بڑی عجیب و غریب قسم کی کیفیت میں مبتلا ہوں کہ کہاں بابا محمد یحییٰ خان جیسی قد آور شخصیت اور کہاں مجھ بے علم کا ناتواں قلم۔ جہاں بابا پہ توصیفی دُر لنڈھانے والوں میں صفِ اول کے ثقہ ادیب شامل ہوں وہاں ہماری کیا وقعت۔ بابا کی نثر کے بارے میں مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں: ’’اس کی نثر خمار آور اور ہلاکت خیز ہے۔‘‘ بانو قدسیہ لکھتی ہیں: ’’بابا کھوجنے اور بوجھنے کا نام ہے۔‘‘ امجد اسلام امجد کہتے ہیں: ’’بابا کی تحریر میں رجب علی بیگ سرور، محمد حسین آزاد اور ملا رموزی تینوں کی جھلک ملے گی۔‘‘ جب کہ ادبِ لطیف کی ایڈیٹر صدیقہ بیگم لکھتی ہیں کہ ’’میں بابا جیسی رائٹر تو کیا ان جیسی دوسطریں بھی نہیں لکھ سکتی۔‘‘
’’کاجل کوٹھا‘‘ بابا محمد یحییٰ خان کے دوسرے پڑاؤ کا نام ہے۔ یہ کتاب 968 صفحات پر مشتمل ہے۔ سنگِ میل سے شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت دو ہزار روپے ہے۔ بابا کے پہلے پڑاؤ کا نام ’’پیا رنگ کالا‘‘ ہے۔
’’کاجل کوٹھا‘‘ پڑھنے کے بعد پہلے پڑاؤ کو پڑھنے کا اشتیاق بھی دو چند ہوچکا ہے۔ دونوں کتابوں کے ناموں میں جو قدر مشترک نظر آتی ہے، وہ ’’کالے‘‘ رنگ کی ہے۔ بابا جی خود تو بڑے گورے چٹے اور گرانڈیل شخصیت کے مالک ہیں، جنہوں نے دنیا دیکھ رکھی ہے لیکن کالے رنگ سے ایسی الفت ہے کہ ہمیشہ کالا لباس ہی زیب تن کرتے ہیں۔ یہ کالا روپ بہروپ استعارہ ہے یا کوئے ملامت کا اشارہ……؟ جب اُن سے پوچھو، تو آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ اب معلوم نہیں وہ غلافِ کعبہ یا اُس کے اسود پہ فدا ہیں یا ’’کالی کملی‘‘ کے عاشق؟ اُن کی کتابوں کے ٹائٹل بھی کالے ہیں اور فلیپ بھی۔ اس فقر آشنا بابے کی ریش سفید ہے لیکن لٹیں لمبی اور کالی، ہاتھوں کی انگلیوں میں قیمتی پتھروں کی انگوٹھیاں پہننے والا یہ بابا اپنی تحریروں کی طرح خود بھی اک گورکھ دھندہ ہے، جو کالے کتے، کوے اور ابابیل کو پسند کرتا ہے۔ اُن کی اس پسندیدگی میں تین باتیں مخفی ہوسکتی ہیں۔ جذباتی بندش، استعاراتی پہلو، علامتی انداز۔ بقول شاعر
اُلٹی ہی چال چلتے ہیں دیوانگانِ عشق
آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کے لیے
آپ زیادہ تر داتا دربار کے آرے دوارے نظر آتے ہیں یا سفر در سفر ظفر کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ آپ کے اسفار جنگلوں، بیابانوں، صحراؤں، دریاؤں، سمندروں اور پہاڑوں پر جاری رہتے ہیں جیسا کہ خود لکھتے ہیں: ’’میں درویشی کا کمزور سا مسافر ہوں، زادِ راہ ہے نہ ہی ہمت و سکت، در در بھٹک رہا ہوں، ٹھوکریں، رسوائیاں، رتجگے، جاں ماریاں میرا نصیب ہیں، مجھے یہی حکم ہے کہ چلتے رہو۔ پیادہ، جانوروں کی پیٹھ، گول پہیوں والی مشینوں پہ، آہنی پروں والے پرندوں پہ، سمندر کے سینوں پہ تیرتے ہوئے راج ہنسوں پہ کہ درویشی، درویزہ گری نہیں…… دریدہ دری اور رفوگری ہے۔‘‘ ناول کے انداز میں لکھی گئی اس کتاب میں سفر نامے کا ٹچ بھی ہے اور آپ بیتی و جگ بیتی کے تانے بانے بھی جس میں آپ نے روحانی مجاہدات، مشاہدات اور تجربات کا عکس بیان کیا ہے، تو کہیں اپنی چلہ کشی اور مراتبوں کا احوال لکھا ہے۔ کہیں آپ لق و دق صحرا میں ریگی چلہ کاٹ رہے ہیں، تو کہیں کنوؤں، کھوؤں اور غاروں میں بونوں کے ساتھ ملاقاتیں کررہے ہیں۔ کہیں پانیوں کے سفر پہ ہیں، تو کہیں مزاروں اور نظاروں میں کھوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں کسی عاشق زادے اور طوائف کے عشق کی داستان لکھ رہے ہیں، تو کہیں جنات کی پر اسرار زندگی کے حالات و واقعات کو قلم بند کئے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے پر اسرار انداز میں مسطور ہے کہ قاری خود کو ماورائی دنیا میں محسوس کرتا ہے۔ زبان و بیان پہ کڑی گرفت ہے۔ اس لیے نئے نئے لفظوں کی چھاگلیں اُنڈلیتے جاتے ہیں۔ طویل پیرائیوں میں بعض اوقات غرابت بھی در آتی ہے اور قاموس کا ساگمان ہوتا ہے لیکن تحیر اور دلچسپی پہ بٹّا نہیں لگتا۔ ہندی، فارسی، عربی، پنجابی، گور مکھی، سنسکرت اور دیگر مقامی زبانوں پہ جو ملکہ آپ کو حاصل ہے، شاید ہی کسی کو ہو۔ بشریات، حیوانات اور اخلاقیات کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم یعنی طب، خطاطی، مصوری اور رقص وغیرہ کی باریکیوں سے خوب شناسا ہیں تو طوائفوں، ہیجڑوں اور کنجریوں کی نفسیات سے بھی بہ خوبی واقف۔ آپ کسی بھی موضوع کو چھیڑتے ہیں، تو انگشت بدنداں کردیتے ہیں۔ پانیوں کی تاثیر ہو یا اونٹوں کا احوال، پیروں، فقیروں، درویشوں کی بات ہو یا عاملوں، کاملوں اور صوفیوں کا احوال۔ پرندوں، چرندوں، خزندوں کی بات ہو یا کتوں، بلیوں اور بلونگڑوں کا احوال، حیران کن معلومات سے آپ قاری کو متحیرو مبہوت کردیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایسی ایسی ضرب الامثال کھوج نکالتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً ’’طوائف کا کتا بھی کتیوں کا بھڑوا۔‘‘
تصوف، روحانیت اور ماورایت سے لبریز یہ کتاب اک صحیفہ ہے جس میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے روپ میں واقعات، مشاہدات اور مجاہدات اپنی تمام تر حیرانیوں سمیت موجود ہیں۔
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔