پورے پنجاب میں جماعتِ نہم کا نتیجہ شائع ہوگیا ہے، جو زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ قریباً 60 فی صد طلبہ کام یاب نہیں ہوسکے۔ بہت بھاری فیسیں وصول کرنے والے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی اپنی سابقہ روایات کو برقرار نہیں رکھ سکے۔ سارا سال اپنی اکیڈمیوں کی تشہیر کرنے والے اکیڈمی مالکان بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ طلبہ نے بری کارکردگی سے سب کی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے۔
ہمیں غور کرنا ہو گا کہ اس خراب رزلٹ کا ذمے دار کون ہے؟ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بہ دولت رزلٹ بہتر نہیں آ سکا۔ آئیے، چند وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ تاکہ اُن کی روشنی میں آیندہ کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکے۔
٭ پہلی وجہ:۔ میرے خیال میں رزلٹ بہتر نہ آنے کی سب سے پہلی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں، بل کہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ تعلیم کے فروغ کے نام پر غیر ملکی امداد کے ساتھ امداد دینے والوں کی طرف سے دی گئی پالیسیوں کا من و عن نفاذ ہے۔ ہماری آبادی 70 فی صد دیہات میں رہتی ہے، اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دیہات میں رہنے والے لوئر مڈل کلاس اور نچلے طبقے کی ترجیحات میں بچوں کی تعلیم کبھی شامل ہی نہیں رہی۔ اکثر والدین کو یہی علم نہیں ہوتا کہ اُن کے بچے کون سی کلاس میں پڑھتے ہیں؟ اس کے علاوہ دیہاتی بچوں کو سکول کے بعد اپنے والدین کا ہاتھ بھی بٹانا پڑتا ہے۔ دیہات میں دو فی صد سے زیادہ والدین اساتذہ سے رابطہ ہی نہیں رکھتے۔ وہ فصل کی کٹائی کے موسم میں بچوں کو سکول بھیجنے کے بہ جائے فصل کی کٹائی پر لگا دیتے ہیں۔ بعض والدین تو اس طرح کے بھی دیکھے گئے ہیں کہ جب گھر میں کوئی کام نہیں ہوتا، تو کہتے ہیں: ’’جا پُتر! سکول پھیرا مار آ، اُستاد کدھرے تیرا ناں ای نہ کٹ دیوے۔‘‘ یعنی جاؤ بیٹا! سکول میں ایک چکر لگا آؤ۔ کہیں ٹیچر آپ کا نام ہی سکول سے خارج نہ کردے۔
والدین کا یہ رویہ ہماری تعلیمی پستی کی ایک بڑی وجہ ہے، جب کہ امداد دینے والی این جی اُوز اور ممالک ترقی یافتہ ملکوں میں نافذ پالیسیوں کا یہاں نفاذ چاہتے ہیں۔ حالاں کہ ترقی یافتہ ممالک میں سو فی صد والدین کے نزدیک ان کے بچوں کی تعلیم پہلی ترجیح ہوتی ہے، مگر ہمارے اعلا دماغ ارسطو محض فنڈز کے حصول کی خاطر زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے ’’آمدہ ہدایات‘‘ کو نافذ کر دیتے ہیں۔
٭ دوسری وجہ:۔’’مار نہیں پیار‘‘ کے سلوگن نے بھی ہمارے تعلیمی زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مار میں صرف جسمانی سزا ہی شامل نہیں کی گئی، بل کہ طالب علم کو گھورنا، زبانی سرزنش کرنا بھی اسی زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ آپ بچے کو سبق نہ آنے پر ڈانٹ نہیں سکتے۔ اسے بہ طور سزا پانچ منٹ کے لیے کھڑا نہیں کرسکتے۔ اُس کی عزتِ نفس کو کسی حال میں مجروح نہیں کرسکتے۔ آپ بہ طور اُستاد بچے کو یہ نہیں کَہ سکتے کہ جس ڈیسک پر اُسے بیٹھنا ہے، اُس ڈیسک کو صاف کر لے۔ اس بات کو بچے کی شان میں گستاخی سمجھا جائے گا، اور آپ کو ’’پیڈا ایکٹ 2006ء‘‘ کی لٹکتی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر بچہ سارا سال سکول نہیں آتا، آوارہ پھرتا ہے، تب بھی آپ اُس کا نام سکول سے خارج نہیں کرسکتے۔ مسلسل غیر حاضریوں کی وجہ سے وہ تعلیمی لحاظ سے بالکل کورا بھی ہوگیا ہے، تو ٹیچرز اس کا بورڈ کے امتحان کے لیے ریگولر داخلہ بھیجنے کے پابند ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اُس کے خراب رزلٹ کی ذمے داری اُستاد پر ہوگی اور اُسے اِس کی سزا ملے گی۔ اگر سکول میں خاک روب موجود نہیں، تو سکول کی صفائی کے فرائض بھی استادِ محترم کو سرانجام دینے ہوں گے۔ یاد رہے کہ پنجاب کے سرکاری پرائمری سکولوں میں درجۂ چہارم کے ملازمین دینے کا تصور بھی نہیں ہے۔ مَیں نے ایک ہائیر سیکنڈری سکول کے گریڈ 19 کے پرنسپل کو خود سکول کے واش روموں کی صفائی کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہاں خاک روب کی ریٹائرمنٹ کے بعد بار بار کی درخواست کے باوجود نیا خاک روب بھرتی نہیں کیا گیا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ 7 سال بعد بھی وہاں خاک روب کی سیٹ خالی ہے۔ اب خود ہی سوچیں کہ جہاں اساتذہ بنچ، ڈیسک اور کرسیاں حتیٰ کہ واش روم بھی صاف کرتے ہوں، وہ طلبہ سے پانی کا ایک گلاس بھی نہ منگوا سکتے ہوں، طلبہ کو پڑھنے پر مجبور نہ کرسکتے ہوں، غیر حاضری پر اُنھیں ڈانٹ نہ سکتے ہوں، معمولی سی خطا (یا طلبہ کی شان میں گستاخی) پر اُستاد کے خلاف جھوٹی سچی صرف ایک درخواست پر اُستاد کو صفائی کا موقع دیے بغیر معطل کر دیا جاتا ہو اور بار بار دفاتر کے چکر لگوائے جاتے ہوں، تو وہاں آپ یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ تعلیمی کارکردگی میں بہتری آئے گی؟ اُستاد کی کوئی عزتِ نفس رہنے ہی نہیں دی گئی۔ اُسے بہ یک وقت مالی، چپڑاسی، خاک روب، کلرک، کمپیوٹر آپریٹر، فوٹوگرافر اور چوکی دار بنا دیا گیا ہے، مگر اُستاد نہیں رہنے دیا گیا۔
٭ تیسری وجہ:۔ موبائل فون کے بے تحاشا استعمال نے بھی طلبہ کو تعلیم سے غافل کر دیا ہے۔ نہم جماعت کے طلبہ ابتدائی ٹین ایج میں ہوتے ہیں۔ یہ عمر جذباتی لحاظ سے بڑی حساس ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کا بے تحاشا استعمال کچی عمر کے طلبہ کو وقت سے پہلے نہ صرف میچور کر رہا ہے، بل کہ اُن کے اصل مقصد سے بھی ہٹا رہا ہے۔ موبائل فون میٹرک کے طلبہ کے لیے خاص طور پر زہرِ قاتل ہے۔ یہ طلبہ کی ضرورت نہیں، عیاشی ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ مخلص ہیں اور اُن کا تعلیمی مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیں، تو اپنے بچوں کو موبائل فون استعمال نہ کرنے دیں۔
٭ چوتھی وجہ:۔ حکومتی بے تدبیریاں چوتھی وجہ ہیں۔ اگر دیکھا جائے، تو حکومتی پالیسیاں بھی تعلیمی سسٹم کی ناکامی کی ذمے دار ہیں۔ سکولوں میں ہفتۂ کھیل، ہفتۂ صفائی، ہفتۂ ڈینگی، ہفتۂ بزمِ ادب اور جانے کون کون سے ہفتے منائے جاتے ہیں، نہیں منایا جاتا، تو ہفتۂ تعلیم نہیں منایا جاتا۔
٭ پانچویں وجہ:۔ جماعتِ ہشتم تک طلبہ کو فیل نہ کرنے کی حکومتی پالیسی بھی نہم کلاس کے رزلٹ کی تباہی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اساتذہ کو اجازت دی جائے کہ عادی غیر حاضر اور پڑھائی میں کم زور طلبہ کو فیل کر سکیں۔
ان وجوہات کی نشان دہی کے بعد ایک ضروری گزارش ہے کہ ہمارے ’’لنڈے کے دانش ور‘‘ سوشل میڈیا پر متحرک ہوگئے ہیں، جو والدین کو نصیحت کر رہے ہیں کہ نمبروں کے چکر میں اپنی اولاد کو ذہنی دباو کا شکار نہ کریں۔ آپ کے دیے گئے طعنوں سے آپ کا بچہ ہمیشہ کے لیے اندر سے مرجائے گا۔ اُن دانش وروں سے سوال تو بنتا ہے ناں، کہ کیوں خراب رزلٹ آنے پر بچے سے بازپرس نہ کی جائے؟ والد سارا دن گرمی سردی کی پروا کیے بغیر محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ کاٹ کراولاد کے تعلیمی اخراجات پورے کرے اور اولاد امتحان میں کم نمبر لے، یا فیل ہو جائے، تو ایسی اولاد کی سرزنش کیوں نہ کی جائے؟
طلبہ اگر اپنے کام یعنی حصولِ تعلیم میں سنجیدہ نہیں، تو اُن کی مناسب گوش مالی کی جائے اور اُنھیں بتا دیا جائے کہ آپ کے پاس آخری موقع ہے۔ اگر آیندہ امتحان میں بھی ایسا ہی رزلٹ آیا، تو آپ کو سکول سے اُٹھا کر کسی میکینک کے پاس بٹھا دیا جائے گا، یا کسی کارخانے میں مزدوری کے لیے بھیج دیا جائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔