زیر نظر تحریر نیویارک ٹائمز کے خصوصی رپورٹر’’رابرٹ ٹرمبل‘‘ کے اس مضمون کا ترجمہ ہے، جو انھوں نے 1948ء میں لکھا ہے۔
"چند ہی سالوں پہلے تک ایشیا میں برف پوش پہاڑوں اور سرسبز وادی کے حامل علاقہ سوات کے مقابلے میں کوئی اور جگہ زیادہ ہنگامہ خیز اور جنگ و جدل سے خالی نہیں تھی۔ یہ ہزاروں سال تک مقدس زمین تھی، جہاں ہر چیز کی فراوانی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہاں بدھ مت کے زائرین آتے تھے۔ یہ وہ جنت نظیر وادی ہے جہاں ایک طرف اگر بدھانے اپنے قدموں کے نشانات چھوڑے ہیں، تو دوسری طرف پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والے سکندر اعظم بھی یہاں سے گزرے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے گئے اور قومیں بدلتی گئیں، جارح مزاج یوسف زئی پختون قوم جو کہ یوسف علیہ السلام کی اولاد تصور کی جاتی ہے، کے ہاتھوں میں سوات کی باگ ڈور آگئی ہے جنہوں نے حال ہی میں اسے امن و آشتی کا گہوارہ بنا دیا ہے جس کا سہرا 66 سالہ باریش شخصیت جو کہ یہاں کا حکمران ہے، کے سر ہے اور وہ ابھی تک تن تنہا اپنی حکمت اور قوت سے قائم کردہ ریاست پر حکمرانی کر رہا ہے۔ برطانیہ نے ضروری سمجھتے ہوئے 1926ء میں میاں گل شہزادہ عبدالودود کو اس نئی قائم شدہ 4000 مربع میل پر پھیلی ریاست سوات کا والی تسلیم کیا ہے۔ کیونکہ برطانیہ کو اس بات کا خطرہ لاحق تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ زیرک، قبائلی نظام کا سوجھ بوجھ رکھنے والا سیاستدان اور معتبر مذہبی رہنما (جو کہ سوات کے مشہور مذہبی پیشوا اخوند جنھیں ایک پیر اور بزرگ کی حیثیت حاصل ہے، کا پوتا ہے) کہیں انڈیا کے شمال مغربی حصہ کو دوسرا افغانستان نہ بنا لے۔ برطانیہ نے والئی سوات کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ اپنی ریاستی وسعت کو دریائے سند ھ تک محدود رکھے جس پر والی راضی ہوا لیکن اگست 1947 ء کو آزاد قبائلی علاقہ کالام کو ریاست سوات میں شامل کیا۔
خوشحالی کا دور:۔ حکومت پاکستان، جس کو والئی سوات نے قبول کیا ہے، نے ریاست سوات کو اپنے حال پر آزاد چھوڑ رکھا ہے اور حکومتِ پاکستان کو اس بات پر خوشی ہے کہ والئی سوات نے اپنی ریاست کے تقریباً 5 لاکھ عوام کو ایک منفرد معاشی نظام کے تحت (جس میں عشر کے نام رقم اکٹھی کی جاتی ہے) خوشحالی کے دور میں داخل کیا ہے۔
چند سیاحوں کے علاوہ سوات کے بارے میں بیرونی دنیا کم ہی جانتی ہے، جہاں کے دارلخلافہ سیدوشریف تک پہنچنے کے لئے پشاور سے شمال مشرق کی جانب 120 میل لمبی کچی سڑک پر جانا پڑتا ہے۔ سیدو شریف اور مضافات کی آبادی تین ہزار کچے مکانات پر مشتمل ہے۔ اگرچہ والئی سوات ناخواندہ ہے اور صرف پشتو زبان ہی بول سکتا ہے، تاہم اس نے ایک تعلیم یافتہ سیکرٹری رکھا ہوا ہے جو والئی سوات کو باخبر رکھنے کے لئے باقاعدہ بین الاقوامی خبریں ترجمہ کرتا ہے۔ بین الاقوامی دنیا کے واقعات اور خبروں کے بارے میں والئی سوات مکمل طور پر باخبر ہے اور ان کے خیالات وسیع ہیں۔ وہ چائنہ میں کمیونزم کے پھیلاؤ، اقوام متحدہ کے کردار اور گاندھی کے بارے میں بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ سوات میں تقریباً 4000 ہندو اور سکھ رہتے ہیں جو تجارت کرتے ہیں۔ یہ سکھ اور ہندو مسلمانوں کے درمیان آباد ہیں اور خوش ہیں۔ ان کے درمیان کوئی بھی فرقہ وارانہ لڑائی نہیں ہوئی اور یہ لوگ سوات کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ تاہم تقسیم ہند کے دوران صرف 200 کے قریب ہندوں اور سکھوں نے ہجرت کی ہے۔ تاہم ان میں سے چند نے واپس آنے کے لئے ریاست کے ولی عہد کو درخواست لکھی لیکن اس نے انکار کیا۔
ولی عہد میاں گل جہانزیب ایک قابل شخصیت ہے، جس نے پشاور میں تعلیم حاصل کی ہے اور اپنی قابلیت کے اعتبار سے اکیلے ریاست کو چلانے کا اہل ہے جبکہ والئی سوات مختلف اہم امور پر ولی عہد سے مشورہ بھی لیتا ہے۔ والئی سوات ان دنوں عربی سیکھ رہا ہے اور روزانہ سہ پہر کے وقت قریبی پہاڑ پر چڑھتا ہے۔ اس نے جمعہ کے بجائے جمعرات کو سرکاری چھٹی مقرر کی ہے۔
ٹیلی فون پر احکامات جاری کرنا:۔ والئی سوات ریاست میں موجود مختلف مقامات پر لکڑی مٹی اور پتھر سے بنے ہوئے اسّی مربع گز پر محیط قلعوں میں موجود ریاستی اہلکاروں کو ٹیلی فون پر بھی احکامات جاری کرتا ہے۔ ریاست سوات کی معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے، جہاں زمین داروں سے 10 فی صد کے حساب سے عشر وصول کیا جاتا ہے۔ یہاں کے باشندے عموماً خوشحال ہیں جبکہ سرپلس غلہ حکومت پاکستان کو فروخت کیا جاتا ہے جس سے ریاست کو سالانہ 15,000 ڈالر موصول ہوتے ہیں۔ مذکورہ رقم سے والئی سوات نے اب تک تقریباً 50 میل سڑکیں، 14 اسکول اور ہسپتال سروس کا نظام بنایا ہے۔
والئی سوات اور ان کے مشیر خود اپنی ریاست چلاتے ہیں جن میں کوئی یورپی یا پاکستانی حکومت کا اہلکار شامل نہیں، جبکہ ریاست میں سادہ شرعی نظام کے تحت فیصلے کئے جاتے ہیں جس میں ’’خون کے بدلے خون‘‘ کا قانون رائج ہے۔
ریاست سوات میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ ڈاکے اور چوری جیسے اعمال کو یہاں کوئی نہیں جانتا۔‘‘
………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔