1905ء میں جہاں مکان باغ مسجد موجود ہے، سپیروں کی ایک چھوٹی بستی تھی، جو چند جھونپڑیوں پر مشتمل تھی۔ اسی بستی کو مکان باغ کہا جاتا تھا۔ چوں کہ پشت پر باغ تھے اور اس علاقے میں واحد آبادی تھی، جو ہریالی اور پانی کے قریب تھی۔ یہ آبادی ایک طرح سے جنگل تھی، جس میں سے سانپ پکڑے جاتے تھے۔ آبادی کا وجود مذکورہ جنگل اور سانپوں کی وجہ سے تھا۔
مکان باغ بابوزئی یوسف زئی قبیلے کی مشترکہ جائیداد تھا۔ اب ہم اس مسجد کی وجۂ تعمیر کی طرف آتے ہیں۔
مولانا قاضی حبیب الرحمان صاحب 1899ء میں محلہ ملاکانان ( ملکانانو پلو) میں پیدا ہوئے۔ ان کا مختصر سا شجرہ کچھ یوں ہے: مولانا قاضی حبیب الرحمان ولد مولانا محی الدین شہید ولد قاضی نور الدین المعروف منڈاو بابا مدفن خونان مقبرہ منگلور سوات۔
قاضی حبیب الرحمان صاحب کے دادا منڈاو بابا طریقۂ عالیہ قادریہ کے عامل اور بہت بڑے ذاکر تھے۔ ہمہ وقت ’’اللہ ہو‘‘ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے۔ آپ طریقت کے اعلا عہدے پر فائز تھے اور خالص دین دار انسان تھے۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کی قبر ایک طرح سے برکت کا مرکز قرار پائی۔ دُکھی انسانیت، حضرت کی قبر مبارک پر پیش ہوکر آپ کی برکت سے توبہ تائب ہوتی اور اللہ کے حضور معافی کی درخواست کرتی۔
آپ کی قبر مبارک بہت بارعب تھی۔ وقت کے ساتھ آپ کی قبر کے مطابق افواہ پھیلی اور پھر کسی دنیا پرست نے رات کے اندھیرے میں خزانے کی تلاش میں قبر مبارک کی بے حرمتی کی اور اسے کھود ڈالا۔ دراصل کچھ افراد سمجھتے تھے کہ اُن کی قبر کو دیگر وجوہات کی بنیاد پر نقصان پہنچایا گیا۔ کیوں کہ وہ عدم تشدد کے قائل تھے۔ اُن تارک الدنیا، اللہ والے کے پاس زندگی میں دنیا کی محبت نہ تھی، قبر میں کیا خزانے ہوتے! اُن کے پاس لوگ آتے اور وہ کسی سے مرعوب ہوئے بغیر یا لالچ میں آکر فیصلے کرتے۔ اپنے بیٹے محی الدین کی اعلا دینی تربیت کی۔ طریقت میں پہنچی ہوئی ہستی تھے اور کئی شاگرد اور عقیدت مند رکھتے تھے۔ تعلیم و تدریس کے لیے دورے کرتے۔ یہ اُس وقت دین میں بے راہ روی کا دور تھا۔ پورے برصغیر کی طرح اس خطے میں بھی نئی باتیں آرہی تھیں۔ اس دوران میں 1905ء میں جامبیل کے مقام پر دورانِ تدریس چٹیان طالبان غنڈوں نے آپ پر حملہ کیا، جس میں جامِ شہادت نوش کیا۔ اُس وقت قاضی حبیب الرحمان صاحب کی عمر محض چھے سال تھی۔ باپ کا سایہ کم سن حبیب الرحمان کے سر سے اُٹھا، تو والدہ نے اُن کی تربیت اور تعلیم کی ذمے داری کا بیڑا اُٹھایا۔ والدہ ماجدہ میاں خواجہ بہاؤ الدین (میاں خواجہ دین بابا) جو اپنے زمانے کے ولی اللہ اور طریقت کے استاد تھے، کے خاندان سے تھی عالمہ ، پرہیزگار اور خوف خدا رکھنی والی خاتون تھی۔ میاں خواجہ بہاؤ الدین کے مزار مبارک پر بھی متعدد حملے ہوئے اور ان کے طریقۂ احترامِ انسانیت، اُخوت، صلۂ رحمی اور درگزر کو ختم کرنے اور متشدد نظریات لانے کی کوششیں ہوئیں، جن کے یہ سخت خلاف تھے۔
محترمہ نے اپنے بیٹے کو شروع میں مقامی علما کی نگرانی میں دیا۔ تفسیر و حدیث کی تعلیم کے بعد بٹ خیلہ قاضی عرفان الدین ولد قاضی محمد معصوم ولد قاضی برہان الدین (وفات 1927ء) کے پاس بھجوایا گیا۔ مولانا مفتاح الدین جورہ بر سوات بھی قاضی عرفان الدین صاحب کے شاگرد تھے ۔
یہاں سے فارغ ہوکر دہلی چلے گئے اور مدرسۂ فتح پوری کوچۂ چیلاں دہلی میں مقیم رہے۔ 18 سال شریعت و طریقت کے تمام علوم کے معراج پر پہنچے۔ 1930ء میں اپنے وطن لوٹ آئے۔
الہ ڈھنڈ بابا محمد بن امیر الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 1930ء میں موضع کانجو صرف و نحو کا ابتدائی طالبِ علم تھا۔ ایک دن چند دیگر طلبہ کے ساتھ حضرت سیدو بابا جی کے مزار پر زیارتِ مسنونہ کرنے آئے تھے، تو واپسی پر معلوم ہوا کہ ایک نوجوان عالمِ دین جو دہلی سے فارغ ہیں، گلی ڈبہ مسجد (ڈبو جماعت مینگورہ) میں وعظ کریں گے۔ ہم وہاں گئے، تو واقعی ایک وضع دار نوجوان عالم بہت فصیح و بلیغ بیان فرما رہے تھے۔ 1930ء میں ہی ریاستِ سوات کے پہلے قاضی شریعت الحاج نور ولی نے اپنی بھانجی آپ کے نکاح میں دی۔
موجودہ مسجد مکان باغ کی زمین قاضی محی الدین صاحب کے قتل کے بعد یوسف زئی بابوزی جرگے نے اُن کی اولاد کے لیے وقف کر دی۔ اُن کے شاگردوں اور معتقدین کے مشترکہ فیصلے کے بعد یہاں ایک جامع مسجد بنانے کا تہیہ کیا گیا، جس کا آغاز 1924ء میں کیا گیا اور 1929ء میں ایک وسیع جامع مسجد کی تکمیل ہوئی۔
جناب قاضی حبیب الرحمان صاحب 1930ء میں تشریف لائے اور اس مسجد کے پہلے باقاعدہ خطیب اور امام مقرر ہوئے۔ باچا صاحب میانگل عبد الودود نے 1945ء میں سوات میں دارالعلوم اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور یہ دارالعلوم مکان باغ جامع مسجد مکان باغ سے شروع ہوا۔ ناظمِ تعلیمات مولانا قاضی حبیب الرحمان صاحب مقرر ہوئے، جو مسلسل 34 سال (1945ء تا 1979ء) اس منصب پر مقرر رہے۔
قاضی صاحب ایک بہت اچھے مقرر، اُستاد اور منتظم تھے۔ دارالعلوم اسلامیہ سیدو شریف کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا۔ انتقال کے بعد دارالعلوم اسلامیہ سیدو شریف کے صدر اور شیخ الحدیث مولانا زرداد اور نائب صدر شیخ الحدیث مولانا رحیم اللہ صاحب نے فرمایا کہ 34 سالہ طویل نظامت اور کام کا خوب باریک بینی سے جائزہ لیا گیا، مگر حضرت قاضی حبیب الرحمان صاحب اتنے امانت دار، دیانت دار اور اچھے ناظم تھے کہ کہیں کوئی بھول چوک یا کمی محسوس نہیں ہوئی ۔
آپ کا انتقال 11 اپریل 1979ء کو ہوا۔ گاؤں مینگورہ اور دارالحکومت سیدو شریف کے بیچ جس جنگل میں یہ مسجد تعمیر کی گئی، اب آبادی اور کاروبار کا مرکز ہے۔ مکان باغ مسجد کے آگے سے گزرتے ہوئے آج بھی جڑواں شہر کے مقامی اصل باسی سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ علم و فضل کا یہ مرکز آج بھی قائم ہے اور شہر اس کی برکت سے ترقی کر رہا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔