گذشتہ دنوں پاکستانی مسلح افواج کے تعلقاتِ عامہ یعنی ’’آئی ایس پی آر‘‘ کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی، جس کے مطابق، سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے، ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری، پاک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ریٹائرڈ) کے خلاف کیے گئے ’’ٹاپ سٹی کیس‘‘ میں شکایات کی درستی کا پتا لگانے کے لیے کی تھی۔ نتیجتاً، پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ریٹائرڈ) کے خلاف مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
تادمِ تحریر یقینی طور پر یہ خبر پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا کی خبروں، تجزیوں اور تبصروں کی مرکز بنی ہوئی ہے اور پاک فوج کی جانب سے آرمی چیف کے بعد سب سے بڑے رینک کے آفیسر کے خلاف کی جانے والی تادیبی کارروائی کے مستقبل میں نہ صرف پاک افواج کے اندرونی نظم اور کنٹرول، بل کہ سیاسی، سماجی، آئینی، قانونی اور پارلیمانی حلقوں میں بھی دُور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
اس وقت تقریباً ہر پاکستانی کی زبان سے ’’کورٹ مارشل‘‘ کے الفاظ سننے کو مل رہے ہیں۔ کورٹ مارشل سے مراد کیا ہے، کورٹ مارشل کی کتنی اقسام ہیں، کورٹ مارشل کے اختیارات اور حدود کیا ہیں؟
ان تمام سوالوں کی کھوج میں ’’پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء‘‘ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ کورٹ مارشل کے حوالے سے ’’پاکستان آرمی ایکٹ1952ء‘‘ کا ’’باب نمبر 9‘‘ کو رٹ مارشل کے نام سے موجود ہے، جس میں درجِ بالا تمام سوالات کے جوابات مفصل انداز میں موجود ہیں۔
آرمی ایکٹ کے ’’سیکشن80‘‘ کے مطابق کورٹس مارشل کی چار اقسام ہیں: ’’جنرل کورٹس مارشل‘‘، ’’ڈسٹرکٹ کورٹس مارشل‘‘، ’’فیلڈ جنرل کورٹس مارشل‘‘ اور ’’سمری کورٹس مارشل۔‘‘
’’سیکشن 81‘‘ کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے جنرل کورٹ مارشل قائم کی جاسکتی ہے، یا چیف آف آرمی سٹاف کے وارنٹ کے ذریعے بااختیار افسر کے ذریعے قائم کی جاسکتی ہے۔
اس کورٹ کی تشکیل کی بات کی جائے، تو جنرل کورٹ مارشل کم از کم 5 افسران پر مشتمل ہوگا، جس میں 4 ممبران کیپٹن کے عہدے سے کم درجہ کے نہ ہوں گے۔
’’سیکشن 82‘‘ کے مطابق ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل ایک اتھارٹی کی طرف سے قائم کی جاسکتی ہے، جو جنرل کورٹ مارشل کو بلانے کا اختیار رکھتا ہو، یا کسی ایسے افسر کے ذریعے جو اس کے لیے کسی بھی اتھارٹی کے وارنٹ کے ذریعے بااختیار ہو۔
اس کورٹ کی تشکیل کی بات کی جائے، توایک ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل کم از کم 3 افسران پر مشتمل ہوگا، جن میں سے ہر ایک نے کم از کم 2 سال کی مسلسل مدت کے لیے کمیشن آفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دی ہوں۔
’’سیکشن 84‘‘ کے مطابق درجِ ذیل حکام کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل قائم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جیسا کہ:
ایک افسر جو اس سلسلے میں وفاقی حکومت یا چیف آف آرمی اسٹاف کے حکم سے بااختیار ہو یا حاضرِ سروس ایک افسر جو پاک فوج کے ایک حصے کی کمانڈ کر رہا ہو اور بریگیڈیئر کے عہدے سے نیچے نہ ہو۔
اس کی تشکیل کی بات کی جائے، تو ایک فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کم از کم 3 افسران پر مشتمل ہوگا۔ ’’سیکشن 88‘‘ کے مطابق: ایک سمری کورٹ مارشل کسی بھی کور آف یونٹ یا اس کے کسی بھی دستے کے کمانڈنگ آفیسر کے ذریعے کیا جاسکتا ہے اور ہر سمری کورٹ مارشل میں، مقدمے کی سماعت کرنے والا افسر اکیلے عدالت کی تشکیل کرے گا، لیکن کارروائی میں 2 افسران، یا 2 جونیئر کمیشنڈ افسران، یا 1 افسر اور ایک جونیئر کمیشنڈ افسر شرکت کریں گے۔ ساتھ یہ کہ ملزم جو مسلمان ہو اور اس کو سزا صرف اسلامی قوانین کے تحت دی جاسکتی ہو، تو مقدمہ کا ٹرائل کرنے والا افسر اور شریک افسران اور جونیئر کمیشنڈ افسران، سبھی مسلمان ہوں گے۔ جہاں کمانڈنگ آفیسر ایک غیر مسلم ہو، تو فارمیشن کمانڈر مقدمے کی سماعت کے لیے اک مسلمان افسر کو مقرر کرے گا۔
’’سیکشن 97‘‘ کے تحت جنرل کورٹ مارشل یا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اس ایکٹ کے تابع کسی بھی شخص کو قابلِ سزا جرم کے لیے ٹرائل کرے اور ایکٹ کے ذریعے مجاز کسی بھی سزا کو منظور کرے اور سیکشن 98 کے مطابق کسی بھی ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ آرمی ایکٹ کے تابع کسی بھی شخص سوائے آفیسر، جونیئر کمیشنڈ آفیسرکے قابلِ سزا جرم کے لیے ٹرائل کرے اور ایکٹ کے تابع موت کی سزا یا ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزا یا 2 سال سے زائد کی سزا یا 40 سے زائد کوڑے مارنے کی سزا کے علاوہ ہر طرح کی سزا کی منظوری دے۔
’’سیکشن 100‘‘ کے تابع سمری کورٹ مارشل کسی بھی شخص ماسوائے آفیسر، جونیئر کمیشنڈ آفیسر یا وارنٹ آفیسر کا آرمی ایکٹ کے تابع قابلِ سزا جرم کے لیے ٹرائل کرسکتا ہے اور ایکٹ کے تابع موت کی سزا یا ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزا یاایک سال سے زائد کی سزا یا 20 سے زائد کوڑے مارنے کی سزا کے علاوہ ہر طرح کی سزا کی منظوری دے۔
’’سیکشن 105‘‘ کے مطابق درجِ بالا کورٹ مارشل عدالتوں کا ہر فیصلہ ججوں کی اکثریتی رائے سے منظور کیا جائے گا، اور جہاں سزا دینے یا نہ دینے کے متعلق ججوں کی رائے برابر ہوجائے، تو فیصلہ ملزم کے حق میں دیا جائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔