شکیل خان ضلع ملاکنڈ کے اُن چند گنے چُنے سیاست دانوں میں شامل ہیں، جنھوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز گراس روٹ لیول سے کیا ہے۔ اُنھوں نے 1998ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اس سال بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ڈھیری جولگرام یونین کونسل میں جنرل کونسلر کے لیے کاغذاتِ نام زدگی جمع کرائے تھے، لیکن وہ انتخابات پھرمنعقد نہ ہوسکے۔ 2001ء میں شکیل خان جنرل مشرف کے نئے بلدیاتی نظام میں ڈھیری جولگرام سے بہ طور ناظم منتخب ہوئے اور ان انتخابات کے آخری مرحلہ میں پیپلز پارٹی کے ہمایون خان نے ضلع ملاکنڈ کے ناظمِ اعلا کی سیٹ پر کام یابی حاصل کی۔ شکیل خان کا ہمایون خان کے بااعتماد ساتھی ہونے کے ناتے ملاکنڈ کی مقامی حکومت کے چلانے میں بڑا عمل دخل تھا۔
شکیل خان کا باغیانہ پن اور ہر ایشو کو اپنے زاویے اور نقطۂ نظر سے دیکھنے اور اس پر ایک خاص موقف اختیار کرنے کا رویہ اس کے سیاسی سفر کے آغاز ہی سے شروع ہوا تھا۔ وہ ہمایوں خان کے ساتھ مختلف ایشوز پر اختلاف رکھتے ہوئے اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے تھے، جس سے دونوں کے درمیان بدگمانیاں پیدا ہوئیں اور پھر دونوں کے درمیان دوریاں اتنی بڑھ گئیں کہ اُن کو پیپلز پارٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ دونوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے میں بہت سے لوگوں نے کردار ادا کیا تھا۔
شکیل خان 2013ء کے عام انتخابات میں ملاکنڈ سے پی ٹی آئی کی سیٹ پر صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی، جس میں شکیل خان کو وزیرِاعلا کے معاونِ خصوصی برائے پاپولیشن مقرر کیا گیا، جو آئینی طور پر صوبائی وزیر کے عہدے کے برابرہوتا ہے۔ ہر مسئلہ پر بے باکی سے بولنے کی عادت نے ایک بار پھر سر اُٹھایا اور اپنے حلقے ملاکنڈ کو ترقیاتی کاموں میں نظر انداز کرنے پر اسمبلی کے فلور پر اُنھوں نے ایک پُرجوش اور دُھواں دھار تقریر کردی۔ سیاسی مبصرین اور سیاسی کارکنان نے شکیل خان کی اس تقریر کو وزیرِ اعلا کے ساتھ اختلاف تصور کیا اور اس کے نتیجے میں ضلع ملاکنڈ میں اس تاثر کو تقویت ملی کہ شکیل خان کے رویے کی وجہ سے صوبائی حکومت ملاکنڈ میں ترقیاتی کام کے لیے فنڈزفراہم نہیں کر رہی ہے۔
2018ء کے عام انتخابات میں وہ ایک بار پھر ملاکنڈ سے پی ٹی آئی کی سیٹ پر صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوکر ریونیو کے صوبائی وزیر بنا دیے گئے۔ پنجاب کے وزیرِ اعلا بزدار کی طرح خیبر پختون خوا کے وزیرِ اعلا محمود خان پر بیڈ گورننس کے الزامات لگ رہے تھے اور اسی طرح کچھ وزرا اور اسمبلی ممبران کے اجلاسوں میں ان الزامات کی بازگشت سنائی دے رہی تھی، جس سے وزیرِ اعلا محمود خان اچھی طرح آگاہ تھے۔ شک وشبہ کی یہ فضا اتنی گرد آلود ہوگئی تکہ محمود خان نے شکیل خان، عاطف خان اور شاہرام ترکئی پر پارٹی اور حکومتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر وزارتوں سے فارغ کردیا۔ اس طرح شکیل خان ایک بار اپنی باغی سوچ کی وجہ سے وزارت سے محروم ہوگئے اور ضلع ملاکنڈ پر حکومت کے خزانے سے کرم و عنایت ماند پڑگئی۔
9 مئی کے واقعات کے بعد شکیل خان نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن پی ٹی آئی کے ساتھ اپنا ناتا برقرار رکھا۔ 2024ء کے عام انتخابات میں حکومتی رکاوٹوں کے باوجود وہ پی ٹی آئی کی سیٹ پر منتخب ہوئے اور عمران خان کی ہدایت پر سی اینڈ ڈبلیو کے وزیر بنا دیے گئے۔
پختون خوا میں امن و امان کا مسئلہ سنگین صورتِ حال اختیار کرچکا ہے اور کئی اضلاع میں حکومت کی رٹ خاصی کم زور ہوچکی ہے۔ روزانہ دہشت گرد حملوں میں پولیس اور سیکورٹی اداروں کے اہل کار شہید ہو رہے ہیں۔ گورننس کے حالات بھی تسلی بخش نہیں اور حکومتی اداروں پر کرپشن کے الزامات بھی لگ رہے ہیں۔ ان حالات میں وہ انسان کیسے خاموش رہ سکتا ہے، جس کا اپنی حکومت کی غلطیوں کی نشان دہی کرکے اُن پر اپنا اُصولی موقف اپنانے کا پیراڈائم رہا ہو۔
شکیل خان کے لکھے ہوئے بیان کے مطابق جب اُن کویہ معلوم ہوا کہ سی اینڈ ڈبلیو کے محکمے میں کرپشن چیف منسٹر کے ایما پر ہو رہی ہے، تو عمر ایوب اور عاطف خان کو ساتھ لے کر وہ اَڈیالہ جیل جا پہنچے اور خان صاحب کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ پھر عمران خان کی ہدایت پر پریس کانفرنس میں اُن تمام لوگوں کی نشان دہی کی، جو اس کرپشن میں ملوث ہیں۔ اس کے بعد صوبائی حکومت کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کو اپنا لکھا ہوا بیان دے دیا۔
حکومت کا موقف یہ ہے کہ کمیٹی نے شکیل خان پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات درست قرار دیے اور اُن کو بنیاد بناکر شکیل خان کی وزارت کو ’’ڈی نوٹی فائی‘‘ کرنے کی سمری گورنر کو بھجوائی، لیکن سمری پر دستخط سے پہلے وزیر موصوف نے استعفا دے دیا۔
شکیل خان جس خود اعتمادی کے ساتھ اس ایشو پر بول رہے ہیں، نہ صرف پی ٹی آئی ملاکنڈ کے کارکنان بلکہ کئی منتخب نمایندوں نے بھی واشگاف اور سخت الفاظ میں شکیل خان کا دفاع کیا ہے۔ کئی منتخب نمایندوں نے اپنے ایکس (سابقہ نام ٹویٹر) اکاؤنٹس پر وزیرِ اعلا کے ناراض ہونے کی پروا کیے بغیر شکیل خان کو ایمان دار شخص قرار دیا ہے۔
ضلع ملاکنڈ کے پریس کلب کے معتبر اور ذمے دار صحافیوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دس بارہ سال کے عرصے میں وزیر موصوف پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا ہے۔
حکومت کا کم زور اور ڈانواڈول موقف، کمیٹی ممبران کا خاموش رہنا، شکیل خان کا بڑی بے باکی سے ہر فورم پراپنا موقف بیان کرنا اور مخالف سیاسی پارٹیوں اور ان کے کارکنان کا خاموش رہنا، اس بات کی دلیل ہے کہ صوبائی حکومت کا موقف کم زور ہے۔
اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے، تو آپ کو انصاف اور اُصولوں پر کاربند رہنے والے سیاسی رہنماؤں کا حشر اچھا نظر نہیں آئے گا۔ ایسے پاک باز سیاست دان کو کوئی پارٹی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ کیوں کہ سیاست لے دے کا نام ہے اور جو سیاست دان ایمان داری اور بے باکانہ رویے پر چلتے ہیں، وہ اکثر ناکام رہتے ہیں اور آخرِکار اُن کے علاقے کے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے انقلابی رویے سے شکیل خان کے چاہنے والوں میں اضافہ ہوجائے گا، وہ مزید مقبول ہوتے جائیں گے، لیکن اس قسم کے آئیڈیلزم کے شکار لوگ کچھ ڈیلیور نہیں کرسکتے۔ وہ ہر وقت اُصولوں اور قوانین کے ’’ایف‘‘، ’’وٹ‘‘ اور ’’بٹ‘‘ سے ہر ایشو کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ اہلِ ملاکنڈ شکیل خان سے توقع کرتے ہیں کہ آیندہ کے لیے وہ ہر ایشو پر اُصولی سٹینڈ لیتے وقت اپنے علاقے کی غربت، بے روزگاری اور خستہ ہال انفراسٹرکچر کو ضرور مدنظر رکھیں گے۔
ملاکنڈ کے عوام ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ آپ کرپشن کا حصہ بنیں، لیکن اُمید کرتے ہیں کہ آپ درمیان والا راستہ اختیار کرکے نہ صرف کرپشن کا راستہ بند کرسکتے ہیں، بل کہ اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے فنڈز بھی حکومت سے حاصل کرسکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔