وفاقی وزیرِ داخلہ جناب محسن نقوی نے ’’نیشنل ڈرگ سروے‘‘ کی منظوری دے دی ہے۔ 11 سال بعد ہونے والے اس سروے کے تحت ملک بھر میں منشیات استعمال کرنے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا۔
وزیرِ داخلہ نے 15 دن کے اندر سروے سے متعلق معاملات کو حتمی شکل دینے اور گھروں کے علاوہ تعلیمی اداروں، کچی آبادیوں اور دیگر مقامات سے بھی ڈیٹا لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک صائب فیصلہ ہے۔ اس سروے کو ہر لحاظ سے جامع، مستند اور بالکل درست ہونا چاہیے۔ درست اور جامع معلومات کی بنا پر ہی انسدادِ منشیات کی بہتر منصوبہ بندی اور فیصلے ہوسکیں گے۔ آج ہم صرف تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے رجحان پر بات کریں گے۔ عام لوگوں پر اس کے اثرات کا کسی دوسرے کالم میں جائزہ لیں گے۔
قانون کو اپنی رکھیل بنانے والا ڈرگ مافیا اس وقت ملکِ عزیز میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے بہت حد تک ہماری سیاست میں بھی رسوخ حاصل کرلیا ہے۔ سیاسی حکومتیں اس مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں کہ بالواسطہ طور پر یہ مافیا اُنھیں کسی نہ کسی طور فنڈنگ کر کے اپنے تحفظ کا بندوبست کر کے رکھتا ہے۔ اب اس مافیا نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیا ہے۔
یونیورسٹیوں اور کالجوں کے بعد اب اس مافیا نے سکولوں کو بھی ٹارگٹ کر لیا ہے۔ اس طرف حکومت کو پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والی نسل کو بچایا جاسکے۔
سابق وزیرِ اعلا پنجاب جناب پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب حکومت نے نوجوان نسل اور خصوصاً طلبہ میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اس کی فروخت کو روکنے کے لیے ایک نیا محکمہ اور صوبے بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مجوزہ محکمے کا نام ’’کنٹرول آف نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ‘‘ تجویز کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں قانون سازی کو حتمی شکل دی جا رہی تھی۔ مجوزہ قانون میں منشیات کی تیاری، ترسیل، فروخت اور معاونت پر سخت سزائیں اور بھاری جرمانے تجویز کیے گئے تھے۔ ایوانِ وزیرِ اعلا میں روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز چل رہی تھیں اور اس قانون کو حتمی شکل دی جا رہی تھی کہ پرویز الٰہی کو اپنی حکومت عمران خان کے ایک غلط سیاسی فیصلے کی بھینٹ چڑھانا پڑگئی۔
مجوزہ قانون میں نوجوانوں کے اعصاب اور رویوں پر منفی اثر ڈالنے والی متعدد اشیا کو نشہ آور لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ تعلیمی ادارے کی حدود میں منشیات کی فروخت اور استعمال ثابت ہونے پر اس ادارے کی انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ منشیات کی روک تھام کے لیے سپیشل انٹیلی جنس ونگ کا قیام، جب کہ منشیات کے عادی افراد کی رجسٹریشن اور اُن کے علاج کے لیے اتھارٹی قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔
دیکھا جائے، تو پنجاب کی حکومت کا تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے کا یہ اقدام نہایت قابلِ ستایش تھا اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا مسئلہ گمبھیر صورت اختیار کرچکا ہے۔ دولت کے لالچ میں مفاد پرست عناصر صرف نوجوانوں ہی کے نہیں، بل کہ ملک اور قوم کے بھی مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ ایک منظم سازش کے تحت قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے اس کے نوجوانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کیا جا رہا ہے۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ والدین بڑی امیدوں اور اُمنگوں کے ساتھ آنکھوں میں جانے کیا کیا سپنے سجائے اپنے بچوں کو بڑے شہروں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں، مگر یہ نوجوان وہاں ڈرگ مافیا کے ہتھے چڑھ کر اپنا مستقبل برباد اور والدین کے خواب چکنا چور کر دیتے ہیں۔
حکومتِ پنجاب قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والے ان درندہ صفت عناصر کی سرکوبی کے لیے پُرعزم تھی۔ نئے قانون کے تحت تجویز دی گئی تھی کہ جن جرائم کی سزا دو سال تک ہوگی، اس کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت میں درجۂ اول کا مجسٹریٹ ہوگا۔ مجوزہ قانون میں 57 مختلف قسم کی منشیات اور نشہ آور اشیا کو شامل کیا گیا تھا۔ تعلیمی اداروں کے گرد 500 میٹر کی حدود میں منشیات فروشی پر کم سے کم 7 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قید کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ منشیات کے عادی کے علاج کا پہلی دفعہ خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔ نئے قانون کے تحت نارکوٹکس کنٹرول تھانے قائم کیے جانے تھے۔ تمام ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کمپنیوں کو نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کو اپنے سسٹم تک رسائی دینے کا پابند بنایا گیا تھا۔ ایسا نہ کرنے یا انکار کی صورت میں 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کی تجویز تھی۔
دیکھا جائے، تو جناب پرویز الٰہی کی حکومت نے نوجوانوں اور قوم کے مستقبل کو بچانے کے لیے ایک بہترین عملی کام کا آغاز کیا تھا، جو بہ وجوہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ موجودہ وزیرِ اعلا پنجاب جناب محترمہ مریم نواز شریف حقیقی معنوں میں میاں شہباز شریف سے بڑھ کر نہیں، تو ہم پلہ ضرور ثابت ہوئی ہیں۔ اگر وہ سابقہ حکومت کے اس منصوبے کو ’’ایڈاپٹ‘‘ کرلیں، تو یہ صوبے کے لیے ایسی گراں قدر خدمت ہوگی، جو اُنھیں امر کر دے گی۔
صوبہ سندھ کے وزیرِ اعلا جناب سید مراد علی شاہ بھی تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے استعمال پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور ڈرگ مافیا کی بیخ کنی کے لیے پُرعزم ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلا جناب علی امین گنڈا پور اپنے صوبے سے منشیات فروشوں اور منشیات فروشی کے خاتمے کا بہ بانگِ دُہل اعلان کرچکے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے وزیرِ اعلا سے بھی اسی قسم کی توقع رکھنی چاہیے۔
معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے اور ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والے منشیات فروش کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ ان کے لیے تو سرِ عام پھانسی کی سزا ہونی چاہیے۔ یہ ظالم روزانہ کی بنیاد پر کتنے والدین کی اُمیدوں کے مراکز چھین رہے ہیں۔ نوجوان سہاگنوں کو بیوہ اور ننھے معصوم بچوں کو یتیم کر رہے ہیں۔ مجوزہ قانون میں یہ شِق ضرور رکھی جانی چاہیے کہ منشیات فروشی کے کیس کا فیصلہ 30 دِن کے اندر کر دیا جائے گا اور یہ جرم ناقابلِ ضمانت ہوگا، یا تو ملزم اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر کے 30 دن میں جیل سے باہر آ جائے گا، یا پھر جرم ثابت ہونے پر سزا بھگتے گا۔ قانونی موشگافیاں اور طوالت سے چالاک مجرم اکثر فائدہ اُٹھا جاتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان اور تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ منشیات فروشوں کے خلاف قانون سازی اور الگ محکمہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ میں منشیات کے استعمال کے خلاف شعور اُجاگر کرنے کے لیے ڈرگ ایجوکیشن کی طرف بھی توجہ دیں۔ آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت تک کے طلبہ عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں، جہاں اُن کے ذہن کے کورے کاغذ پر کوئی بھی تحریر لکھی جاسکتی ہے۔ یہی عمر جذبات، احساسات اور رجحانات میں تبدیلی کی عمر ہے۔ طالب علم کے ذہن کو جس طرف موڑیں گے، وہ مڑ جائے گا۔ طلبہ پر روایتی مضامین کا ہی کافی بوجھ ہے۔ ایسے میں ڈرگ ایجوکیشن کے مضمون کو متعارف کرانا طلبہ پر بوجھ بڑھانے کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا اس سلسلے میں نفوذ یا ادخال (Infusion) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے سائنس سے متعلق موضوعات کو اسلامیات، معاشرتی علوم اور جنرل سائنس وغیرہ میں شامل کیا گیا تھا اور اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے تھے۔ ڈرگ ایجوکیشن کو بھی اسی طرح نصاب میں شامل کر دیا جائے، تاکہ درسی کتب کا حجم بھی نہ بڑھے۔
نفوذ کے طریقے میں چوں کہ مجوزہ تصورات کو متعلقہ تعلیمی تجربے میں شامل کیا جائے گا۔ اس لیے وہ زیادہ اچھے طریقے سے ذہن نشین ہوجائیں گے۔ مثال کے طور پر اسلامیات کے مضمون میں جب یہ آیت پڑھائی جائے:
(ترجمہ) ’’ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ، جب تک سمجھنے نہ لگو وہ بات جو تم کہو۔‘‘ (النساء 43)
اس ترجمے کے ساتھ ڈرگ ایجوکیشن کا یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے اس لیے روکا گیا ہے، کیوں کہ نشے کی حالت میں انسان اپنا ہوش کھو بیٹھتا ہے اور وہ اپنے فرائض اور ذمے داریوں سے غافل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ’’فزیالوجی‘‘ (Physiology) کے مضمون میں جہاں مختلف اعضا کے افعال بیان کیے جا رہے ہوں، وہیں طلبہ کو یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ منشیات کے استعمال سے دماغ کیسے ماؤف ہو جاتا ہے اور دیگر اعضا کے افعال میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں؟ کون سی مہلک بیماریاں لگنے کا خطرہ ہوتا ہے اور کیسے نشے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔
استاد منشیات کے مضر اثرات کو واضح کرکے بیان کرے، گروہی مباحث کی حوصلہ افزائی کرے اور طلبہ کے مختلف نقطہ ہائے نظر کو مجتمع کرکے طلبہ کے سامنے نتیجہ پیش کرے۔ اسی طرح دیگر مضامین کے ساتھ ڈرگ ایجوکیشن کا ربط پیدا کر کے منشیات کی خطرناکی اور مضر اثرات کو طلبہ کے ذہنوں میں راسخ کر کے منشیات کے خلاف نفرت پیدا کی جاسکتی ہے۔