پاکستان کی تاریخ عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہاں آئین و قانون کی بہ جائے ذاتی انا، پسند اور منشا کے مطابق فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔ ذاتی رنجش اور اختلاف انا کی بے مہار ی کی وجہ سے ذاتی دشمنی میں بدل جاتا ہے اور پھر انتقام کا ایک ایسا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جو کہیں پر بھی رکنے کا نام نہیں لیتا۔
کوئی کسی کا ہاتھ نہیں روک سکتا۔ کیوں کہ طاقت ور کا ہاتھ کم زور عوام نہیں روک سکتے۔ طاقت اپنے فیصلے خود صادر کرتی رہتی ہے اور اُن پر عمل در آمد بھی ہوتا رہتا ہے۔ کیوں کہ طاقت اپنا الگ وجود رکھتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ذاتی دشمنی کا شاخ سانہ تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے زورِ بازو پرفیصلہ حاصل کیا تھا اور ایک عظیم سیاست دان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ عالمی راہ نماؤں کی مداخلت اور عوامی ردِ عمل بھی اس فیصلے کو روک نہ سکا۔ کیوں کہ ذاتی دشمنی کی جڑیں بہت گہری ہو چکی تھیں۔
زمانۂ حاضر میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔ کوئی ایک جماعت دوسری جماعت کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پی ٹی آئی کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں۔ دراصل پنجاب مسلم لیگ (ن) کاپاؤر بیس ہے اوروہ اپنا پاؤر بیس اپنے کٹر دشمن کے ہاتھوں میں کیسے دے سکتی ہے؟
مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا محور پنجاب ہے، جسے پی ٹی آئی نے فتح کر لیا ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) اسے تسلیم نہیں کر رہی؟ اس کی سیاست ہی پنجاب سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ اسے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گی۔ پی ٹی آئی کی جیت کو تسلیم کرنا بلیک وارنٹ پر دستخط کرنے کے مترادف ہے اور مسلم لیگ (ن) ایسا کبھی نہیں کرے گی۔ یہ جو فارم 45 اور فارم 47 کی لڑائی ہے، یہ زیادہ تر پنجاب تک محدود ہے۔ کیوں کہ وزیرِ اعظم کا فیصلہ پنجاب نے ہی کرنا ہو تا ہے۔ بی بی شہید نے پی پی پی کو پنجاب کی مقبول جماعت بنا کر رکھا ہوا تھا، تبھی تو وہ وزارتِ عظمی کا منصب جیتنے میں کام یاب ہوسکی تھیں۔ بی بی شہید کی شہادت کے ساتھ ہی پنجاب سے پی پی پی کا صفایا ہوگیا اور یوں وزارتِ عظمی کا جھگڑا پنجاب کی دو بڑ ی جماعتوں کے درمیان وجۂ نزاع بن گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی در پردہ حمایت اور عدلیہ کی بے جا مداخلت سے مسلم لیگ (ن) کی حکو متیں تو قائم ہو تی رہیں، لیکن لڑائی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
پنجاب 9 سالوں کے لیے جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ چوہدری پرویز الٰہی اس کے کرتا دھرتا قرار پائے اور پھر 4 سالوں تک پی ٹی آئی کے بزدار صاحب کا توتی بولتا رہا۔ یوں مسلم لیگ (ن) دفاعی پوزیشن پر چلی گئی۔ فروری 2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کا مکمل صفایا کر دیا، لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہ سب وارا نہیں کھاتا تھا۔ اس لیے فارم 47 کا نیا تجربہ کیا گیا۔ الیکشن ٹربیونلز کے سامنے بے شمار مقدمات ہیں، جن کا جلد فیصلہ ہونا بعید از قیاس ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت پی ٹی آئی سے کسی مصالحت کے موڈ میں نہیں۔ اس لیے ’’کمپنی‘‘ ایسے ہی چلے گی۔ پی ٹی آئی شور شرابا کرتی رہے گی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر تی رہے گی۔ حکومتی رٹ اور کا رکردگی کو کم زور کرتی رہے گی اور یوں اگلے انتخابات تک مسلم لیگ (ن) کاپنجاب سے مکمل صفایا ہو جائے گا۔
میرے سامنے اے این پی کا مقدمہ ہے۔ یہ جماعت باچا خان اور ولی خان کے زمانے سے خیبر پختونخوا کی سب سے مقبول جماعت تھی، لیکن پی ٹی آئی کی مقبولیت کے بعد خیبر پختونخوا سے اس کا صفایا ہوگیا ہے۔
کچھ یہی صورتِ حال سندھ میں ایم کیو ایم کا ہے۔ اسے بھی پی ٹی آئی نگل گئی تھی۔ پی پی پی کا پنجاب سے مکمل اخراج پی ٹی آئی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کی باری ہے اور ایک دفعہ پنجاب ہاتھ سے نکل گیا، تو پھر کئی دہائیاں اس کی واپسی میں لگ جائیں گی۔ یہ مسلم لیگ (ن) کے لیے آخری موقع ہے کہ وہ خود کو سنبھال لے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ لٹ چکا ہے۔
اب مسلم لیگ (ن) کے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا دی جائے، تا کہ پنجاب میں اس کی موجودگی بے اثر ہو جائے۔ کیا ایسا ہو جائے گا یا یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی تباہی کا پیش خیمہ بن جائے گا؟
کچھ لوگ تو اسے خود کشی سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ کیوں کہ پی ٹی آئی نے فروری 2024ء میں پارٹی کی بہ جائے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا اور مسلم لیگ (ن) اس کی مقبولیت کے وار کو سہ نہیں پائی تھی۔ پابندی کا فیصلہ خود کُشی کا فیصلہ ہوگا۔ کیوں کہ پی ٹی آئی مظلومیت کا کارڈ کھیل کر مسلم لیگ (ن) کو چاروں شانے چت کر دے گی۔ پی ٹی آئی نے پہلے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا اور جیت گئی تھی، لہٰذا وہ اب بھی الیکشن میں آزادانہ حیثیت میں جائے گی اور نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ حیران کن ہوگا۔
در اصل پی ٹی آئی جماعت نہیں، بل کہ عمران خان کا نام ہے۔ پاکستان کا نوجوان اس وقت کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی سوچ روز بہ توز تلخ ہو تی جا رہی ہے، جس کا نقصان مسلم لیگ (ن) کی بہ جائے اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ ہو رہا ہے۔ قوم ایک مخصوص جماعت کے خلاف یک طرفہ کارروائیوں سے انتہائی غصے میں ہے۔ قوم نے جس جماعت کو ووٹ دیا تھا، اُس کے خلاف ریاستی کارروائیاں اسے مشتعل کر رہی ہیں۔ قوم ان کارروائیوں کو اپنی ذات پر حملہ تصور کرتی ہے۔ لہٰذا ریاست کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے ملک کو اسی طرح چلانا ہے، یا اپنی قوم کے نوجوانوں کے جذبات کا خیال رکھنا ہے اور اس کی سوچ کو احترام سے نوازنا ہے۔
سیاسی قلا بازیاں تو ہوتی رہتی ہیں، لیکن اگر نوجوانوں کی سوچ کسی مسئلے پر پختہ ہوجائے، تو اسے کئی دہائیوں تک بدلنا نا ممکن ہوجاتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی جو کھیل کھیل رہی ہیں، وہ انتہائی خطرناک ہے اور ملکی معیشت کو تباہ و برباد کر رہا ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ 7800 ارب ہے، جو اگلے بجٹ میں مزید بڑھ جائے گا۔
اندرونی انتشار اور غیر یقینی کیفیت، معاشی بدحالی کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ہی اس آگ کو ٹھنڈا کرسکتی ہے۔ وقت کے ہاتھوں بڑے بڑے پہلوان خاک میں مل گئے۔ کیوں کہ سب کو ایک دن جانا ہو تا ہے۔
دانش کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ جن کے ہاتھوں میں طاقت مرتکز ہے، وہ قومی مفاد کو پیشِ نظر رکھیں۔ کسی ایک جماعت کی حمایت قومی مفاد کے پیشِ نظر ہونی چاہیے۔ کسی پر پابندی لگانا یا کسی جماعت کو ’’غدار‘‘ اور ’’ملک دشمن‘‘ قرار دینا پاکستان کی اصولی سیاست سے مطابقت نہیں رکھتا۔
وہ جسے مئی 2018ء میں خود اپنے ہاتھوں سے اقتدار سونپا تھا، آج وہ جماعت کیسے ’’غدار‘‘ اور ’’ملک دشمن‘‘ ہوگئی؟
کروڑوں لوگوں نے اس جماعت کو ووٹ دیا تھا۔ لہٰذا وہ جماعت اِس وقت قومی اُمنگوں کی ترجمان ہے۔ اس کے مینڈیٹ سے رو گردانی ہی نے ساری کیفیت کو جنم دیا ہے۔ اگر طاقت ورحلقے آج یہ فیصلہ کرلیں کہ انتشارکا خاتمہ کرنا ہے، تو یہ انتشار آج ہی ختم ہوجائے گا۔ ایسا کرنے کی بنیاد آئینِ پاکستان ہے۔
آئیے، آئین کا احترام کریں اور مسئلے کو حل کریں۔کتنی دل چسپ بات ہے کہ تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جس پر چند سال قبل حکومت نے خود ہی پابندی لگائی تھی، آج خود ہی اس سے مذاکرات کر رہی ہے۔ یہاں سب کچھ ذاتی ہوتا ہے۔ کئی اہم جماعتوں پر پابندی لگی، لیکن پھر وہ قومی دھارے میں شامل ہوگئیں۔ سب سے بڑی مثال عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)کی ہے جو پابندی سے پہلے ’’نیپ‘‘ (نیشنل عوامی پارٹی) کے نام سے قائم تھی، لیکن پابندی کے بعد اس کا نام بدل دیا گیا اور 2008ء میں اس نے پی پی پی کی حمایت سے خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنا لی۔ پی پی پی ہی نے ’’نیپ‘‘ پر پابندی لگائی تھی اور پھر پی پی پی کی حمایت ہی سے اسے اسی صوبے کی حکومت سونپی گئی تھی، تو اس سے ثابت ہوا کہ اقتدار کی جنگ میں اُصولوں کی بہ جائے ذاتی انا کی کارفرمائی بڑی واضح ہو تی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔