مَیں نے اپنی فیس بک وال پر ایک تصویر دی ہے جس میں لنڈیکس مینگورہ حاجی رسول خان صاحب کور، ایلم ہوٹل کے درمیان والا پل، لنڈیکس باغیچہ، فارم (حالیہ ہاکی سٹیڈیم)، کانٹی نینٹل ہوٹل جہاں بنا ہے وہ دھوبی گھاٹ نمایاں ہیں۔
اُس دور میں ’’ہالی ڈے ہوٹل‘‘ کے عقب میں فارم شروع ہوتا تھا اور مین روڈ پر ہالی ڈے ہوٹل آخری عمارت تھی۔ پھر سڑک کنارے درخت تھے، جس میں موسمِ بہار میں مینا بچے دیتی اور کچھ لوگ چڑھ کر کھوکھلے تنوں کے اندر سے مینا کے بچے نکالتے۔
جہاں اب سروش اکیڈمی قائم ہے، وہاں جنگلات کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ درختوں کا جھرمٹ اور دارالعلوم کی اکلوتی عمارت بغیر چار دیواری مقبرے کے کنارے، پھر تاحدِ نگاہ کھیت اور ایک مسجد، ایک کنواں جس میں مقدس اوراق پورے شہر سے جمع ہوتے۔
لنڈیکس میں موجودہ سڑک ایک پگڈنڈی تھی اور دونوں اطراف لمبے درخت تھے۔ ساتھ میں آلوچے کے باغات تھے۔ مینگورہ خوڑ کا صاف شفاف پانی پوری رفتار سے اس جگہ تک آتا اور پل پر سے گزرتے ہوئے اس کی تیز آواز پانی کی طاقت کی شہادت کرتی۔
اسی لنڈیکس کے ریتلے میدان میں درختوں کے بیچ میرے چچا میجر حمید الحق نے جل کر جان دی تھی۔
اب تو شہر میں کنکریٹ کے پہاڑ، لوہے کے درخت اور انسان ہی انسان ہیں۔ کسی زمانے میں اسی جگہ خوڑ کے دونوں جانب بے شمار درخت تھے۔ کنکریٹ کی دیوہیکل عمارتوں کی جگہ چھوٹے چھوٹے گھروندے تھے، جن میں نفیس لوگ مقیم تھے۔ وقت نے ترقی کے نام پر مسائل کے انبار کھڑے کردیے۔ بڑا بننے کی دوڑ میں شہر شناخت کھوبیٹھا۔ سب کچھ مل گیا، مگر سکون کی قیمت پر۔
اب شہر میں چند ہی درخت ہیں، جو اپنا آخری عہد گزار کر اپنے جڑوں کو کنکریٹ کی تہہ میں دفن کرلیں گے۔
اس منظر سے ذرا سا آگے کامران خان کے بنگلے کے آگے مٹی اور پتھروں کے چٹان نما ٹیلے تھے اور ان سے نکلنے والے چشمے بڑے مشہور تھے۔
بنگلہ دیش لنڈیکس ایک وسیع ریتلا جزیرہ نما قطعۂ زمین تھا، جس میں اُس وقت آبادی کا کوئی سوچتا، تو اُس وقت کا سب سے زیادہ ہنسانے والا لطیفہ ہوتا۔
سامنے حاجی بابا کا مقبرہ، پرائمری سکول بغیر چار دیواری کے اور کچی مسجد جس میں وضو کے لیے پانی چھوٹے چھوٹے حوضوں میں آتا، قائم تھی۔
حاجی بابا روڑ کے ساتھ صاف پانی کا گزرتا ہوا ’’ولہ‘‘ سکول کے بچوں کی تختیوں کو بہا لے جاتا۔ دوسری طرف سٹینڈرڈ، ایلم، ہالی ڈے اور پارک ہوٹل کی پُرشکوہ عمارتیں اور آگے واقعی گراسی گروانڈ، جس میں لمبے اور گھنے درختوں کی چھاؤں…… کیا پُرسکون ماحول تھا۔ گراؤنڈ کے پیچھے چنار کے درخت اور پن چکیاں تھیں اور سیدو خوڑ (ندی) کی گزر گاہ تھی۔ سیدو خوڑ بے چین اور بے تاب ہوتا اور بڑے شور کے ساتھ بہتا ۔
شاید اب بوڑھے اور ضعیف مینگورہ اور سیدو خوڑ اپنا دورِ شباب یاد کرتے ہوں گے۔
لنڈیکس میں چینہ مارکیٹ میں ’’کاکو‘‘ کا ٹال پھولوں اور پودوں کا مرکز تھا اور ساتھ ہی غورئی چینہ ٹھنڈے پانی کا اُبلتا ہوا خزانہ تھا۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر نیاز صاحب کے گھر کے سامنے بھٹیارن مکئی کے دانے بھونتی۔ دور دور سے لوگ اس کے پاس اپنے دانے لے کر آتے۔
ایک بھٹیارن رنگ محلہ کے میدانوں میں بھی تھی، ڈاکٹر سیراج صاحب کے گھر کے اِردگرد وسیع میدان میں۔
امسال میں 50 سال کا ہوگیا ہوں، یعنی تقریبا آدھی صدی سے اس شہر کو بدلتے، اُلجھتے، بھول بھلیوں میں تبدیل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔
ڈبو جماعت کی گلی میں پرانا مکان جو اب کمرشل ہوکر مارکیٹ بن گیا ہے، ہماری رہایش تھا۔ میرے والد صاحب بھی وہیں پیدا ہوئے اور شاید دادا جان کا جنم بھی مذکورہ مکان میں ہوا۔
وہ چھتوں کے اوپر کھیلنا مجھے اَب بھی یاد ہے۔ ’’چم‘‘میں کوئی ذرا زور سے بولنے والا لگتا تھا کہ نیچے قریب میں بول رہا ہے۔ یوں صاف آواز آتی تھی ۔
حاجی بابا چوک جہاں پر آفتاب میڈیکل سٹور ہے، یہ ہماری منڈی تھی، جس میں دو ہماری بسیں کھڑی ہوتی تھیں، جہاں اس کے آگے رکشے کھڑے ہوتے ہیں، وہاں چارپائیاں مستقل پڑی ہوتیں تھیں اور محفل جمی رہتی تھی۔ روڈ کے اُس طرف ایک حجام کی دُکان تھی، جس میں اخبار بھی ہوتا تھا اور مستقل لوگ بحث میں مشغول بھی ہوتے تھے۔ اس سے آگے اصل ڈاک خانہ ایک دُکان میں قائم تھا، جس کو اَب ڈاک خانہ روڈ کہتے ہیں۔
محلہ بنجاریاں میں کئی گھروں میں سرمہ فروخت ہوتا تھا۔ وہ بھی مجھے یاد ہے۔
تاج چوک، برہان خیل میں ہماری پھوپھی کا گھر تھا۔ تاج چوک ہی پر آکر مینگورہ کا اختتام ہوتا تھا۔
پلوشہ سنیما کے سامنے کی دُکانوں کے پچھواڑے سے لے کر سوات سنیما کے پیچھے اور کانا بابا تک کھیت ہی کھیت تھے۔ ’’پیپلز پیٹرولیم‘‘ پیپلز چوک میں اب بس یادداشت کا حصہ ہے۔
نوے کلے الگ گاؤں تھا اور شہر سے کافی دور لگتا تھا۔ ائیر پورٹ روڈ ایک سنسان سڑک کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
نیو روڑ میں یوسف ٹریولز اور جمال ٹریولز، باچاصاحب اڈا اور سہراب خان پیڑول پمپ پر مینگورہ شہر ختم ہوتا تھا۔
چنگی کا پھاٹک، مسجد اور پمپ کے درمیان ہوتا، جہاں لوگ ٹیکس ادا کرتے۔
ملابابا روڈ مستری خانوں اور خیراد والوں کا بازار تھی۔ بڑے بڑے مستری شمشاد اُستاد، کچے اُستاد اور علی خان بہت مشہور تھے۔ اُدھیانہ مارکیٹ بھی ایک مستری خانہ تھا۔
اس کے ساتھ ٹانگو اڈا تانگے بانوں کا مرکز تھا، جہاں گھوڑے، نال لگانے والے اور بگھی ٹھیک کرنے والے ہوا کرتے تھے۔ ایک بڑی پانی کی ٹینکی جس کے پانی کے نلکے بہت مشہور تھے، کے نیچے گھوڑے چارا کھاتے اور ساتھ ہی ایک ٹریولز کمپنی ٹیکسی کرایے پردیا کرتی ۔
اڈّا پل کے ساتھ میدان میں سرکس لگتا۔ اس کے پیچھے خوڑ (ندی) سے امان کوٹ تک وسیع باچا صاحب فارم (درختوں کی نرسری) تھا۔
مکان باغ ٹانک میں صرف ایک چشمہ اور ایک بھینسوں کا باڑا تھا۔ باقی ریت ہی ریت تھی۔
سہراب خان چوک میں ملک قباد خان مارکیٹ پر شاید ایک پیٹرول پمپ تھا اور چنار ہوٹل کی جگہ پر ایک پیٹرول پمپ تھا۔ اس کے ّساتھ ایک مل یا چکی تھی، پھر نشاط چوک میں ملک سرائے، مین بازار چوک میں حبیب بینک اور حاجی بابا چوک میں سبزی اور فروٹ منڈیاں تھیں۔
ہم اس شہر (مینگورہ) میں پیدا ہونے والے یہ نہیں کَہ سکتے اس شہر کی ترقی یا بربادی میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے……؟ یہ فیصلہ شاید آیندہ نسلیں بہتر طور پر کرسکیں، مگر اتنا تو ہے کہ ہم کچھ اچھا چھوڑ کر نہیں جارہے…… یعنی جیسا اچھا ہمیں ملا تھا، ویسا اچھا ہم چھوڑ کے نہیں جا رہے۔ بہ قول خالد صدیقی
اِک اور کھیت پکی سڑک نے نگل لیا
اِک اور گاؤں شہر کی وسعت میں کھو گیا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔