مولانا ابو الکلام آزاد نینی جیل الہ آباد میں قید تھے۔ اُس زمانے کا ایک مزیدار لطیفہ انھی کی زبانی سنیے:
’’جیل میں میری کوٹھڑی کے عین سامنے ایک دوسری کوٹھڑی میں کوئی چینی قیدی رہتا تھا، مگر زبان کی بیگانگی کے باعث ہم دونوں آپس میں بات چیت نہیں کرسکتے تھے۔ ایک دوسرے کا منھ تک کر رہ جاتے۔ بہ قول شاعر
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
اس چینی کو یہ معلوم نہ تھا کہ مَیں کس جرم میں ماخوذ ہوں۔ غالباً سوچتا رہتا ہوگا، آخر ایک دن اُس سے رہا نہ گیا، میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور اپنا ہاتھ لہرانے لگا، یعنی یہاں کیسے آئے ہو؟ مَیں کیا جواب دیتا، خاموش رہا، تو اُس نے پوچھا: ’اوپیم؟‘ یعنی کیا افیم کے معاملے میں پکڑے گئے ہو؟
مَیں نے نفی میں سر ہلایا، تو اُس نے اپنے ہاتھ کو اپنے گلے پر چھری کی طرح پھیرا، یعنی کسی کو قتل کیا ہے؟ مَیں نے پھر سر ہلایا، تو آخر اُس نے پوچھا: ’گاندھی؟‘ اس پر مَیں نے سر ہلایا، تو وہ بالکل مطمئن ہوگیا، گویا اُس کے نزدیک گاندھی بھی ناجائز افیون اور قتل کی طرح جرائم میں داخل ہے۔‘‘
(’’شاعروں، ادیبوں کے لطیفے‘‘، مرتبہ ’’شاہد حمید‘‘، ناشر ’’بک کارنر پرنٹرز، پبلشرز اینڈ بک سیلرز‘‘، صفحہ نمبر 176)