڈیلا اور اُن کے ساتھیوں نے برسوں تک جابرانہ حکومت کا سامنا کیا، لیکن اُنھوں نے عدم تشدد کی راہ کو نہیں چھوڑا۔ منڈیلا کی قید اور اُن کے ساتھیوں کی قربانیاں آخرِکار رنگ لائیں اور جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کا خاتمہ ہوا۔ منڈیلا کا فلسفہ ’’امن‘‘ اور ’’برداشت‘‘ پر مبنی تھا، جس نے جنوبی افریقہ کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔
مہاتما گاندھی کی قیادت میں برصغیر کی آزادی کی تحریک بھی عدم تشدد کی ایک عظیم مثال ہے۔ گاندھی نے ’’ستیہ گرہ‘‘ کا فلسفہ اپنایا، جس کے تحت اُنھوں نے برطانوی سامراج کے خلاف پُرامن احتجاج اور سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ گاندھی کی تحریک نے برطانوی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ برصغیر کے عوام کو آزادی دے۔ آج بھی گاندھی کا نام عدم تشدد کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔
عدم تشدد کی تحریکوں کے ان تاریخی واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پُرامن جد و جہد کسی بھی معاشرتی اور سیاسی تبدیلی کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ جو لوگ تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی تحریک کو نقصان پہنچاتے ہیں، بل کہ اپنے مقاصد سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے سیاسی نظام اور حکومتیں کبھی ایسے گروہوں کو تسلیم نہیں کرتیں، جو تشدد کا راستہ اپناتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عموماً ’’دہشت گرد‘‘ یا ’’باغی‘‘ قرار دیا جاتا ہے، اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔
تشدد کی راہ پر چلنے والے افراد کے لیے ایک اور چیلنج یہ ہوتا ہے کہ اُنھیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہوپاتی۔ عوام عام طور پر پُرامن تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ تشدد کے نتیجے میں صرف تباہی اور بربادی ہی ہوتی ہے۔ پُرامن احتجاج اور تحریکیں نہ صرف عوام کے دلوں میں جگہ بناتی ہیں، بل کہ عالمی سطح پر بھی انھیں پذیرائی ملتی ہے۔
حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھیں اور پُرامن جد و جہد کو اپنائیں۔ انقلاب راتوں رات نہیں آتے، بل کہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے، جس میں صبر اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کے دانش ور اور راہ نما عوام کی سیاسی اور علمی تربیت کریں، تاکہ وہ تشدد کے بہ جائے امن اور برداشت کی راہ اپنائیں۔
اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ جنگیں اور تشدد کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتے۔ ہمیں عدم تشدد اور مثبت تبدیلی کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تشدد کے بہ جائے امن اور صبر کے ذریعے ہی قومیں ترقی کرتی ہیں اور اپنے حقوق حاصل کرتی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے