تبصرہ نگار: کومل رانیہ شیخ
’’لیمپ کی روشنی میں اکیلے بیٹھنا، آپ کے سامنے ایک کتاب کھلی ہو، ماضی میں گزرے کسی شخص سے باتیں (علمی استفادہ) کرنا، جس سے آپ کبھی نہ ملے ہوں، یہ سب سے حیرت انگیز سکون ہے۔‘‘
قارئین! حکمتِ رومی از ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم میرے زیرِ مطالعہ رہی۔ کتاب پڑھتے ہوئے یہ احساس مجھے اپنے حصار میں گھیرے رہا کہ مولانا جلال الدین رومی کو قدرت نے کتنی گہری بصیرت، فہم، ادراکیہ شعور و مشاہدات سے نوازا ہے۔ یہ سرفرازی رومی کے لیے لائقِ فخر ہے۔
مثنوی مولانائے روم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’ہست قرآں دَر زبانِ پہلوی!‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مثنوی میں قرآنی معارف کی گہری تفسیر ملتی ہے۔ تصوف، وجودیت، مذہب اورخالقِ کائنات ربِ عظیم، عقل وعشق، مسئلہ جبرو قدر جیسے فلسفیانہ موضوعات انتہائی توضیح سے بیان کیے گئے ہیں۔
مثنوی میں پوشیدہ اَسرار کو آشکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یوں یہ مثنوی مطالب کے لحاظ سے ایسا وسیع و عریض اور بے کنارہ سمندر ہے جس کی وسعتوں اور اتھاہ گہرائیوں کا شمار بھی مشکل ہے۔
مولانا رومی کا سب سے اہم شاہ کار ان کی شہرۂ آفاق مثنوی ہے،جس نے مولانا رومی کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے اور جس کی شہرت اور مقبولیت نے ایران کی تمام تصانیف کوپیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ 6 بسیط دفاتر اور تقریباً 26 ہزار اشعارپرمشتمل ہے۔
یہ مثنوی اپنی سادگی، صفائی، سلاست و روانی، منقولات و معقولات، نصیحت آمیز جملوں، تلمیحات و استعارات اور دل چسپ واقعات و تمثیلات کی وجہ سے عوام و خواص میں ہمیشہ سے مقبول رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغازِ تصنیف سے آج تک کے دانش وروں نے مختلف زبانوں میں اس کے تراجم و شروحات لکھ کر اس میں موجود معانی کے سمندر سے چشمے بہائے ہیں…… لیکن ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے ان اَسرار و رموز کی جو مفکرانہ تفسیر اُردو زبان و بیاں میں کی ہے، وہ کسی دوسری زباں کے حصے میں نہیں آئی۔
مولانا رومی نے تمام حقائق کو جو اُن کے ذاتی اور نفسی تجربات پر مبنی تھے، چند حکایتوں اور کہانیوں کے لباس میں پیش کیا ہے، ملاحظہ کریں:
’’عقل استدلالی ایک عصائے کور ہے اندھے عصا کے سہارے پر چلتے ہیں۔ اگر وہ ہر وقت ٹھوکریں نہیں کھاتے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دیدہ ور لوگوں کی پناہ میں ہیں۔ اگر تمام بستی اندھوں کی ہوتی، تو ان کے عصا بھی کس کام آتے۔
کہتے ہیں کہ ایک اندھے کو لوگوں نے دیکھا کہ اندھیرے میں چراغ ہاتھوں میں لے کر چل رہا ہے۔ کسی نے کہا حافظ جی، یہ کیا فعلِ عبث ہے،تم کو اس چراغ سے کیا فائدہ؟ اُس نے جواباً کہا کہ مجھ کو تو اس کی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی، لیکن آنکھوں والوں کو تو دکھائی دیتا ہے۔ جب اُن کو یہ چراغ دکھائی دے گا، تب وہ مجھے ٹھوکر نہیں ماریں گے، خود بھی بچیں گے اور مجھ کو بھی راستے پر ڈال دیں گے۔‘‘
گر نہ بینایاں بدندے در جہاں جملہ کوراں خود بمردندے عیاں۔ (ص77)
مثنوی میں قرآنِ حکیم کی اچھوتی تفسیر بھی ملتی ہے۔ مختلف احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریح بھی اور اسرارِ حیات کی عقدہ کشائی بھی ہے، اور اس کوشش میں انسان کی عقلی کم مائیگی کا اقرار بھی، علم و حکمت کی گہرائیوں کا بیان بھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ خلیفہ عبدالحکیم سے بہتر اس دور میں شاید ہی کوئی اور شخص اس کام کو پوری طرح بنا سکتا۔
زیرِ نظر کتاب ’’حکمتَ رومی‘‘ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم ( صفحات: 256) کی ایک اہم تصنیف ہے۔ اس کتاب میں مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی میں چھپے ہوئے اَسرار و رموز سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ مصنف نے اُن اَسرار و رموز کی نہایت مفکرانہ تفسیر کی ہے۔
خلیفہ عبد الحکیم نے مثنوی مولانائے روم کے اَسرار و رموز کو وا کرنے کے لیے اپنی اس کتاب حکمتِ رومی کو سات عناوین میں پیش کیا ہے جس کے تحت عشق، وحی و الہام، وحدت الوجود، آدم، صورت ومعنی، عالم اسباب، سلسلۂ علت و معلول اور جرح و قدر جیسے مضامین شامل کیے ہیں۔
خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: ’’مولانائے روم کی مثنوی کا آغازِ عشق، درد، فراق اور شوقِ وصال سے ہوتا ہے، لیکن آگے بڑھ کر عقل اور عشق کے باہمی ربط کے متعلق اُنھوں نے بڑی عارفانہ اور حکیمانہ باتیں بیان کی ہیں۔ مولانا کا صورت و معنی کا فلسفہ تمام تر ماہیتِ روح پر مبنی ہے۔ اُن کے نزدیک روح کی حقیقت نورِ شعور ہے ۔ جس طرح ہر صورت کسی معنی کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اُسی طرح ہر شے کا وجود اور اس کی طلب کسی مقصد کے ماتحت ہے۔
خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: ’’مولانا فرماتے ہیں کہ حواسِ ظاہری کے علاوہ انسان کے اندر حواسِ باطنی بھی ہیں، جن سے ہستی کے اُن پہلوؤں کا انکشاف ہوتا ہے جو حواسِ ظاہری کے ادراک میں نہیں آ سکتے۔‘‘
رومی اپنی مثنوی میں جا بہ جا اسی نظریے کو پیش کر رہے ہیں کہ کا ئنات بامعنی ہے اور معنی کا مرکز قلبِ انسان ہے۔ قلب، قالب کی پیداوار نہیں، بل کہ اس کے بر عکس قالب، قلب کی پیداوار ہے۔ اور اشیا میں جو خواص محسوس ہوتے ہیں، وہ فی نفسہٖ اشیا میں موجود نہیں ہوتے، بل کہ ہمارے ادراک کی اضافت سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘
’’قالب ازما ہست شد نے ما ازو بادہ ازما مست شد نے ما ازو!‘‘ (ص154)
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی چیز فی نفسہٖ مقصود نہیں ہوتی۔ تمام مطلوبات اقدار اور مقاصد سے وابستہ ہیں۔‘‘
خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں: ’’مولانائے روم نے دین کی بڑی خدمت کی۔ جبر و قدر کی جو بحثیں مثنوی میں ملتی ہیں، اُن سے زیادہ دل کش انداز میں کسی حکیم نے آج تک اس مسئلے کو پیش نہیں کیا۔
مولانائے روم فرماتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ تقدیر کا لکھا بدل نہیں سکتا، لیکن تقدیر اصل میں الٰہی قوانین کا نام ہے، جن میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ انسانوں کی جو فطرت بنائی گئی ہے، اسی کا نام تقدیر ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ زندگی کو ان قوانین کے مطابق ڈھالنا انسان کی فطرت اور اس کی تقدیر ہے۔ تقدیر کے قلم نے فقط یہی لکھا ہے کہ ہر کام کی تاثیر اور جزا اس کام کے مطابق ہوگی۔‘‘
یہ لوگ تقدیر کا مفہوم غلط سمجھے ہیں۔ تقدیر دراصل قوانینِ فطرت اور نوامیس الٰہیہ کا نام ہے۔ انسانوں کے اختیاری اور جزئی اعمال کے متعلق نہیں، بل کہ فطرت اورسنتِ الٰہیہ کے متعلق ہے۔ تقدیر کے اٹل ہونے کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اعمالِ حسنہ کا نتیجہ خیر ہوگا اور اعمال سیۂ کا نتیجہ شر۔ (ص: 160)
ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے مثنوی کو فارسی زبان سے اُردو قالب میں اتنی عمدگی سے ڈھالا ہے کہ پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ رومی کے افکار کو مترجم نے من و عن بیان کر دیا ہے۔ کہیں الفاظ، معنی، فارسی متن اور اُردو زبان میں ترجمے کا بُعد قاری کو محسوس نہیں ہوتا۔
فلسفیانہ موضوعات و تصورات میں دل چسپی رکھنے والے قارئین کو ’’حکمتِ رومی‘‘ ضرور پڑھنی چاہیے۔