اگر اقبال احمد پاکستان میں ہوتے تو…….؟

Blogger Zaheer ul Islam Shahaab

اقبال احمد کی کتاب "Confronting Empire” میں لکھا ہے کہ جب اشتراکی روس نے افغانستان میں مداخلت کی، تو سرمایہ دار امریکہ نے دو طریقوں سے اس اس موقع سے استفادہ کرنے کا سوچا:
پہلا طریقہ:۔ جس طرح امریکہ نے طاقت کے نشے میں اشتراکی ویت نام کو ایک آسان ہدف سمجھ کر حملہ کیا تھا اور نتیجے میں 57000 اموات، 2,30,000 زخمیوں، تقریباً 220 بلین ڈالر اور ہزاروں امریکی جہازوں کا ڈھیر لگوا کر شرم ناک اور تاریخی شکست کھائی تھی، بالکل اُسی طرح امریکہ نے اپنے دشمن سوویت یونین کو افغانستان میں اُلجھانا چاہا۔
دوسرا طریقہ:۔ اُنھیں مسلم دنیا میں سوویت یونین اور اشتراکیت کے خلاف انتہا پسند مزاحمت کا بیج بونے کا موقع مل گیا۔
لہٰذا امریکہ نے تمام اسلامی ممالک، بشمول الجیریا، سوڈان، سعودی عرب، مصر اور اُردن سے رضاکاروں کی بھرتی، اُن کی اشتراکیت مخالف ذہن سازی اور کہیں بھی پائے جانے پر اشتراکیوں کو قتل کرنے کی ٹریننگ کے سلسلے میں تن دہی سے کام لیا۔
اور تو اور فلسطین، جہاں اس وقت اسرائیل ’’حما س‘‘ کو ’’الفتح‘‘ نامی یاسر عرفات کی تنظیم "Palestine Liberation Organization” (PLO) کے ایک فرقے کے خلاف سپورٹ کر رہا تھا، سے بھی جنگ جو افغانستان پہنچنے لگے۔ ان جنگ جوؤں کو بتایا گیا کہ روس کے خلاف لڑنا بڑی نیکی اور جہاد ہے اور یوں ’’بین الاقوامی پین اسلامک دہشت گردی‘‘ کا آغاز ہوا۔
اقبال احمد لکھتے ہیں کہ جہاد کا بہ طور ایک ’’منصفانہ تحریک‘‘(Just Struggle) کا تصور دسویں صدی کے بعد مسلمانوں میں وجود کھوچکا تھا۔ حتیٰ کہ امریکہ نے افغانستان میں روس کے خلاف اپنے جہاد کے لیے اسے دوبارہ بہ حال کردیا۔
امریکہ نے ہمارے زمانے کے ’’اسامہ بن لا دنوں‘‘ کی تخلیق پر کھربوں ڈالر صرف کیے ہیں۔ جب روس افغانستان سے نکل گیا، تب بھی امریکہ کی طرف سے اسامہ کی حمایت جاری رہی، لیکن جب سوویت یونین کا انہدام ہوا، تو امریکہ کو مزید ا‘ن (کرائے کے) جنگ جوؤں کی ضرورت نہیں رہی۔ لہٰذا اس نے نہ صرف امداد روک دی، بل کہ پاکستان اور سعودی عرب کی حکومتوں پر اپنے سابقہ اتحادی جنگ جوؤں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے بھی زور ڈالنا شروع کردیا۔
قارئین! اقبال احمد، الجزائر، فلسطین، اسرائیل، روس اور دیگر جنگ زدہ ممالک کے طویل دورے کرتے تھے، وہاں کے مزاحمت کار راہ نماؤں کے ساتھ ملتے تھے (فرانز فینن کے ساتھ مل کر فرانس کے خلاف مزاحمت کی اور یاسر عرفات تو اُن کی ملاقاتوں کے باقاعدہ نوٹس لیتا تھا، اُن کے مشوروں پر عمل کرنے کا وعدہ کرتا تھا، یہ البتہ اُس کی حماقت تھی کہ ہمیشہ وعدہ خلافی کرکے بھاری نقصان خود بھی اُٹھاتا اور فلسطینی شہریوں کی تباہی کا بھی سبب بنتا۔) اسی طرح افغانستان جاکر بھی حالات کا بہ راہِ راست مشاہدہ کیا اور حکمت یار جیسے لوگوں سے کئی بار ملاقات کی۔
قندھار میں قیام کے دوران میں اُنھوں نے دیکھا کہ ایک 12 سالہ لڑکے، جس کا ٹنڈ کروایا گیا تھا اور گلے میں رسی ڈالی گئی تھی، کو ڈھول بجاتے ہوئے گلیوں میں گھسیٹا جارہا ہے۔ جب اُنھوں نے لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی، تو جواب ملا کہ اُسے ٹینس کھیلتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ حالاں کہ اس کھیل پر پابندی ہے۔ کیوں کہ جب لڑکے اسے کھیلتے ہیں، تو مردوں کے جنسی ہیجان کا سبب بنتے ہیں۔
اُنھوں نے ایک ایسے شخص کو بھی روتے دیکھا، جس کا ریڈیو چھینا گیا تھا۔ کیوں کہ وہ اس پر موسیقی سن رہا تھا۔
اقبال احمد کہتے ہیں کہ جو لوگ موسیقی اور کھیل پر پابندی لگاتے ہیں، وہ ایرانی اسلامی حکومت سے بھی 50 نوری سال پیچھے ہیں۔
اقبال احمد کی یہ کتاب فقط 170 صفحات پر مشتمل اُن کے انٹرویوز کا ایسا مجموعہ ہے، جس میں انتہائی متنوع موضوعات پر ایک ایسے شخص کے نہایت فکر انگیز نقطۂ ہائے نظر موجود ہیں، جن کو نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسے پائے کے لوگ بھی اپنا گرو سمجھتے رہے ہیں۔
ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب "Culture and Imperialism” بھی اُن کے نام منسوب کی ہے، جب کہ اس کتاب "Confronting Empire” کا پیش لفظ بھی اُنھوں ہی نے لکھا ہے۔ سیاست میں دل چسپی لینے والے اس کتاب کو خود پر فرض سمجھ کر پڑھ لیں اور جان لیں کہ ایک حقیقی پبلک انٹیلیکچول کیسا ہوتا ہے!
قارئین! آپ کو اقبال احمد کی کئی پیش گوئیاں درست ہوتی نظر آئیں گی۔ جیسے روس کا دوبارہ منظم ہونا اور یوکرین میں امریکی مداخلت کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا۔
انڈیا کے بہار میں پیدا ہونے والے، بعد میں لاہور ہجرت کرنے، اعلا تعلیم کے لیے امریکہ منتقل ہونے، پھر وہیں آباد ہوکر امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے، بین الاقوامی اخبارات میں عالمی سیاست پر لکھنے، جنگی محاذوں کا دورہ کرنے، ہنٹنگٹن اور کسنجر جیسے امریکہ نواز دانش وروں کی اصل وقعت دکھانے، بل کہ کسنجر کے اِغوا کے جھوٹے کیس میں جیل جانے اور ریٹائرمنٹ کے بعد مابعد نوآبادیاتی ریاستوں کے لیے بہ طور نمونہ ابن خلدون کے نام پر ’’خلدونیہ‘‘ یونیورسٹی بنانے کا خواب لے کر دوبارہ پاکستان ہجرت کرنے والے اس شخصیت نے پوری دنیا اور خاص طور پر پاکستان کے نوجوانوں کے لیے ایک عمدہ مثال پیش کی ہے۔
قارئین! آپ میں سے ڈھیر سارے کہیں گے کہ اگر اقبال احمد اتنے بڑے نام ہیں، تو اپنے ہاں ان کا تذکرہ کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں وہ لوگ پسند ہیں، جو ہمارے قصیدے پڑھیں اور ہمارے دشمنوں کو آئینہ دکھائیں…… لیکن اقبال احمد سب کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ ریاست کو نہ اقبال احمد کی کشمیر پالیسی پسند ہے، نہ ایٹم بم اور اسلحے کی دوڑ پر تنقید، نہ افغان پالیسی، نہ جرنیلوں کی مذمت اور نہ کرپٹ سیاست دانوں کی خود غرضیوں کو آشکار کرنے کا عمل۔ اس لیے اُن کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے ۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اقبال احمد تحریر کے مقابلے میں کہیں بڑھ کر تقریر اور تدبیر کے قائل تھے۔ اس لیے اتنا زیادہ نہیں لکھا۔ آپ یوٹیوب پر ان کی کچھ تقاریر دیکھ اور سن سکتے ہیں۔
٭ اب آخر میں ایک واقعہ ملاحظہ ہو:
جب انٹرویور نے پوچھا کہ ابھی آپ نوجوان تھے، آپ نہایت مختلف پس منظر سے تعلق رکھتے تھے، لیکن پھر بھی آپ (پیچیدہ سیاسی موضوعات) پر امریکی سامعین سے مخاطب ہوتے رہے۔ کبھی آپ نے اپنے اعتماد اور کھرے پن کے حوالے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی؟ تو اقبال احمد نے جواب دیا کہ کبھی نہیں۔ اُنھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ’’ایک بار امریکہ کی ایجنسی "FBI” کے لوگ میرے پاس آگئے اور اپنے کارڈ دِکھا کر پوچھا کہ کیا آپ امریکہ کے شہری ہیں؟ مَیں نے کہا، نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ امریکہ کا مہمان ہوتے ہوئے آپ کو امریکی حکومت پر تنقید کرنے سے باز رہنا چاہیے؟ اس پر مَیں نے کہا کہ مجھے آپ کی بات سمجھ آگئی، لیکن آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ اگرچہ مَیں ایک شہری نہیں ہوں، لیکن ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ مجھے لگا کہ یہ امریکی جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے کہ (حکومتی سطح پر) نمایندگی کے بغیر کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا۔ اس (ویت نام کی) جنگ کے حوالے سے میرے موقف کی نمایندگی نہیں کی جاتی رہی ہے، جب کہ عین اُسی وقت میرے لوگوں( ایشیائی لوگوں) پر بم برسائے جارہے ہیں۔ اس دلیل پر وہ ایجنٹس بڑے متاثر ہوئے اور شرماگئے۔‘‘
قارئین! اقبال احمد بجا کہتے ہیں کہ اس واقعے سے اُنھیں امریکہ کی لبرل روایات اور اپنی خطابت اور ہتھکنڈوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ ورنہ اگر یہ پاکستان ہوتا اور پاکستانی ایجنٹس…… تو عین ممکن تھا کہ ہڈیاں توڑ کر کہتے: ’’چل بے! کہاں کی نمایندگی، کیسی نمایندگی، تم ہوتے کون ہو……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے