ملک بیرم خان المعروف ’’تاتا‘‘ یکم اکتوبر 1983ء کو میونسپل کمیٹی مینگورہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ چار سال مکمل ہونے کے بعد 21 نومبر 1987ء کو ان کی مدتِ ملازمت ختم ہوئی۔
دوبارہ بلدیاتی انتخابات میں اُنھوں نے پھر بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی اور 29 دسمبر 1987ء کو دوبارہ چیئرمین منتخب ہوئے۔
بلاشبہ مذکورہ 8 سالوں میں ’’تاتا‘‘ نے مینگورہ شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ اُنھوں نے فضاگٹ میں دریائے سوات کے کنارے ایک بڑا پارک بنایا۔ مینگورہ شہر کے قابلِ ذکر مسائل حل کیے۔ مثلاً: ٹیوب ویل بنائے اور پورے مینگورہ شہر کو صاف پانی کی فراہمی شروع کی۔ گنبد میرہ میں قبرستان کے لیے وسیع زمین خریدی۔ شہر کی گلیوں میں اسٹریٹ لائٹس کا انتظام کیا۔ سڑکوں پر برقی کھمبوں میں قمقمے (بلب) لگائے۔ شہر کے گلی کوچوں میں صفائی کا نظام متعارف کرایا۔ اس کے بعد چھوٹے چھوٹے بورڈوں پر احادیث لکھوا کر سڑک کنارے برقی کھمبوں کے ساتھ آویزاں کیے۔
قارئین! میونسپل کمیٹی کے ایک اہل کار سے مَیں نے چند سال قبل پوچھا تھا کہ ’’تاتا‘‘ کا رویہ سٹاف کے ساتھ کیسے ہوتا تھا؟ موصوف کا جواب تھا:’’تاتا، ادنا سے اعلا ملازم تک کو اپنے بچوں کی طرح دیکھتے تھے۔ جب کوئی اچھا کام کرتا تھا، تو اُس کو اپنی جیب سے انعام دیتے تھے اور جو کام غلط کر جاتا تھا، اُس کو سزا کے طور پر مرغا بھی بناتے تھے۔ سٹاف سے اپنے بچوں کی طرح کام لیتے تھے۔ کس کی مجال تھی کہ اپنا کام بروقت نہ کرتا۔‘‘
وائے ناکامی! آج کل پورا شہر گریویٹی فلو واٹر سکیم کے لیے ٹوٹا پڑا ہے۔ جب میونسپل کمیٹی مینگورہ میں ملک بیرم خان، رسول خان حاجی صاحب، سید خدا بخش صاحب، عجب خان حاجی صاحب، محمدی خان صاحب، محمد یوسف طوطا ، رفیع الملک کاکی خان اور دیگر عظیم لوگ تھے، تو اُنھوں نے اُس وقت مینگورہ شہر میں مستقبل میں زیرِ زمین پانی کے نیچے جانے اور مینگورہ خوڑ کے آلودہ ہونے کو محسوس کر لیا تھا۔ تب میونسپل کمیٹی مینگورہ نے اکثریتی قرار داد سے فیصلہ کیا کہ ایک نہر نکالی جائے، جس کو منگلور کے اوپر سے گزار کر مینگورہ شہر کے اردگرد پہاڑوں سے گزارتے ہوئے پانڑ میں مینگورہ خوڑ میں گرایا جائے۔ اس سے مینگورہ کے ارد گرد پہاڑوں پر سبزہ اُگے گا، چشمے خشک نہیں ہوں گے، بل کہ مزید اُبل پڑیں گے۔ یوں آبادی بڑھنے سے بھی درجۂ حرارت نہیں بڑھے گی۔ زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں اضافہ ہوگا اور مینگورہ خوڑ ہمیشہ کے لیے آلودگی سے محفوظ ہو جائے گا۔
مذکورہ منصوبے کو صوبائی حکومت کے سامنے پیش کیا گیا۔ کیوں کہ اس کی تکمیل میونسپل کمیٹی کے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی ممکن نہیں تھی۔ بدقسمتی سے صوبائی حکومت نے کوئی دل چسپی نہیں لی۔ مرکزی حکومت نے بھی منصوبہ نظر انداز کیا، مگر یہ کہیں نہ کہیں فائلوں میں دبا رہا، جس کو اَب بہت دیر کے بعد تکنیکی خامیوں اور ناقص پائپوں کے ساتھ بہت سر سری سا تکمیل کے مراحل تک لے جایا جا رہا ہے، مگر اگر تب اس پر عمل ہوتا، تو درجۂ حرارت میں اتنا اضافہ نہ ہوا ہوتا۔
مینگورہ شہر کے اردگرد درخت ہوتے اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر اتنے نیچے نہ جاتے کہ پانی کے میڑ لگانے کی ضرورت ہوتی۔
قارئین! ’’تاتا‘‘ اعلا تعلیم یافتہ نہ تھے ، لیکن اُن کی بات چیت، اُن کا وِژن اور عادات ایسی تھیں جیسے پی ایچ ڈی اسکالر ہوں۔ اُن کی ملن ساری، خوش اخلاقی، خوش لباسی اور اُن کی دیگر عادات ایسی تھیں کہ جہاں جاتے، سب احتراماً کھڑے ہوتے۔ آج کے افسر ٹائپ لوگوں کا ’’تاتا‘‘ سے موازنہ کیا جائے ، تو شبینہ ادیب کانپوری کا مشہور شعر کوٹ کیا جائے گا کہ
جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا
تمھارا لہجہ بتا رہا ہے تمھاری دولت نئی نئی ہے
66 سال کی عمر میں جب اس عظیم انسان کا انتقال ہوا، توخبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ ایک دوسرے کو فون کرکے تصدیق کرتے رہے۔ اُن کا جنازہ آدھی رات کو تھا، لیکن جنازگاہ اور سڑک کی جگہ کم پڑی۔ اُن کی فاتحہ خوانی میں کرسیاں کم پڑیں۔ سیکڑوں افراد نے نمازِ جنازہ یا فاتحہ خوانی کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُنھوں نے اپنی زندگی میں سب لوگوں کی عزت کی۔
’’تاتا‘‘ سب کے مشر تھے۔ اُن کا انتقال ایسا تھا، جیسے سب لوگوں کے اپنے خاندان کے کسی بڑے کا انتقال ہوا ہو۔
خدا بخشے، ملک بیرم خان اس شہر مینگورہ کا غرور تھے۔ کم زور کی طاقت تھے اور ظالم کے سامنے دیوار۔ کسی زمانے میں حاجی رسول خان صاحب اور اُن کی دوستی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔
ملک بیرم خان مینگورہ شہر کے ہر باشندے کو اپنے خاندان کا فرد سمجھتے۔ شہر کے کسی آدمی، کسی جوان اور کسی بچے کی کوئی اچھی بات، یا اس کی کام یابی کا سنتے، تو خوش ہوتے اور ایسے ہوتے کہ جیسے اپنے بچے، اپنے بھائی کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں ۔ جس کو ملتے اس سے مکمل حال احوال پوچھتے۔
وہ شہر میں تھے، تو لگتا تھا کہ شہر کا معمار، شہر کا محافظ موجود ہے۔ فوت ہوئے، تو لگا کہ شہر کا معمار، شہر کا محافظ رخصت ہوا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔