چشمِ فلک نے ایک مدت کے بعد ایک دفعہ پھرعوامی طاقت کامنظر دیکھا ہے، جس سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کے طلبہ نے اپنی جرات و بسالت سے پوری دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں کب تھا کہ نحوو تکبر کی دیوی یوں رسوائی کا شکار ہو جائے گی اور اسے اپنے ہی باپ کے تخلیق کردہ ملک سے انتہائی رسوائی اور بے عزتی کے عالم میں بھارت میں پناہ لینی پڑے گی۔
شیخ مجیب الرحمان کا وہ ملک جو 16 دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشہ پر ابھرا تھا۔ اس کی ہونہار سپتری نے ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کرکے اپنے ہی شہریوں کا جینا محال کر دیا۔ جیلوں اور زِندانوں میں اذیتوں کی جو داستانیں منظرِعام پر آ رہی ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ جمہوریت، انسانی آزادی، انسانی حقوق، انسانی تکریم اور آزاد میڈیا کو جس طرح پاؤں تلے رھوندا گیا تھا، اس کا منطقی نتیجہ وہ رسوائی ہی ہوسکتی تھی، جو شیخ حسینہ واجد کا مقدر بنی۔ کاتبِ تقدیر نے ایک ایسی سیاہی سے اس کی پیشانی کو داغ دار کر دیا ہے، جو ہزار بار دھونے سے بھی نہیں اترے گی۔ چار باروزارتِ عظمیٰ کا تاج پہننے والی شیخ حسینہ واجد نحوت و تکبر کا چلتا پھرتا مجسمہ تھا اور اس مجسمے کا ایک دن ڈھایا جانا اٹل تھا۔ مخالفین تو ہر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، لیکن اُنھیں ملیا میٹ کرنے والا ایک دن خود ملیا میٹ ہوجاتا ہے۔ دنیا میں ظلم وجبر سے نہیں، بل کہ محبتوں سے انسانوں کے دلوں میں جگہ بنائی جاتی ہے۔انانیت کے ہرپیکر کو ایک نہ ایک دن اس آگ میں جلنا ہوتا ہے، جو اُس نے دوسروں کوبھسم کرنے کے لیے جلائی ہوتی ہے۔ برداشت، تحمل اور مفاہمت ہی وہ سنہری اصول ہیں، جو ریاستوں اور حکم رانوں کو محبوبِ خلائق بناتے ہیں۔ نفرت، انتقام اور زعمِ برتری ایک ایسی بیماری ہے جس کا انجام تباہی و بربادی ہی ہوا کرتا ہے۔
حسینہ واجد انتقام کے ایک ایسے گھوڑے پر سورا تھیں، جس کا واحد ہدف اپنے مخالفین کو نیست و نا بود کرنا اور اُنھیں اپنے پاؤں تلے روندنا تھا، لیکن کمال یہ ہے کہ اس کی اسی انتقامی خو نے اسے نشانِ عبرت بنا دیا۔
جنوبی ایشیا ایک ایسا خطہ ہے جس میں طالع آزمائی اور جبر کا دور دور ہ رہا ہے۔ سارے ہمسایہ ممالک میں یہی کلچر ہے جسے شیخ حسینہ واجد نے قائم کیا ہوا تھا۔ مخالفین کو کچلنا اور اُنھیں زِندانوں میں اذیتوں سے گزارنا ہی اس خطے کا کلچر ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے سب سے آگے ہے۔ اس ملک پر طالع آزماؤں کی ایک طویل داستان ہے۔ ایک کے بعد دوسرا آمر پاکستانیوں کا مقدر بنتا رہا اور اعلا قیادت کو جیلوں کی اذیتوں سے گزرنا پڑا، جب کہ کچھ کو پھانسی گھاٹ سے بھی گزرنا پڑا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل یحییٰ خان، جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومتوں کے تخت اُلٹ کر اپنے اقتدار قائم کرلیے۔ تحریکیں بھی چلیں، لیکن ان کے اندازِ فکر میں کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔ طالع آزمائی کے بغیر بھی طالع آزمائی جاری و ساری رہی اور ہر سپہ سالار نے حکم رانوں کو اپنا زیرِ نگیں رکھا۔آئین کو پاؤں تلے روندھا اور سیاسی قیادتوں کو جَلا وطنی پر مجبور کیا۔ منتخب وزیرِ اعظم کو ہتھکڑیاں لگا کر جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھ دینا تو ایک معمولی قدم ہے۔یہ سچ ہے کہ طالع آزماؤں کے پاس اندھی طاقت ہو تی ہے، لیکن اس اندھی قوت کو اپنے ہی شہریوں کے سر قلم کرنے کا لائسنس کیسے دیا جاسکتا ہے؟پاکستا ن میں کرپشن کا جو بازار گرم ہے اور شہری آزادیوں کو جس بری طرح سے پامال کیا گیا ہے، اس نے ہر شہری کو پریشان کر رکھا ہے۔ بہ قولِ شاعر
جن کو شوقِ خدائی تھا اوراُس کا پھر اظہار کیا
ان کو نشانِ عبرت بنتے چشمِ فلک نے دیکھا ہے
سیاسی قیدیوں کی گرفتاریوں اور اذیتوں کے لحاظ سے یورپ اور امریکہ کو شدید تحفظات ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی شہری آزادیوں میں کوئی بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ امن و امان کے نام پر شہریوں کا اِغوا روزمرہ کے معمولات میں سے ہے۔ بد قسمتی سے یہی سب کچھ تو بنگلہ دیش میں بھی ہو رہا تھا۔ 7 جنوری 2024ء کے بنگالی انتخابات مکمل طور پر یک طرفہ تھے۔ لہٰذا اپوزیشن نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ ’’سونیاں ہو جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ کے مصداق ہر سو عوامی لیگ کے غنڈے تھے اور اپوزیشن زِندالوں کے اندر محبوس تھی۔ یک طرفہ انتخابات نے شیخ حسینہ واجد کو اور بھی خود سر بنا دیا تھا۔ لہٰذا وہ کسی کی بات سننے کی روادار نہیں تھی۔ جو آواز اُٹھی، اُسے خاموش کر دیا گیا اور جو سر اُٹھا اُسے قلم کر دیا گیا۔ ایسے ماحول میں جمہوری آزادیوں کا تصور ملیا میٹ ہوگیا تھا۔ جمہوریت کے لبادے میں آمریت سکہ رائج الوقت تھی اور معاشی مصائب نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ جب جبر اپنی انتہاؤ ں کو چھولے، تو پھر عوامی غیظ و غضب سے بچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ حکم ران یہی سوچتے ہیں کہ اُنھوں نے باغیوں کے سر کچل دیے ہیں، لیکن گلشنِ ہستی میں نئے سر نمو دار ہو جاتے ہیں، جو حکم رانوں کے تخت و تاج کو عوامی سیلاب میں بہا کر لے جاتے ہیں۔
شیخ حسینہ واجد کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ وہ اپنے والد(شیخ مجیب الرحمان) کا عطا کردہ تخت اپنی آیندہ نسلوں کو منتقل کرے، لیکن دستِ قضا نے اُس کی ساری منصوبہ بندی غارت کر دی اور اسے اپنے ہی ملک سے جان بچا کر بھاگنا پڑا ۔
ظلم بڑھے جب حد سے توپھر اس کوہے مٹ جانا
آمرِ وقت کو گم نامی کے غار میں ہے گر جانا
نہ کوئی اس پہ پھول چڑھائے نہ کوئی کرے دعا
اپنے اپنے کرموں کاپھل ہے سب کو کھانا
پاکستان میں بھی 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں جی بھر کر دھاندلی کی گئی۔ فارم 45 کو فارم 47 میں بدلا گیا اور جیتنے والوں کا مقدر جیل کی کال کوٹھریاں قرار پائیں۔جنھیں تخت نشیں ہو نا چاہیے تھا، وہ خاک نشیں ٹھہرے اور ہارنے والے تاج و تخت کے وارث قرار پائے۔ ایک انتشار اور بے یقینی کی کیفیت نے پاکستان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، جس سے عام شہری متاثر ہو رہا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے ملکی معیشت دلدل میں دھنسی ہو ئی ہے۔ حکومت نے اپوزیش کا جینا محال کیا ہوا ہے، جو کوئی بھی اختلافِ رائے کا اظہار کرتا ہے، اُسے جیل کی بلند و بالا فصیلوں میں قید کر دیا جاتا ہے۔اس وقت ایک مخصوص جماعت اسٹیبلشمنٹ اور یاست کی باغی قرار پا ئی ہے۔ لہٰذا اس سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ عدالتی جنگ اپنے زوروں پر ہے جس میں ریاست، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مخصوص جماعت کو کچلنے کے سارے حربے استعمال کر رہی ہیں، لیکن ان کی دال نہیں گل رہی۔ کیوں کہ مخصوص جماعت اثر انداز نہیں ہو رہی۔ وہ تمام فسطائی حربوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے اور عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کا فرضہ سر انجام دے رہی ہے۔ کیاپاکستان ایک اور بنگلہ دیش بننے جا رہا ہے؟ کیا ریاست کسی افہام و تفہیم سے اس طرح کے امکانات کو مخدوش کر دے گی؟ کیا عوام کا غیظ و غضب کسی نئی تحریک کا پیش خیمہ بنے گا؟ کیا اشرافیہ عوامی نفرت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جائے گی؟ کیا عوام کو حکومتی استحصال سے نجات ملے گی؟ کیا جبرو کراہ کا دور دورہ رہے گا؟ کیا دولت چند ہاتھوں میں ہی مرکوز رہے گی؟ کیا آئی پی پی پاکستانی خزانے پر ایسے ہی ہاتھ صاف کرتی رہے گی؟ کیا عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور بنگالی فلم یہاں بھی چل جائے گی؟ انتظار کیجیے کہ ابھی کچھ وقت باقی ہے۔
بہ قولِ شاعر
رنگ و بو کا یہ جہاں جس میں ہم ہیں راہی
تڑپ رہا ہے اس میں انساں جیسے جَل بن ماہی
دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے یہ کوئی نہ لیکن جانے
کون ہے جس کی اس دنیا میں سدا رہی ہے شاہی
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔