بھٹو قتل سے متعلق حقائق

Advocate Muhammad Riaz

سال 2011ء صدر آصف علی زرداری کی جانب سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا۔ پاکستانی عدلیہ کے معزز جج جو آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی اور ایمان داری سے اپنی بہترین صلاحیت اور دیانت داری سے انجام دینے اور آئینِ پاکستان کی حفاظت اور دفاع کا حلف اُٹھاتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں، ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ، قانون کے مطابق، بلا خوف و خطر، پیار اور ناخوش گوار سلوک کریں گے، مگر افسوس سال 2011ء سے لے کر دسمبر 2023ء تک پاکستان کے کسی چیف جسٹس کو صدارتی ریفرنس کو عدالتی کاز لسٹ میں شامل کرنے کی ہمت و جرات پیدا نہ ہوسکی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس بات کا کریڈٹ ضرورجاتا ہے کہ جہاں اُنھوں نے کئی دلیرانہ اقدامات کیے ہیں، جیسا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی سپریم کورٹ میں ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ، اہم مقدمات کی براہِ راست نشریات، فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی مقدمہ، جسٹس شوکت صدیقی کی بہ حالی، اسی طرح سپریم کورٹ کے سرد خانوں میں چھپائے گئے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر صدارتی ریفرنس کو کاز لسٹ میں شامل کرنا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل بینچ نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر اُٹھنے والے تمام سوالوں کے جوابات کی تلاش میں آمر ضیاء الحق کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات اور عدلیہ میں بیٹھے آئین و قانون کے رکھوالے ججوں کے گھناونے کردار آشکار کر دیے ہیں۔ صدارتی ریفرنس کے جواب میں سپریم کورٹ کی جانب سے 48 صفحات اور 78 نِکات پر مشتمل جاری تفصیلی فیصلہ/ رائے کو قانون و سیاست کے طالب علم حتیٰ کہ پاکستان کے ہر شہری کو پڑھنا بہت ضروری ہے، تاکہ پاکستانی عوام کو پتا چلے کہ ماضی میں ہمارے حکم رانوں اور عدلیہ میں بیٹھے نام نہاد ججوں نے کیا کیا سیاہ کارنامے اور گُل کھلائے تھے اور کیسے اُن آمروں اور ججوں نے آئین و قانون کی دھجیاں اُڑائی تھیں۔ پاکستان یا شاید دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہوگا کہ بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ کا ٹرائل سیشن کورٹ کی بہ جائے بہ راہِ راست ہائیکورٹ میں کیا گیا۔ بہ ہرحال عدالتی رائے کی بہ دولت تاریخ کے اوراق میں پوشیدہ حقائق منظر عام پر آچکے ہیں۔ آئیے، سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس پر جاری شدہ رائے میں تلخ حقائق کا مطالعہ کریں:
٭ اول:۔ ٹرائل اور اپیل کورٹس، جنھوں نے مقدمے کی سماعت کی اور اپیل کی سماعت کی، آئین کے تحت حقیقی عدالتیں نہیں تھیں۔ ملک مارشل لا کا اسیر تھا اور اس کی عدالتیں بھی۔ جب جج آمروں سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں، تو عدالتیں عوام کی نہیں رہتیں۔
٭ دوم:۔ سپریم کورٹ کے تین معزز جج جنھوں نے بھٹو کو بری کیا تھا، اُنھوں نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا تھا کہ مملکت میں 5 جولائی 1977ء سے آئین میں درج بنیادی حقوق معطل ہیں اور یہ کہ بھٹو کو آئین میں بنیادی حقوق اور دیگر حقوق کا آئینی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ اور یہ انکشاف کیا کہ آئین معطلی کے دوران میں دیگر بے گناہوں کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا گیا تھا۔
٭ سوم:۔ ٹرائل کورٹ، جس نے بھٹو پر مقدمہ چلایا تھا اور اُنھیں سزا سنائی تھی، اور اپیل کورٹ، جس نے ان کی اپیل خارج کر دی تھی، اُس وقت کام کر رہی تھی جب ملک میں کوئی آئینی قاعدہ قانون نہیں تھا اور ایک آدمی کی مرضی اور خواہش قانون سازی بن گئی تھی اور آئین و قانون کی جگہ فردِ واحد جنرل ضیاء الحق نے لے لی تھی۔ بدقسمتی سے عدالت نے بھٹو کیس میں، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو سراہا۔ اُن کے بارے میں کہا گیا کہ اُنھوں نے ملک بچانے کے لیے قدم بڑھایا ہے۔ کیا یہ واضح نہیں تھا کہ مجرم کے فیصلے کا بہ راہِ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوگا۔ اگر بھٹو بری ہوجاتے، تو وہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف سنگین غداری کے جرم میں مقدمہ چلا سکتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی ذاتی بقا کا انحصار بھٹو کے مجرم قرار دیے جانے پر تھا۔ غاصب اقتدار کے تسلسل کے لیے مسٹر بھٹو کو سزا سنانے کی ضرورت تھی، جب کہ دینِ اسلام مراعات یافتہ طبقات کی تخلیق پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ سب کی قانون کے سامنے برابری پر یقین رکھتا ہے، حکم ران اور حکومت یک ساں۔ یہ ہر قسم کی طبقاتی تفریق کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ خلیفہ، بادشاہ، وزیرِ اعظم یا صدر، حکم ران کو جس بھی نام سے پکارا جائے، ملک کے قانون کا اتنا ہی تابع ہے جتنا کہ کوئی عام شہری، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کا، جس نے اپنے اندر ایک مطلق العنان بادشاہ کے تمام اختیارات جمع کر لیے تھے۔
٭ چہارم:۔ بھٹو نہ تو کرپشن کے مقدمے میں تھے اور نہ آئین کی خلاف ورزی کے الزام میں، تاہم معزز جج صاحبان نے ان معاملات کے بارے میں بھی بے جا ریمارکس دیے۔
٭ پنجم:۔ جسٹس مشتاق حسین مقدمے کی سماعت ہائی کورٹ منتقل کرنا، ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ سے زیرِ التوا شکایتی کیس کو ہٹا کر ٹرائل کورٹ کے سامنے طے کرنا، جس کے وہ خود سربراہ تھے، غیر معمولی تھا۔ قانون پر عمل نہیں کیا گیا اور طے شدہ طریقۂ کار سے ہٹ گئے۔ جسٹس مشتاق حسین کی جانب سے بھٹو کو نوٹس جاری کیے بغیر مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ منتقل کرنے کے حوالے سے حکم نے اس پرانی حکمت کو نظر انداز کیا کہ ایک فریق سماعت کے موقع کا حق دار ہے۔ بھٹو مقدمہ میں کہا گیا کہ موجودہ معاملے میں اس طرح کے نوٹس کی ضرورت نہیں تھی۔
٭ ششم:۔ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے مقدمے کی کارروائی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی اپیل پر منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حق اور آئین کے آرٹیکل 4 اور 9 میں درج مناسب عمل کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ۔جبکہ آئین کے آرٹیکل 10A کے تحت علیحدہ اور آزاد ٹرائل کی ضمانت دی گئی ہے۔
٭ ہفتم:۔ گیارہ نومبر 1974ء کو مسٹر خان کے قتل کی تحقیقات، جو 3 مئی 1976ء کو بند کر دی گئی تھی، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کے زبانی حکم پر دوبارہ کھولی گئی۔ استغاثہ نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ کیسے اور کیوں؟ بتیس ماہ پرانے کیس کی تحقیقات، جو چودہ ماہ قبل بند کر دی گئی تھی، دوبارہ کھول دی گئی۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ تحقیقات ایف آئی اے کو کیسے اور کیوں منتقل کی گئیں۔ یہ دونوں کارروائیاں (تفتیش کا دوبارہ آغاز اور اس کی ایف آئی اے کو منتقلی) جنرل ضیاء الحق کی بغاوت کے بعد مسٹر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد کی گئیں۔ کیس دوبارہ زندہ کردیا گیا۔
٭ ہشتم:۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 30 2کے تحت قتل کا مقدمہ صرف سیشن کورٹ ہی چلا سکتا ہے ۔ لہٰذا، تحقیقاتی رپورٹ، جو مجسٹریٹ کو پیش کی گئی، 12 ستمبر 1977ء کو سیشن جج، لاہور کو بھجوا دی گئی۔ رپورٹ موصول ہونے کے بعد مقدمے کی سماعت شروع ہو چکی تھی۔ تاہم اگلے ہی دن 13 ستمبر 1977ء مقدمہ فوجداری اصل نمبر 60/77، بعنوان ریاست بمقابلہ زیڈ اے بھٹو جسٹس مشتاق حسین، قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے آیا کیس کو ٹرائل کے لیے اس عدالت میں منتقل کیا گیا اس حقیقت کے باوجود کہ لاہور کے سیشن جج 12 ستمبر 1977ء کو اس کیس کا نوٹس لے چکے ہیں۔
یہ ناقابل فہم ہے کہ پھر کیس کو قائم مقام چیف جسٹس مشتاق حسین کی عدالت میں کیوں پیش کیا گیا۔ جسٹس مشتاق حسین نے فوری طور پر اور اسی دن 13 ستمبر 1977ء کو مندرجہ ذیل حکم جاری کرتے ہوئے مذکورہ پٹیشن منظور کرلی، درخواست میں کی گئی گذارشات کے پیش نظر کیس کو ٹرائل کے لیے اسی عدالت یعنی لاہور ہائیکورٹ میں منتقل کیا جاتا ہے ۔ اس کی سماعت فل بنچ کرے گی۔ اور حیران کن طور پر فل بینچ کی سماعت کی سربراہی بھی جسٹس مشتاق حسین نے خود ہی کی۔
٭ نہم:۔ 24 ستمبر 1977ء کو بھٹو اور دیگر شریک ملزمان کا ٹرائل شروع ہوا۔ ہائیکورٹ نے شواہد طلب کرنے کا حکم دیا تاہم ملزمان عدالت میں موجود ہونے کے باوجود ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ اگلی تاریخ یعنی 3 اکتوبر 1977ء کو بھی چارج فریم نہیں کیا گیا۔ چارج فریم کرنا ایک لازمی شرط ہے ، اور اس کے فریم ہونے کے بعد ہی مقدمے کی سماعت شروع ہو سکتی ہے۔
بالآخر 11 اکتوبر 1977ء کو الزام عائد کیا گیا جبکہ تمام ملزمان نے جرم قبول نہیں کیا۔ 11 اکتوبر 1977ء سے 25 فروری 1978ء تک لاہور ہائی کورٹ جو ٹرائل کورٹ کے طور پر کام کر تی رہی نے استغاثہ کے اکتالیس گواہوں اور چار دفاعی گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔ 2مارچ 197 8 کو فیصلہ محفوظ کیا گیا اور 18 مارچ 1978ء کو اس کا اعلان کیا گیا۔ بھٹو کو تعزیرات پاکستان میں درج جرائم کی درج ذیل دفعات کے تحت سزا سنائی گئی: (a) دفعہ 120-B پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی، (b) دفعہ 302 کیساتھ دفعہ 301 اور 111 ملا کر سزائے موت اور (c) دفعہ 307 اور دفعہ 109 ملاکر، ہر جرم کے لیے سات سال سخت قید کی سزا سنائی گئی۔
٭ دہم:۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کی، لیکن ان کی اپیل 6 فروری 1979ء کو چار تین کی اکثریت سے خارج کر دی گئی۔ بھٹو کی فوجوداری اپیل کو مسترد کرنے والے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی گئی تھی، لیکن اسے 2 4مارچ 1979ء کو متفقہ طور پر خارج کر دیا گیا تھا۔
٭ گیارہ:۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے لئے پھانسی کے وارنٹ یعنی ڈیتھ وارنٹ پر جسٹس مشتاق حسین نے دستخط کیے جو اب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن چکے تھے ۔ موت کے وارنٹ کا اختتام ان الفاظ میں ہوا: میرے ہاتھ اور عدالت کی مہر کے تحت 25 مارچ 1979ء کو دیا گیا، اور راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل کو اپریل 1979ء کے دوسرے دن سزا پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی۔ پھانسی کی تاریخ بعد میں اپریل 1979ء کے چوتھے دن میں تبدیل کر دی گئی۔ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی نے ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء بروز بدھ راولپنڈی میں اس وقت تک گردن سے لٹکایا گیا جب تک وہ مر نہیں گئے ۔ اور یہ کہ لاش پورے ایک گھنٹہ تک لٹکی رہی اور اس وقت تک نہیں اتاری گئی جب تک کہ میڈیکل آفیسر نے زندگی کے معدوم ہونے کا یقین نہ کرلیا۔
٭ بارہ:۔ صدر زرداری کے ریفرنس کے جواب میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں، اور زور دینا چاہتے ہیں کہ ہم کسی درخواست، اپیل یا نظرثانی کی درخواست کی سماعت نہیں کر رہے ہیں۔ نہ تو آئین اور نہ ہی قانون ایسا طریقہ کار فراہم کرتا ہے جس کے تحت بھٹو کی سزا کو کالعدم قرار دیا جاسکے ۔ کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے نظرثانی کی درخواست خارج ہونے کے بعد بھٹو کی سزا حتمی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ہمارے مشاورتی دائرہ اختیار میں فیصلے کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔
٭ تیرہ: بھٹو کی سزا اور سزا کے حوالے سے 6 مارچ 2024ء کو ہم نے درج کیا تھا کہ اپنی تفصیلی وجوہات میں، ہم ان بڑی آئینی اور قانونی خامیوں کی نشاندہی کریں گے جو منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے حوالے سے ہوئی تھیں۔
اس کی تفصیلی وجوہات درج ذیل ہیں:
11 نومبر 1974ء کو ہونے والے قاتلانہ حملے کی تحقیقات پولیس نے شروع کی، تاہم کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے کیس سی آئی اے کو منتقل کر دیا گیا، لیکن پھر بھی مجرموں کا پتا نہ چل سکا۔
اس کے بعد ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ایک ٹریبونل تشکیل دیا گیا، جس نے کچھ ہدایات جاری کیں لیکن مجرمان کا سراغ لگانے میں ناکامی رہی۔ اس کے بعد تفتیش کو بند کرنے کی سفارش کی گئی، جسے مجسٹریٹ نے قبول کرلیا اور 3 مئی 1976ء کو تفتیش کو باضابطہ طور پر بند کر دیا گیا۔ کسی نے تفتیش بند کرنے پر اعتراض نہیں کیا۔ تفتیش کو دوبارہ کھولنے کے لیے کوئی درخواست جمع نہیں کروائی گئی اور نہ کسی عدالت نے تفتیش کو دوبارہ کھولنے کا حکم ہی دیا۔ شکایت کنندہ احمد رضا خان قصوری، جو خود وکیل تھے، نے بھی تفتیش کی بندش پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ یہ اعتراض ہی اُٹھایا کہ اس کی بندش قبل از وقت ہے۔
جنرل ضیا کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی دنوں میں، جن کو ملزم بنایا گیا تھا، گرفتار کرلیا گیا، اور جس جرم کا سراغ نہیں لگایا جاسکا تھا اور جس کی تفتیش بند کر دی گئی تھی، بغیر اجازت کے دوبارہ کھول دی گئی اور بغیر اجازت ایف آئی اے نے اس کی دوبارہ تفتیش شروع کردی۔ ہر وہ شخص جسے بھٹو کے ساتھ شریکِ ملزم بنایا گیا تھا، اُس نے حیرت انگیز طور پر جرم کا اعتراف کرلیا تھا۔ ہائی کورٹ نے یک طرفہ طور پر اور سنے بغیر خود ملزم کے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا، جو مکمل طور پر بے مثال تھا۔
بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کیا تھا، جنھوں نے 5 جولائی 1977ء کے اپنے اقدامات سے آئین کے آرٹیکل 6 کی واضح خلاف ورزی کی اور سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، جس کی سزا عمر قید یا موت ہے۔ اس لیے جنرل ضیا کے پاس بھٹو کے خلاف کارروائی کا ایک مقصد تھا۔ کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے، تو بھٹو اُن کے خلاف سنگین غداری کے مقدمہ چلاتے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی یعنی ایف آئی اے کو ایف آئی اے ایکٹ 1974ء کے شیڈول میں درج جرائم کی تحقیقات کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، لیکن یہ کسی ایسے جرم کی دوبارہ تفتیش کی اجازت نہیں دیتا، جس کی پہلے ہی تفتیش ہوچکی ہے۔ پولیس کی طرف سے مزید تفتیش کو بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ کوئی عدالتی حکم جاری نہیں کیا گیا جس میں یہ ہدایت کی گئی ہو کہ تفتیش دوبارہ شروع کی جائے، یا ایف آئی اے کے ذریعے جرم کی دوبارہ تفتیش کی جائے۔
ایف آئی اے کو کیس کی فائل 8 اگست 1977ء کو موصول ہوئی تھی، لیکن اُس نے پہلے ہی 24 جولائی 1977ء کو ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالخالق کی کیس ڈائری کے مطابق دوبارہ تفتیش شروع کر دی تھی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ پہلے سے تصور شدہ مقصد تھا۔ یہ خلاف ورزی ٹرائل کورٹ کے ججوں اور اپیل کورٹ کے ججوں کی اکثریت کی توجہ سے بچ گئی۔
دوبارہ تحقیقاتی رپورٹ 12 ستمبر 1977ء کو سیشن جج، لاہور کو پیش کی گئی جنھوں نے پبلک پراسیکوٹر سے رپورٹ طلب کی۔ تاہم اگلے ہی دن13 ستمبر 1977ء کو یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج، یعنی جسٹس مشتاق حسین کے سامنے رکھا گیا، جس نے سب سے غیر معمولی کام کیا۔ بھٹو اور دیگر ملزمان کو نوٹس جاری کیے بغیر، اُنھیں سماعت کا موقع فراہم کیے بغیر اور اُنھیں قانونی نمایندگی حاصل کرنے کے قابل بنائے بغیر، اُنھوں نے حکم دیا کہ درخواست میں کی گئی گذارشات کے پیشِ نظر مقدمہ ہائیکورٹ میں جسٹس مشتاق حسین کی لاہور ہائیکورٹ کی عدالت میں منتقل کیا جاتا ہے۔
ضابطۂ فوج داری، 1898ء کی دفعہ 526 ہائی کورٹ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ فوج داری مقدمہ خود منتقل کر دے اگر:
٭ اے:۔ منصفانہ ٹرائل ممکن نہ ہو۔
٭ بی:۔ کیس میں غیر معمولی مشکل کے قانون کے کچھ سوالات شامل ہوں۔
٭ سی:۔ اگر اس جگہ یا اس کے آس پاس جہاں کوئی جرم کیا گیا ہے اسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
٭ڈی:۔ یہ فریقین یا گواہوں کی عام سہولت کے لیے ہوگا۔
٭اِی:۔ انصاف کی منزل کو محفوظ بنانے کے لیے ہوگا۔
تاہم، جسٹس مشتاق حسین، قائم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اپنے عدالتی حکم نامے میں کوئی وجہ بیان نہیں کی کہ کیوں کر سیشن کورٹ سے ہائیکورٹ میں مقدمہ ٹرائل کے لیے منتقل کیا جارہا ہے؟
قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ کرتی ہے، جب کہ سزا کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں۔ آئین کا آرٹیکل 185(2)(b) اور ضابطہ کے سیکشن 411-A اور 526 ہائی کورٹ کو ٹرائل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن یہ دفعات ہائی کورٹ کو قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے کا اختیار نہیں دیتے۔ ہائی کورٹ میں قتل کا مقدمہ چلانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہائی کورٹ کے ذریعے بھٹو کے قتل کے مقدمے نے تاریخ رقم کردی۔ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ہی ایسا ہوا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے دیگر ممالک، جہاں ایسی ہی قانونی دفعات ہیں، کسی ہائی کورٹ نے کبھی قتل کا مقدمہ ٹرائل کورٹ کے طور پر نہیں چلایا۔
قتل کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے، ہائی کورٹ نے آئین کی متعدد دفعات اور ضابطۂ فوج داری بے کار کردیا۔ دفعہ 374 کا تقاضا ہے کہ موت کی ہر سزا کی ہائی کورٹ سے تصدیق ضروری ہے۔
یہ مان لیا جائے کہ ہائی کورٹ قتل کا مقدمہ چلاسکتی تھی، تو سزا کی تصدیق ہائی کورٹ سے کروانا لازم تھا۔ ہائی کورٹ کے کوئی بھی دو جج، جنھوں نے مقدمے کی سماعت نہیں کی، وہ ضابطہ کی دفعہ 376 کے مطابق ایسا کرسکتے تھے…… لیکن، ایسا نہیں کیا گیا۔
سزائے موت کی تصدیق کیے بغیر اُنھیں پھانسی نہیں دی جاسکتی تھی۔ ضابطۂ فوج داری کی دفعہ 376 جو موت کی سزا پانے والوں کو ضروری تحفظ فراہم کرتی ہے، لیکن اس شق کو نظر انداز کردیا گیا۔
آئینِ پاکستان میں کہا گیا ہے کہ قانون کے تحفظ سے فائدہ اُٹھانا اور قانون کے مطابق سلوک کرنا ہر شہری کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے۔ خاص طور پر کسی شخص کی زندگی، آزادی، جسم، ساکھ یا جائیداد کے لیے نقصان دِہ کوئی بھی اقدام خلافِ قانون نہیں کیا جائے گا۔ ضابطۂ فوج داری کی دفعہ 376 جس میں سزائے موت کی توثیق کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی خلاف ورزی کی گئی اور اس ناقابل تنسیخ حق کی خلاف ورزی کی گئی۔ آئین کے آرٹیکل 9 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو خلافِ قانون زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
بھٹو کیس میں آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی، وہ بھی اُن افراد یعنی ججوں نے کی، جو افراد قوانین کی پاس داری کو یقینی بنانے کے لیے ذمے دار تھے۔ ضابطۂ فوج داری کے مطابق سیشن کورٹ کی سزا اور سزا کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں کی جاتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 4(1) جس کا تقاضا ہے کہ سب کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے، اور آئین کا آرٹیکل 9 جو کہ قانون کے مطابق کسی کو بھی محروم رکھنے سے منع کرتا ہے، لیکن بھٹو کے معاملے میں آئین اور ضابطۂ فوج داری کی خلاف ورزی کی گئی۔ مجرموں کو اپیل کے ایک حق سے محروم رکھا گیا تھا، جس کی آرٹیکل 4(1) اور آرٹیکل 9 ضمانت دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایمرجنسی کے اعلان کے دوران میں بھی اُن حقوق کو کالعدم یا نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے مناسب قانونی کارروائی اور منصفانہ ٹرائل کا حق پاکستان کے قوانین و عدالتی کارروائی کا حصہ ہے اور یہ حقوق جیسا کہ منصفانہ ٹرائل اور مناسب عدالتی کارروائی کے حق کو آئین میں سال 2010ء میں آرٹیکل 10A کے ذریعے بنیادی حقوق کے طور پر شامل کیے جانے سے پہلے بھی برقرار تھے۔
بھٹو کو سزا سنانے کی سب سے بڑی بنیاد ایک ملزم کی گواہی تھی، جو وعدہ معاف گواہ بن گیا، یعنی مسعود محمود، جو اس وقت کی فیڈرل سیکورٹی فورس کا ڈائریکٹر جنرل تھا۔ 5 جولائی 1977ء کی بغاوت کے بعد مسعود محمود کو گرفتار کیا گیا، ملزم کے طور پر نام زد کیا گیا۔ مسعود محمود نے استدعا کی کہ وہ جرم کا انکشاف کرے گا، بہ شرط یہ کہ اسے معاف کر دیا جائے۔ اُس کی درخواست قبول کرلی گئی اور اُسے وعدہ معاف گواہ بنالیا گیا۔
مسعود محمود کی گرفتاری کے بعد اُس نے 7 ستمبر 1977ء کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، لاہور کو خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ اُس نے صرف سابق وزیرِ اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر عمل کیا، تاکہ احمد رضا قصوری کی موت واقع ہوسکے۔ اور اگر مجھے معافی مل جاتی ہے، مَیں قتل کی سازش کے بارے میں مادی حقائق کا انکشاف کرسکوں گا۔ حیران کُن طور پر اس نے ایسا اس لیے کیا، کیوں کہ اس گھناؤنے جرم کے اقدام نے مسعود محمود کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔
یاد رہے یہ جرم تین سال پہلے کیا گیا تھا اور مسعود محمود کا ضمیر خاموش رہا اور جب اسے گرفتار کیا گیا، تو وہ بیدار ہوا۔ ایک ضمیر جو پہلے اپنے لیے معافی حاصل کرنا چاہتا تھا، ایک ضمیر جو سمجھتا تھا کہ قتل کا حکم دینا صرف احکامات بجا لانے کا معاملہ ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے 14 ستمبر 1977ء مسعود محمود کی استدعا کو قبول کر لیا۔
مسعود محمود کو 14 ستمبر 1977ء کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا اور اسی دن ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ وہ فصیح و بلیغ تھا اور جو کچھ اس نے کہا، وہ غیر متعلقہ تھا۔ پہلے چار صفحات میں اُس نے اپنے کیریئر میں حاصل کیے گئے مختلف عہدوں کا تذکرہ کیا کہ وہ کیسے 21ویں گریڈ تک پہنچے تھے۔ جیسا کہ انڈین پولیس میں انتخاب، رائل انڈین ایئر فورس میں خدمات پھر 1948ء میں ’’اے ایس پی‘‘ سے لے کر بھٹو حکومت میں بنائی گئی وفاقی سیکورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل بننے تک کے سفر کا ذکر۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کے سابق ساتھی سعید احمد خان، وزیرِ اعظم کے چیف سیکورٹی آفیسر اور اُن کے معاون عبدالحمید باجوہ نے اُنھیں بتایا کہ اگر اُنھوں نے ایسا نہیں کیا جیسا کہ مسٹر بھٹو نے کہا ہے، پھر ہوسکتا ہے کہ آپ کی بیوی اور بچے آپ میں سے کوئی نظر نہ آئیں۔
یاد رہے سعید احمد خان کو بہ طور گواہ پیش نہیں کیا گیا اور عبدالحمید باجوہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ مسعود محمود نے کہا کہ بھٹو کافی عرصے سے چاہتے تھے کہ مسٹر قصوری کو قتل کر دیا جائے اور میاں عباس کو پہلے ہی ایسا کرنے کی ہدایت کرچکے تھے، لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ تاہم، جب مسعود محمود نے اُنھیں ایسا کرنے کی ہدایت کی، تبھی قصوری پر گولی چلائی گئی، جس سے قصوری ہلاک ہو گئے۔ مسعود محمود نے اپنے آپ کو اللہ پر یقین رکھنے والے آدمی کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ وہ جانتے تھے کہ کسی کے قتل کا حکم دینا، اللہ کے حکم کے خلاف ہے، لیکن چوں کہ اُنھیں بھٹو کی طرف سے مخصوص احکامات ملے تھے، وہ اللہ کی نافرمانی کرنے کا آلہ کار بن گئے۔ ایک قیمتی انسانی جان لینے کے لیے اللہ تعالا مجھے معاف فرمائے۔
مسعود محمود نے حکمِ الٰہی کی خلاف وزری کی، وجہ اس کی ازدواجی حیثیت بتائی تھی اور اپنے بیان میں کہا کہ اگر میں غیر شادی شدہ ہوتا، تو میں بھٹو کے حکم کی بجاآوری کی بہ جائے نوکری چھوڑ کر سڑک پر چل پڑتا۔
یاد رہے کہ میاں عباس نے ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنا بیان واپس لے لیا تھا، تاہم وفاقی سیکورٹی فورس کے سابق ڈائریکٹر جنرل نواز ٹوانہ کو گواہی کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔
مسعود محمود کی ساکھ کو تسلیم کرلیا گیا اور ٹرائل اور اپیل کورٹس نے اُن پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یقین کیا۔ تاہم، ایسے کئی عوامل تھے، جن سے متنبہ ہونا لازم تھااوراس وعدہ معاف گواہ کے بیان کو پرکھنے والوں کو یہ سامنے لانا چاہیے تھا کہ مسعود محمودصرف اپنی ذات کے لیے کام کرنے والا، خود کو محفوظ رکھنے والا، اخلاقی طور پر دیوالیہ اور جھوٹا گواہ ہے۔ جیسا کہ مسعود محمود نے کہا کہ میاں محمد عباس نے قصوری کو قتل کرنے کے لیے بھٹو کی ہدایات پر عمل نہیں کیا، لیکن اُنھوں نے کوئی وضاحت پیش نہیں کی کہ اُنھوں نے کیوں نافرمانی کی اور اس طرح کی نافرمانی کا کوئی نتیجہ نہیں بھگتنا پڑا۔ تاہم مسعود محمود کے حکم کی تعمیل میاں محمد عباس نے کی، جنھوں نے اس سے قبل وزیرِاعظم کی نافرمانی کی تھی۔ مسعود محمود کی طرف سے پیش کی گئی سازشی تھیوری پر بغیر کسی ثبوت کے یقین کیا گیا۔ مسعود محمود نے بھٹو کی قربانی دے کر اپنی آزادی اور ملک سے باہر جانے کا راستہ محفوظ کیا۔ ایسے شخص کے طرزِ عمل سے ایک ہوش یار آدمی چوکنا ہوگا، لیکن مسعود محمود کی ساکھ پر اُن لوگوں نے سوال نہیں اُٹھایا، جن کا عدالتی فرض تھا کہ وہ اس سے مطمئن ہوں۔
سزائے موت کو راغب کرنے والے تین جرائم، سیکشن 302 یعنی قتل، سیکشن 307 یعنی قتل کی کوشش اور دفعہ 111 یعنی اُکسانے کے بارے میں بھٹو کے خلاف کوئی بہ راہِ راست ثبوت نہیں تھا۔ یہاں تک کہ حالاتی شواہد بھی نہیں تھے، جو بھٹو کی بے گناہی کو رَد کردیتے۔ استغاثہ کا سارا مقدمہ ہی مسعود محمود اور میاں محمد عباس کے بیانات پر بنایا گیا تھا، تاہم میاں محمد عباس اپنے اعترافی بیان سے مکر گئے اور اس کے برعکس گواہی دی۔
عدالت میں منفی فرانزک رپورٹ جمع کروائی گئی، حملے میں استعمال ہونے والے آتشیں اسلحے سے نکالے گئے گولیوں کے خول، فیڈرل سیکورٹی فورس کے زیرِ استعمال کسی بھی ہتھیار سے مماثل نہیں تھے۔ تصدیق کے لیے کوئی مثبت ثبوت پیش کیے بغیر استغاثہ نے دعوا کیا کہ اُنھیں تبدیل کیا گیا تھا۔ بہ ہر حال، استغاثہ کے اس دعوے کو قبول کرلیا گیا اور مزید یہ خیال کیا گیا کہ مبینہ تبدیلی بھٹو کے کہنے پر کی گئی تھی۔ اس سکا ثبوت بھی استغاثہ کے پاس موجود نہ تھا۔ بھٹو کے دفتر میں موجود دستاویزات کو سامنے رکھ کر غیرمعمولی کوشش کی گئی کہ من مانی کا نتیجہ نکال کر مرضی کے معنی نکالے جائیں اور پھر اُنھیں ملزمان کے خلاف استعمال کیا جائے۔ جس طریقے سے ٹرائل کیا گیا، وہ منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے خلاف تھا، اس طریقۂ کار نے معقول شک سے بالاتر جرم قائم کرنے کے بنیادی اُصول کو ختم کر دیا۔ اپیل کورٹ کا اکثریتی فیصلہ، جو 963 پیراگراف پر مشتمل تھا، جو کسی بھی فوج داری مقدمے میں شاید سب سے طویل فیصلہ ہے، نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اپیلٹ کورٹ کے ججوں کی اکثریت نے پہلے یہ مان کر کہ چار شریک ملزمان اور دو وعدہ معاف گواہ ساتھی نہیں، بل کہ گواہ تھے، اور پھر یہ کہتے ہوئے کہ (اس مکمل طور پر غلط مفروضے پر) کہ اُنھیں تصدیق کی ضرورت نہیں تھی۔
مسٹر قصوری نے اُنھیں نشانہ بنانے کا جس مقصد کا حوالہ دیا، وہ مسٹر بھٹو کے ساتھ اُن کے سیاسی اختلافات تھے۔ مسٹر قصوری نے مسٹر بھٹو کی قومی اسمبلی میں 3 جون 1974ء کی تقریر اور اُن کے درمیان الفاظ کے تبادلے کو جرم کا محرک قرار دیا۔ اس مقصد کی تائید کے لیے قومی اسمبلی میں دیگر تقاریر کا بھی حوالہ دیا گیا اور اُن پر انحصار کیا گیا۔
یاد رہے یہ جائز نہیں ہے کہ قومی اسمبلی کی کارروائی پر عدالت انحصار کرے۔ کیوں کہ آرٹیکل 66(1) کے مطابق آئین میں کہا گیا ہے کہ ’’کوئی رکن پارلیمنٹ میں کہی گئی کسی بھی چیز کے سلسلے میں کسی بھی عدالت میں کارروائی کا ذمے دار نہیں ہوگا۔‘‘ اس آئینی شق اور ارکان پارلیمنٹ کو ملنے والے تحفظ پر بھی غور نہیں کیا گیا۔ مسٹر قصوری نے کہا کہ وہ مسٹر بھٹو کے مخالف تھے، پھر بھی اُنھوں نے جو کہا اُس پر یقین کیا گیا۔
قصوری نے اپنے والد کے قتل کا ذمے دار بھٹو کو قرار دیا، لیکن 1977ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پی پی پی کے ٹکٹ کے لیے بھٹو سے درخواست دینے میں کوئی عار محسوس نہ کی تھی۔ قصوری نے کہا کہ مَیں نے اُس سال قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے پی پی پی کے ٹکٹ کے لیے درخواست دی تھی، تاہم مجھے ٹکٹ سے نوازا نہیں گیا۔
یوں مسٹر قصوری نے اپنے بیانیے اور اعتبار کو خود مجروح کیا۔ اُنھوں نے مسٹر بھٹو کی سربراہی میں دوبارہ پی پی پی میں شمولیت اختیار کی۔ جس بھٹو پر اُنھوں نے خود الزام لگایا کہ اُن کے والد پر قاتلانہ حملہ کرکے جان لے لی تھی۔ مسٹر قصوری نے یہ کَہ کر اس تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی کہ اُنھوں نے ایسا خود کو بچانے کے لیے کیا۔ اس وضاحت کو قبول کرنا مشکل ہے، کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب اُن کے والد 1974ء میں مارے گئے تھے، تو اُنھوں نے بہادری سے کام لیا تھا اور سازش اور قتل کے الزام میں وزیرِاعظم کو بہ طور ملزم نام زد کیا تھا، لیکن بعد میں اُن پر بزدلی طاری ہوگئی تھی۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ وہ اپنے والد کے قتل کے بعد نام زد ملزم بھٹو سے پی پی پی کا ٹکٹ کیوں مانگے گا؟ اُس نے جو جواز پیش کیا، وہ ناقابلِ تلافی اور ناقابل یقین تھا۔ ٹرائل کورٹ کے لیے ضروری تھا کہ وہ مسٹر قصوری کی بے ہودہ وضاحتوں کی چھان بین کرتی اور اپیلٹ کورٹ اس سلسلے میں اُن کی ریکارڈ شدہ گواہی کا تجزیہ کرتی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ استغاثہ کے کیس کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ بھٹو نے قصوری کے والد کو قتل کروایا۔ تاہم اُن کے بیٹے احمد رضا قصوری کے طرزِ عمل اور بیانات نے استغاثہ کا کیس بہت حد تک خود ہی خراب کردیا تھا۔
پولیس کو اس جرم کی پہلی اطلاع میجر علی رضا نے دی، جو مقتول قصوری کے دوسرے بیٹے تھے۔ اُنھوں نے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس لاہور اصغر خان کو فون کرکے مطلع کیا…… تاہم اُس وقت ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ پھر جب ایف آئی آر درج کی گئی، تو اس میں میجر علی رضا کا بہ طور شکایت کنندہ حوالہ نہیں دیا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ میجر علی رضا کو بہ طور گواہ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ ٹرائل کورٹ کے ساتھ ساتھ اپیل کورٹ نے اس واضح بے ضابطگی پر توجہ ہی نہ دی۔
احمد رضا قصوری نے جرم کے تقریباً 3 گھنٹے گزر جانے کے بعد ایک تحریری شکایت جمع کروائی، جس میں اُنھوں نے مسٹر بھٹو کا ذکر کیا۔ ایف آئی آر 11 نومبر 1974ء کو صبح پونے 4 بجے درج کی گئی، جس میں میجر علی رضا کی بہ جائے احمد رضا قصوری کو شکایت کنندہ کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ استغاثہ نے الزام لگایا کہ ایف آئی آر کے مندرجات کو بنیاد بنا کر ایک سازش کی گئی تھی، جس کو عدالتوں نے بلاشبہ قبول کرلیا۔
یہ ایک اور پہلو تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے قانون اور آئینی تحفظات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
بھٹو کے ساتھ تمام شریک چھے ملزمان کو جنرل ضیا کے اقتدار سنبھالنے اور ’’مارشل لا‘‘ کے نفاذ کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور اُن سب نے اعترافِ جرم کرلیا تھا۔ اس حیرت انگیز اتفاق کو نہ تو ٹرائل کورٹ اور نہ اپیل کورٹ نے غیر معمولی سمجھا اور نہ کبھی اس بات پر غور ہی کیا گیا کہ آیا یہ اعترافات قابلِ پذیرائی ہوسکتے ہیں؟
ملزمان میں سے دو کو معاف کر دیا گیا اور اُنھیں وعدہ معاف گواہ بنالیا گیا۔ ایک نے ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنا اعتراف واپس لے لیا، لیکن اُسے اپیل کورٹ کے سامنے دہرایا۔ باقی تینوں شریک ملزمان نے اپنے دفاع کے لیے کسی وکیل کی خدمات بھی حاصل نہ کیں، جب کہ ٹرائل کورٹ نے اُن تینوں کی نمایندگی کے لیے ریاستی خرچ پر ایک وکیل مقرر کیا۔
تاہم اُن کے وکیل ہر موڑ پر اپنے مؤکلوں کو قتل کے الزام سے بچانے کی بہ جائے ملوث کرنا چاہتے تھے…… اور ملزمان کے ریاستی وکیل بھٹو اور اُن کے مؤکلوں کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے استغاثہ کے مقدمے کو تقویت دینے میں مصروف عمل دِکھائی دیے، جب کہ ملزمان کے ریاستی وکلا اور ٹرائل کورٹ کا فرض تھا کہ وہ اُن تینوں شریک ملزمان کو سمجھائے کہ اعلا افسر کے حکم کی پابندی کرنا قتل کے الزام کا دفاع نہیں، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں 9 ججوں نے بھٹو کی طرف سے دائر اپیل کی سماعت شروع کی اور 30 جولائی 1978ء تک سماعت کی، جس کے بعد 21 اگست 1978ء کو 7 ججوں نے اس کی سماعت کی اور اُنھوں نے 6 فروری 1979ء کو اپنا فیصلہ سنایا۔
9 ججوں میں سے ایک قیصر خان تھے، جو 30 جولائی 1978ء کو اپنی 65ویں سال گرہ پر سُبک دوش ہوئے تھے۔ آئین کے مطابق ایک ایڈہاک جج کا تقرر اُس کی ریٹائرمنٹ کے 3 سال کے اندر کیا جا سکتا ہے، لیکن اپیل کی سماعت کے باوجود اُسے متعین نہیں کیا گیا۔
اس سلسلے میں اپیل کنندہ یعنی بھٹو کی درخواست پر غور نہیں کیا گیا۔
ایک اور جج، وحیدالدین احمد، اُس وقت بیمار ہوگئے جب اپیل سماعت کے آخری مراحل میں تھی اور اُنھیں صحت یاب ہونے میں تقریباً چھے ہفتے درکار تھے، لیکن کیس کو ملتوی کرنے اور دوبارہ کام شروع کرنے کا انتظار کرنے کی بہ جائے اپیل کی سماعت جاری رکھی گئی اور بالآخر جسٹس وحید الدین احمد کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا دیا گیا۔
یہ بات قابل فہم نہیں کہ جسٹس قیصر خان کو اُن کی سُبک دوشی کے بعد ایڈہاک جج کے طور پر کیوں متعین نہیں کیا گیا اور اپیلٹ کورٹ نے جسٹس وحید الدین احمد کا بینچ میں دوبارہ شامل ہونے کا انتظار کیوں نہ کیا؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر اپیل کورٹ کا فیصلہ متفقہ ہوتا، تو یہ غیر ضروری ہوتا، لیکن جب 4 ججوں نے سزا کو برقرار رکھا اور 3 نے بھٹو کو بری کر دیا، تو یہ انتہائی تشویش ناک بات تھی۔
نئے آئین کے تحت فضل الٰہی چوہدری پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ آئین، صدرِ پاکستان کو کسی بھی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کو معاف کرنے، معطل کرنے یا کم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ صدر فضل الٰہی چوہدری نے اپنی مرضی سے جنرل ضیاء الحق کو خط لکھا تھا، جس میں ماورائے عدالت تحفظات کی وضاحت کی گئی تھی۔
تاہم ہائی کورٹ نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے بھٹو کے وکیل کے ساتھ ناقابلِ فہم برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان حالات میں موجودہ کارروائی میں اس خط کو پیش کرنا اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ ہم اس طرح کی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔
تاہم جو چیز اہمیت کی حامل ہے، وہ یہ ہے کہ صدر فضل الٰہی چوہدری کی جانب سے لکھے گئے خط میں ماورائے عدالت وجوہات کا ذکر کرنے کے باوجود بھٹو کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 45 کے مطابق کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ آئین و قانون کے تابع مناسب عمل کی ایک اور خلاف ورزی تھی۔
جسٹس مشتاق حسین نے قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے لاہور ہائی کورٹ کے اُس بنچ کی سربراہی کی، جس نے بھٹو کو سزا سنائی تھی اور جسٹس انوار الحق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور اُس بنچ کی سربراہی کر رہے تھے، جس نے سزا کو برقرار رکھا تھا۔ ان دونوں ججوں کا عہدہ سنبھالنا کچھ غیر معمولی تھا۔
جب جسٹس اسلم ریاض حسین لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے، تو جسٹس مشتاق حسین کو 13 جولائی 1977ء کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا، جب کہ چیف جسٹس اسلم ریاض حسین کو پنجاب کا قائم مقام گورنر مقرر کر دیا گیا۔ اُنھوں نے 16 جولائی 1977ء کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ چھوڑ دیا اور اُسی دن جسٹس مشتاق حسین سے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پنجاب کے قائم مقام گورنر بن گئے، جنھوں نے ایک قائم مقام چیف جسٹس سے حلف لیا، جو چھے ماہ تک اپنے قائم مقام عہدے پر رہے۔ 16 جنوری 1978ء کو جسٹس مشتاق حسین نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا۔ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ چیف جسٹس کا آئینی عہدہ اتنی طویل مدت تک خالی رکھا جائے۔ قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر عارضی طور پر اور صرف مخصوص حالات میں ہوتا ہے۔ طویل عرصہ قائم مقام چیف جسٹس مشتاق حسین رہنے والے جج کی جانب سے بھٹو کا مقدمہ سننے والے بینچ کی سربراہی نے قابل جواز بدگمانیوں کو جنم دیا۔
بھٹو نے بارہا دعوا کیا تھا کہ جسٹس مشتاق حسین اُن کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور وہ اُن کے تعصب سے متاثر ہیں اور یہ کہ اُنھیں مقدمے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے، مگر بھٹو کے اعتراضات کو مسترد کیا جاتا رہا۔ کیوں کہ جہاں تعصب ہوتا ہے، وہ غیر جانب داری اور درست فیصلہ سازی کو خراب کرتا ہے۔
یاد رہے کہ فیصلوں کی قبولیت کو جنم دینے کے لیے غیر جانب داری ضروری ہے۔ یہ محض کچھ اہمیت کا حامل نہیں، بل کہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے، بل کہ بلاشبہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔
بھٹو نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ جسٹس مشتاق حسین اُن کے ساتھ متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں اور اُن کے خلاف تعصب بھی رکھتے ہیں۔ 24 ستمبر 1977ء کو سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے درخواست خارج کردی کہ پہلے اسے ٹرائل کورٹ میں دائر کیا جائے۔
بھٹو نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جسٹس مشتاق حسین کی بینچ سے علاحدگی کی بابت متعدد بنیادوں پر مبنی درخواستیں دائر کیں، جیسا کہ
٭ جسٹس مشتاق حسین ،پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف متعصب تھے اور اس سلسلے میں اُن کے اخبارات میں شائع شدہ بیانات کا حوالہ دیا گیا۔
٭ ضمانت کی منسوخی کی درخواست جو کہ 13 ستمبر 1977ء کو ہائی کورٹ کے جسٹس صمدانی نے منظور کی تھی، جسٹس مشتاق حسین کی تشکیل کردہ پنج رُکنی ٹرائل کورٹ کے سامنے رکھی گئی اور 8 اکتوبر 1977ء کو ضمانت منسوخ کر دی گئی۔ چوں کہ ضمانت ہائیکورٹ نے دی تھی، تو جسٹس مشتاق حسین کی سربراہی میں قائم ٹرائل کورٹ ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی ضمانت فریقین کو نوٹس جاری کیے بغیر منسوخ نہیں کرسکتی تھی۔
٭ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ قبول کرنے کے بعد جسٹس مشتاق حسین کا قائم مقام چیف جسٹس کا عہدہ ختم ہوگیا۔ کیوں کہ آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کوئی دوسرا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔
٭ مقدمے کی سماعت کے دوران میں متعصبانہ رویے اور تعصب کی مخصوص مثالوں کا بھی ذکر کیا گیا۔
٭ ملزمان کو نوٹس دیے بغیر مقدمے کی سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ منتقلی نے جسٹس مشتاق حسین کے تعصب اور جانب داری کی مزید تصدیق کی۔
٭ انھی حقائق پر نجی شکایت کا مقدمہ ہائی کورٹ کے بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا، تاہم جسٹس مشتاق حسین نے اسے اپنے تشکیل کردہ بینچ کے سامنے رکھ دیا۔
٭ اور یہ کہ جسٹس مشتاق حسین نے آئین کے تحت حلف نہیں اُٹھایا تھا، بل کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے حکم نامے کے تحت حلف اٹھایا تھا، اس لیے اُنھیں آئین کے تحت لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس یا چیف جسٹس نہیں سمجھا جا سکتا۔
پنج رکنی ٹرائل کورٹ بنچ نے متفقہ طور پر بھٹو کی طرف سے دائر درخواستوں کو خارج کر دیا۔ حیران کن طور پر جس جج کے خلاف درخواست دائر کی گئی، وہی جج اس درخواست کو سن رہا تھا۔ جسٹس آفتاب حسین نے حکم نامہ لکھا جس کے ذریعے بھٹو کی درخواستیں خارج کر دی گئیں۔ جسٹس مشتاق حسین نے حکم نامے پر صرف دو الفاظ لکھے: ’’میں متفق!‘‘
اس حکم نامے پر دستخط کرنے والے جج صاحبان نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 216 کی بہ جائے جسٹس مشتاق حسین کا بہ طور چیف الیکشن کمیشن مارشل لا کے تحت حلف اُٹھانے کو جائز قرار دیا اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ججوں نے لکھا کہ اگر جسٹس مشتاق حسین ایسا نہ کرتے، تو یہ نتیجہ نکلتا کہ پاکستان میں اعلا عدلیہ کا وجود باقی نہیں رہا۔ جج کی بینچ سے ہٹانے کی درخواست پر اس طرح کی عصبیت کا اظہار مکمل طور پر ناجائز اور غیر ضروری تھا۔ جج بھول گئے کہ آئین کی پاس داری اُن کی بنیادی ذمے داری ہے۔ ججوں کی طرف سے اس طرح کی بے چینی کا اظہار آئین اور اس کی پاس داری کی ضرورت کو مجروح کرتا ہے۔ عدالتی حکم نامہ کا شہریوں اور سیاسی ڈھانچے پر تباہ کن اثر پڑا، جس نے مطلق العنان حکم رانی کو قبول کیا اور غلامی کی زنجیروں کو اُتارنا مشکل بنا دیا۔
جسٹس مشتاق حسین کی جانب سے ٹرائل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ میں منتقل کرنے، ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ سے زیرِ التوا شکایتی کیس کو ہٹا کر ٹرائل کورٹ، جس کی وہ خود سربراہی کر رہے تھے، کے سامنے طے کرنا غیر معمولی تھا۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے کئی پیراگراف میں تعصب ظاہر تھا۔ غیر ضروری معاملات کو زیرِ بحث لایا گیا، جن کا کسی صورت قصوری قتل کیس سے تعلق نہ تھا۔ طے شدہ طریقۂ کار سے ہٹ کر قانون پر عمل نہیں کیا گیا۔ ٹرائل کورٹ کے ججوں کے حکم نامے میں ایک اور متضاد نوٹ مساوات کی خوبیوں کو بیان کر رہا تھا۔ ’’اسلام مراعات یافتہ طبقات کی تخلیق پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ سب کی قانون کے سامنے برابری پر یقین رکھتا ہے۔ حکم ران اور حکومت یک ساں یہ ہر قسم کی طبقاتی تفریق کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ خلیفہ، بادشاہ، وزیرِ اعظم یا صدر، حاکم کو جس بھی نام سے پکارا جائے، قانون کا اتنا ہی تابع ہے، جتنا کہ کوئی عام شہری۔‘‘
لیکن ججوں نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کی استثنا اور اسے ہر کسی قسم کی آزادی پر کوئی توجہ نہیں دی کہ جس نے ایک مطلق العنان بادشاہ کے تمام اختیارات اپنے اندر سمیٹ لیے تھے۔ اسی طرح اپیل کورٹ نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے ٹرائل کے دوران میں تعصب کو نظر انداز کیا، جو روزِ روشن کی طرح عیاں تھا۔
بھٹو کیس میں عدالتوں کی جانب سے جنرل ضیاء الحق کے غیر آئینی اقدام کو ’’پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کی طرح تعبیر کیا گیا۔‘‘ اپیل کے دوران میں سپریم کورٹ کی جانب سے یہ بتانا بالکل غیر ضروری تھا کہ جنرل ضیاء الحق پاکستانی عوام میں کتنے مقبول ہیں، قتل کی سزا کے برخلاف بھٹو کی اپیل میں سپریم کورٹ کی جانب سے جنرل ضیاء الحق کی عوامی مقبولیت کی پیمایش کرنا سپریم کورٹ کا مقصد نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ، بہ شمول سپریم کورٹ کے تین معزز ججوں نے، جنھوں نے بھٹو کو بری کر دیا تھا، یہ برملا اظہار کیا تھا کہ بنیادی حقوق 5 جولائی 1977ء سے معطل ہیں اور اعتراف کیا کہ بھٹو کو آئین میں درج بنیادی حقوق اور دیگر حاصل حقوق کے تحفظ کے بغیر ہی ٹرائل کورٹ میں مقدمے کی سماعت اور سپریم کورٹ میں اپیل، کارروائی کا انعقاد کیا گیا۔ ذمے داران کی جانب سے مجموعی طور پرمناسب عدالتی عمل اور منصفانہ سماعت کی ہر علامت کو ختم کردیا گیا اور بے گناہوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ عدالتیں، جنھوں نے مقدمے کی سماعت کی اور اپیل کی سماعت کی، آئین کے تحت حقیقی عدالتیں نہ تھیں۔ مملکتِ پاکستان اور عدالتیں، مارشل لا کی گرفت میں تھیں…… اور جب جج آئین کی بہ جائے آمروں سے وفاداری کا حلف اُٹھاتے ہیں، تو عدالتیں عوامی نہیں رہتیں۔
ٹرائل کورٹ، جس نے مسٹر بھٹو پر مقدمہ چلایا تھا اور اُنھیں سزا سنائی تھی، اور اپیل کورٹ، جس نے اُن کی اپیل خارج کر دی تھی، اُس وقت کام کر رہی تھی جب ملک میں کوئی آئین، قانون نہیں تھا اور پورے جمہوری نظام کی جگہ جنرل ضیا نے لے لی تھی اور اس ایک آدمی کی مرضی اور خواہش قانون سازی بن چکی تھی۔ بدقسمتی سے قصوری قتل کیس میں ٹرائل کورٹ اور اپیل کورٹ میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی تعریف کی گئی۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ ملک بچانے کے لیے (منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے والا) قدم صحیح اُٹھایا۔ اس طرح کی ناقابلِ یقین تعریف کے اظہار نے اپیل کورٹ (سپریم کورٹ) کی ساکھ کو مجروح کیا۔ کیا یہ واضح نہیں تھا کہ مجرمانہ فیصلے کا بہ راہِ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوگا؟ اور یہ خوف بھی تھا کہ اگر بھٹو کو بری کر دیا گیا، تو وہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں مقدمہ چلا سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی ذاتی بقا کا انحصار بھٹو کو مجرم قرار دیے جانے پر تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے غاصب اقتدار کے تسلسل کے لیے بھٹو کو سزا سنانے کی ضرورت تھی۔
آمر ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پاکستانی ایٹمی پروگرام کے خالق، منھ زور فتنۂ قادیانیت کو آئینی نکیل ڈالنے والے عالمِ اسلام کے عظیم لیڈر اور عوام کے منتخب وزیرِ اعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا…… مگر وہ بھول گیا کہ کچھ لوگ مر کر بھی اَمر ہوجاتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز کی سربراہی میں قائم عدالتی بینچ کی رائے نے یہ ثابت کردیا کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جس کو ختم کرنے کے لیے آمر ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی آج بھی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے 45 سال بعد آج بھی لوگ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے فلک شگاف نعرے مارتے دِکھائی دیتے ہیں اور افسوس کہ آمروں کا نام لیوا کوئی نہیں۔
دہائیوں سے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کبھی نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو کی شکل میں تو کبھی بلاول بھٹو کی شکل میں زندہ ہے۔ بلا شبہ تاریخ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام سنہری حروف میں درج ہوگا، جنھوں نے بھٹو کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی سازش میں ملوث سازشیوں اور کٹھ پتلیوں کو بے نقاب کیا۔ دعا ہے کہ پاکستان میں آمریت کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہو اور مستقبل میں کسی اور مقبول ترین سیاسی لیڈرشپ سے محروم نہ ہونا پڑے۔
یاد رہے کہ مقبول عوامی راہ نما کو نہ تو عدالتی فیصلے ختم کرسکتے ہیں اور نہ آمروں کی سختیاں۔ آمرانہ سوچ رکھنے والوں کے لیے ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان کی مثالیں بہت واضح ہیں کہ مقبول سیاسی لیڈرشپ اور سیاسی جماعتوں کو کچھ وقت کے لیے دبایا تو جاسکتا ہے، لیکن ان کا نام کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کی کروڑہاں رحمتیں نازل ہوں ذوالفقار علی بھٹو کی قبر پر، آمین!
جمہوریت زندہ باد، پاکستان پایندہ باد!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے