ہم گذشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی اور انتہا پسندی پر لکھ رہے ہیں، مگر مجال ہے کہ اس قوم کے کانوں پر جوں تک رینگے۔
سو اَب ایک تازہ ترین واقعہ ہوا۔ فلسطین کی جو تنظیم حماس نام کی ہے اور حماس ہی نے موجودہ شرق الوسط کی صورتِ حال کی شروعات کی۔ اس حماس نامی تنظیم کے سیاسی ونگ کے سربراہ جناب اسماعیل ہانیہ کہ جو قطر میں مقیم تھے اور گذشتہ دِنوں ایران کے دورے پر تھے، ایران کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے۔ موصولہ اطلاع کے مطابق وہ تہران کے مضافات میں موجود ایک عمارت میں سکونت پذیرتھے کہ اُن کی لوکیشن کو باقاعدہ سمجھ کر ٹارگٹ کیا گیا اور ایک میزائل حملہ بہ راہِ راست عمارت کے اس حصے پر کیا گیا کہ جہاں محترم اسماعیل ہانیہ موجود تھے۔ اسی حملے کی وجہ سے اسماعیل ہانیہ شہید ہوگئے۔
مغربی ذرائع کے مطابق اسماعیل ہانیہ کی لوکیشن کو باقاعدہ واٹس اپ کال کے ذریعے جانا گیا کہ جب وہ اپنے بیٹے سے واٹس اپ کال کر رہے تھے۔ اب اس کھلی اور ننگی بدمعاشی کے پیچھے کیا محرکات تھے، اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں، فلسطینیوں کا لائحۂ عمل کیا ہوگا، یمن کے حوثی اس کو کس طرح لیں گے، حزب ﷲ کی اگلی تیکنیک کیا ہوگی، یا کیا ہو سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران اب کیا کرے گا؟ کیوں کہ اب یہ ایران کا ایک لحاظ سے ذاتی مسئلہ بن چکا ہے، جب کہ دوسری طرف اب اسرائیل متوقع ’’ری ایکشن‘‘ کی پیش بندی کیا کرے گا؟ اس کے ساتھ اسرائیل کے اتحادی مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کا رویہ کیا ہوگا؟
ایسے ڈھیر سارے سوالات ہیں کہ جن پر تبصرہ، تجزیہ کی بنیاد پر تو کیا جاسکتا ہے، لیکن اس بارے نہ تو کوئی مطلقاً پیش گوئی کی جاسکتی ہے اور نہ کوئی 100 فی صد درست خبر ہی ہوسکتی ہے۔
حالات اس نہج پر کیوں پہنچے اور کس نے پہنچائے؟ اس پر ہم نے ایک کالم لکھا تھا اور بہت سے نام نہاد مجاہدین کی گالیاں سنی تھیں، لیکن آج ہمارا موضوع یہ بالکل نہیں، بل کہ آج ہم ایک بار پھر مسلم امہ کی جہالت اور خاص کر پاکستانی عوام کی معصومیت، بل کہ پاگل پن پر لکھنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ جب یہ واقعہ ہوا، تو خیبر سے کراچی تک عوام کے ایک قابلِ ذکر طبقے نے اس کو نہ ظلم سمجھ کر مزحمت کی، نہ اس پر کسی یک جہتی و اتحاد کا مظاہرہ ہی کیا، بلکہ آپ سوشل میڈیا اُٹھا کر دیکھ لیں، یہاں پر مسلک کی لڑائی شروع ہوگئی۔ پہلے ہی پارا چنار کے حالات ملک بھر میں تشویش کا باعث تھے۔ اب ان احمقوں اور کچھ مفاد پرستوں کے ہاتھ ایک نیا ہتھیار آگیا…… اور یہ احمق، جاہل، بل کہ پاکستانی معاشرے پر عذاب طبقہ دلائل کے انبار لگا کر اس واقعے کو شیعہ سنی نفرت میں استعمال کر رہا ہے۔
ان جاہلوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ اس طرح وہ نہ تو اسرائیل کو کوئی نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فلسطینیوں کی کوئی خدمت ہی کرسکتے ہیں، بل کہ وہ شعوری و لاشعوری طور پر ’’فلسطین کاز‘‘ کو تو نقصان پہنچا ہی رہے ہیں، بل کہ وہ آپس کے اتفاق کو تباہ کر کے اسرائیل کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ مَیں اس کے مزید منفی اثرات پر لکھوں، اپنے قارئین کے لیے چند ایک سوشل میڈیا پوسٹوں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں کہ جو مَیں نے ’’فیس بک‘‘، ’’انسٹا گرام‘‘ اور ٹک ٹاک پر دیکھیں۔
میرا ’’ایکس‘‘ (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ بند ہے۔ کیوں کہ مَیں وی پی این نہیں لگاسکتا۔ بہ ہرحال، آئیں یہ احمقانہ پوسٹیں پڑھیں۔ یا تو ان لطائف کا لطف لیں، یا اگر آپ کے دل میں معمولی سا بھی درد ہے، تو ان کو پڑھ کر افسوس کا اظہار کریں کہ ہماری قوم کس طرف جا رہی ہے۔
سو اس سلسلے کی سوشل میڈیا پر لگنے والی چند پوسٹیں جو میری نظر سے گزری ہیں اور اُن کو ہزاروں کے حساب سے پسند کیا گیا ہے، سیکڑوں کے حساب سے ان پر کمنٹ آئے، بل کہ چند ایک پوسٹوں کے کمنٹ دونوں طرف کے ہوتے ہیں اور فیس بک پیجوں پر ہی ایک دوسرے کو گالیاں اور دھمکیاں وغیرہ بھی دی جاتی ہیں۔ بہ ہرحال چند پوسٹیں پڑھیں اور اس عظیم قوم کی عقلِ سلیم پر ماتم کریں۔
٭ پوسٹ نمبر 1:۔ ’’عظیم حریت پسند فلسطینی راہ نما کو ایران میں شہید کر دیا گیا اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ایران کوفہ کا وارث ہے اور کوفی رویہ ہمیشہ سے یہی رہا۔ ان اسلام دشمن عناصر نے حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کے ساتھ یہی کچھ کیا تھا پھر اولادِ علی کے ساتھ کیا ہوا؟ حضرت حسن سے غداری اور پھر حسین ابن علی کو باقاعدہ بلا کر مروا دیا۔ اب یہی تاریخ اسماعیل ہانیہ کو لے کر دھرائی گئی۔ حسین ابن علی کی طرح اسماعیل ہانیہ کو ایران میں دعوت دے کر بلایا گیا اور پھر مروا دیا گیا۔‘‘
اب اس کی جوابی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں۔
’’شرم کریں یزیدی جو بکواس کرتے ہیں۔ تم وہ لوگ ہو کہ جب حسین ابن علی، یزید کے خلاف قیام کر رہے تھے، تو تب تمھارے بڑے یزید کی بیعت کر کے دبکے ہوئے تھے۔ حسین ابن علی کو شہید کیا جا رہا تھا اور تم لوگ دمشق کے دربار میں چاپلوسی میں مصروف تھے۔ ہم کل بھی یزید کے خلاف تھے، ہم آج بھی یذید کے خلاف ہیں۔‘‘
٭ پوسٹ نمبر 2:۔ ’’تمام مسلمان ایرانی فتنہ کے خلاف متحد ہوکر مشترکہ لائحۂ عمل اختیار کریں۔ یہ ایرانی فتنہ گر اندر سے امریکی ایجنٹ ہیں اور اسرائیل کے دوست ہیں۔ بہ ظاہر یہ معصوم مسلمانوں کی ہم دردیاں سمیٹتے ہیں، لیکن اندر سے فلسطینیوں کو مار رہے ہیں۔ اُنھوں نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی یہ آج بھی اسرائیلی غلام ہیں۔ وگرنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ تہران میں حفاظتی حصار اتنا کم زور ہوتا کہ فلسطین کا مجاہد مار دیا جاتا اس میں ایرانی حکومت ملوث ہے۔‘‘
٭ جوابی پوسٹ: ’’ایران پر تبصرہ کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکو، اگر تم اتنے ہی ہم درد ہوتے، تو اسماعیل ہانیہ کو ایران کی طرف دیکھنے کی ضرورت کیا تھی؟ تم لوگوں نے مغرب کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کو تباہ و برباد کیا، جب کہ ایرانیوں نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی اور اس واسطے قربانیاں دیں۔‘‘
٭ ایک اور پوسٹ: ’’ہم تمھاری اور تمھارے ایران کی طرح منافق نہیں، بل کہ ہم اصل فلسطین کاز کے حمایتی ہیں، جب کہ تم لوگ ’بغل میں چھری منھ میں رام رام‘ کے مصداق ہو۔ تم نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ مل کر ڈراما کیا۔‘‘
المختصر، پاکستانی سوشل میڈیا ایران اور عربوں خصوصاً سعودی عریبیہ کے درمیان لفظوں کی جنگ کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ ایک گروہ سعودیہ کا خود ساختہ ایجنٹ بنا ہوا ہے اور دوسرا ایرانی ٹٹو۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کوئی فکری اختلاف نہیں۔ پالیسی کی بنیاد پر بنی رائے نہیں۔ بین الاقوامی سیاست و سفارت کو سمجھنے کا نکتۂ نظر نہیں، بل کہ یہ خالصتاً مسلک کی تقسیم ہے۔ ہمارے جعفری یا جن کو شیعہ کہا جاتا ہے، وہ ایران کی حمایت کسی اخلاقی اُصول پر نہیں، بل کہ محض مسلکی تعصب پر کر رہے ہیں۔ اور سُنی خصوصاً وہابی سوچ کے لوگ سعودیہ کی حمایت اور ایران سے نفرت بھی مسلک کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ یہ دونوں گروہ جہالت کی اعلا معراج پر ہیں۔ ان کو نہ تو اپنے ملک اور قوم کے مفادات کی سمجھ ہے، نہ بین الاقوامی سیاست و سفارت کا علم ہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کو اپنے مسلک کی اقدار اور تعلیمات کا بھی پتا نہیں۔
اگر مَیں یہ کہوں کہ ان میں عقلِ سلیم نام کی چیز ہی نہیں، تو غلط نہ ہوگا۔ کیوں کہ ایک عمومی ناقص عقل رکھنے والا شخص بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ بین الاقوامی معاملات تو بہت دور کی بات ہیں، وہ اپنے پڑوس میں ہونے والے جھگڑے کی وجہ سے کم از کم اپنے بھائیوں سے نہیں لڑتا…… لیکن یہ فیس بُکی دانش ور بین الاقوامی جنگوں کو اپنے گھر لے آتے ہیں اور یہ احساس نہیں کرتے کہ اس کے نتائج کتنے خوف ناک ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال پاڑا چنار ہے۔
اب پاڑا چنار میں کیا ہو رہا ہے؟ تو میری معلومات کے مطابق وہاں مسلک یا مذہب کا معاملہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ بس ایک اتفاق ہے کہ مذکورہ متاثرین قبائل میں سے ایک جعفری یا شیعہ ہے، جب کہ دوسرا حنفی یا دیو بندی ہے…… لیکن ان کے درمیان وجۂ تنازع مذہبی یا مسلکی نکتہ نظر نہیں، بل کہ ان کے درمیان اصل جھگڑا زمین کا ہے۔ پشتون کلچر میں آپس کے معاملات میں اسلحہ کا استعمال بہت عام سی بات ہے۔ یہ زمین کا تنازع دراصل جنگ کا سبب بنا۔ اب اسلحہ باہر آگیا۔ دونوں طرف سے قتلِ عام ہو رہا ہے، لیکن ہمارے سوشل میڈیا کے دانش ور اس کو مسلک کی لڑائی بنا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔ حتی کہ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس لفظوں کی جنگ میں ہمارے بہت سے قدآور علما بھی کود پڑے ہیں۔ اس معاملے پر پانی کے بہ جائے پٹرول چھڑک رہے ہیں۔
مَیں نے خود میڈیا پر دیکھا ہے کہ دونوں طرف کے بہت قدآور علما موجود تھے، ایک صاحب بہت درد ناک انداز میں اپنے مسلک کی ’’جینوسائیڈ‘‘ مطلب ’’ایک پوری قوم کا مکمل خاتمہ‘‘ کی دہائی دے رہے تھے۔ پاکستان میں اس سے قبل بھی اپنے فرقے یا برادری پر ہونے والے مظالم کو دہرا رہے تھے اور مقابلہ کے عزم کا اظہار کر رہے تھے، جب کہ دوسری طرف کے مولانا کا نکتۂ نظر یہ تھا کہ مخالف فرقہ کو اپنے چند خیالات سے بہ ہرحال رجوع کرنا ہوگا۔ کیوں کہ جب آپ اس طرح کھلے عام ان نظریات کا اظہار کریں گے، تو پھر ہم عام عوام کو صبر کی تلقین نہیں کرسکتے، بل کہ بات خود ہمارے کنٹرول میں بھی نہیں رہتی۔
مَیں یہ دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ چلو عام آدمی کی تو معلومات مکمل نہیں، لیکن اتنے بڑے علما کی معلومات تو ناقص نہیں ہوتیں۔ اُن کو تو اصل حقائق کا تدارک بھی ہے اور کسی حد تک حل کرنے کی بھی صلاحیت بھی، تو پھر یہ لوگ حق کی بات کیوں نہیں کرتے…… اُن کا کوئی ذاتی مفاداتی ایجنڈا تو نہیں؟
ہم آخر میں وہی بات کریں گے کہ جو ہم سالوں پہلے سعودیہ میں اپنے ایک سعودی دوست سے کی تھی اور شاید اس پر ہم نے لکھا بھی تھا۔ میرا سعودی دوست مجھ سے یہ تقاضا کرتا تھا کہ چوں کہ حرمین سعودیہ میں ہے اور پاکستان کے بہت سے مفادات بھی سعودیہ سے وابستہ ہیں۔ اس لیے پاکستان کو سعودیہ کا ساتھ دینا چاہیے اور مسلک کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے۔
مَیں نے اس کو یہی کہا تھا کہ پاکستان کا معاشرتی نظام سعودیہ اور ایران سے مکمل مختلف ہے۔ سعودیہ کے مشرق میں شیعہ آبادی ہے، جب کہ ایران کے جنوب میں سنی۔ وہ ثقافتی طور پر بالکل علاحدہ ہیں…… اور پھر مذکورہ دونوں ممالک میں علما پر حکومتی چیک ہے، یعنی باقاعدہ وہ ایک ادارہ ہیں…… جب کہ پاکستان بالکل مختلف اقدار رکھتا ہے، یہاں شیعہ سنی مکس ہیں۔ خاص کر کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے ساتھ ساتھ پنجاب کے اکثر شہروں میں آپ کو ایسے سیکڑوں خاندان ملیں گے، جہاں ایک بھائی سُنی، ایک شیعہ اور اسی طرح میاں بیوی۔ سو ہم یہ انارکی ایفورڈ نہیں کرسکتے۔
مگر اب لگتا ہے کہ جو سوشل فیبرک ہمارا عرصہ سے بہت مضبوط رہا، اس کو اب سوشل میڈیا کے ’’دانش ور‘‘ لازمی توڑ کر ہی رہیں گے۔ خدا اُن کو عقل دے اور ساتھ حکومت کو بھی اس بارے بہتر پالیسی بنانے کی خاطر توفیق دے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔