احتجاج ہی ذریعۂ نجات ہے

Blogger Mehran Khan

’’دہشت گرد‘‘، ’’دہشت گردی‘‘، ’’بدامنی‘‘، ’’خودکُش دھماکا‘‘، ’’نامعلوم افراد کی فائرنگ‘‘، ’’فوجی آپریشن‘‘ ، ’’جبری گم شدگی‘‘، ’’ماورائے عدالت قتل‘‘، ’’عوامی احتجاج‘‘ اور ان جیسے ڈھیر سارے الفاظ ہیں، جن کے معنی اور مفہوم سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ کیوں کہ یہ سب ہم سہہ چکے ہیں، سہہ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک سہتے جائیں گے۔
ہمارا تعلق بدقسمتی سے اُس خطے سے ہے، جس نے دہشت گردی کی کئی لہریں دیکھی ہیں۔ ہمارے بچپن کو دہشت گردی کا ناسور کھا گیا اور ہماری جوانی پر بھی اس کے کالے سائے منڈلا رہے ہیں۔ ہمارا بچپن ایک عجب بے یقینی کے ماحول میں گزرا اور ہماری جوانی بھی کچھ ایسی ہی گزر رہی ہے۔ سیاسی اور ریاستی اداروں کے عہدے داروں کی بے حسی سے یہ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ہمارا مستقبل بھی ہمارے ماضی اور حال سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔
ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں، جو فطری موت کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ ہمیں فطری موت مرنے کی بھی آزادی نہیں۔ ہمارے خطے کے ان حالات کے ذمے دار کچھ آئین شکن قوتیں اور کچھ سیاسی راہ نما ہیں، جو اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں…… لیکن اس پر دل پھر بھی خوش نہیں۔ گزرے ہوؤں کی بیمار ذہنیت کا اثر چند زندہ لوگوں پر بھی پڑچکا ہے، انھیں بھی بیمار ذہنیت کا حامل بنا چکا ہے۔ اب اُنھیں بھی ’’مفت ڈالر‘‘ کھانے کی لت لگ چکی ہے، جس کی قیمت ہم پشتون ادا کررہے ہیں…… لیکن برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔
پہلے ہمیں بے وقوف بنایا گیا۔ ہم بڑے شوق سے بن گئے۔ البتہ ہمارے دانش ور چیختے رہے، لیکن ہم اُن کا مذاق اُڑاتے رہے۔ اب ہمیں پھر سے بے وقوف بنایا جارہا ہے، بد امنی پھیلائی جارہی ہے، لیکن پہلی بار بے وقوف بننے کا فائدہ یہ ہوا کہ اب عوامی شعور کی سطح بڑی حد تک بلند ہوگئی ہے، اور اب ہم کسی بھی صورت بے وقوفی کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ہم پشتون آج بھی کچھ ریاستی اور کچھ غیر ریاستی عناصر کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں۔ گویا یہ چکی کے دو پاٹ ہیں، جن کے بیچ ہم پس رہے ہیں۔ کیؤں کو اب بھی نہیں معلوم کہ ان کا قاتل کون ہے اور مسیحا کون……؟ اب ہمیں قاتل کا گریبان بھی پکڑنا ہے اور مسیحا سے بھی پوچھنا ہے کہ وہ مسیحا ہے یا مسیحا کے روپ میں چھپا قاتل……؟
ہم اب کی بار غیر ریاستی عناصر کا ساتھ دے سکتے ہیں اور نہ ریاستی عناصر کو اپنے اوپر مسلط ہی کرسکتے ہیں۔ فضل ربی راہی نے اپنی کتاب ’’وادئی سوات میں جو ہم پہ گزری‘‘ (سوات میں طالبانی اور عسکری محاصرے کی رواداد) میں طالبان کے جبر کے ساتھ ساتھ ریاستی اور عسکری جبر کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ میرے نزدیک سوات کے ہر فرد کو مذکورہ کتاب پڑھنی چاہیے۔ کیوں کہ اس کتاب میں لکھے گئے حقائق ہماری یادداشتوں کا حصہ ہے۔ جو ہم پہ گزری اسے کتاب میں پڑھ کے ایک عجیب کرب، مگر ساتھ ہی عجیب سے اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ریاستی جبر کا سلسلہ رکتا ہی نہیں۔ ہم پشتونوں کو جشنِ آزادی کے روز ہی تحصیل مٹہ کے گاؤں گوالیرئی سے تعلق رکھنے والے خوب رو نوجوان مشتاق کی شہادت کا تحفہ دیا گیا۔ اس کا قاتل بھی نامعلوم ہی نکلا، مگر نامعلوموں کو بڑی حد تک اپنے ہی مسلسل جبر اور پشتونوں کی عوامی تحریک نے بے نقاب کردیا ہے۔
ہم دہشت گردی کی ہر شکل کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف مرتے دم لڑتے رہیں گے۔ بولنے والے بولتے رہیں گے، لکھنے والے لکھتے رہیں گے اور اگر کبھی چیخنے کی ضرورت محسوس ہوئی، تو مل کے چیخیں گے اور اپنے خطے کے امن اور خوب صورتی کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم ظلم کے خلاف ہر صورت میں احتجاج کریں گے۔ کیوں کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ’’احتجاج ہی ذریعۂ نجات ہے۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے