سوات میں 13 اور 14 جولائی کو 24 گھنٹوں میں 5 خواتین کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
13 جولائی کو تحصیلِ کبل دیولئی میں ایک سفاک شخص اپنی بیوی کو معصوم بیٹیوں سمیت قتل کرکے بیرونِ ملک فرار ہوگیا۔
اُس کے اگلے دِن تحصیلِ مٹہ چپریال میں چاربچوں کی ماں کو شوہر نے سرِ راہ گولی مار کر قتل کردیا۔
پولیس دونوں واقعات کو گھریلو تنازع قرار دے رہی ہے، مگر انسانی حقوق کی تنظیمیں، بل کہ عام لوگ بھی اس کو غیرت کے نام پر قتل قرار دے رہے ہیں۔ اس قتل عام پر زیادہ ترلوگوں کا یہی خیال ہے کہ خواتین نے کوئی ایسی ویسی غلطی کی ہوگی اور اُن کو مار دیا گیا ہوگا۔
سوات میں ایک مقامی ادارے ’’دی اویکننگ‘‘ کے مطابق امسال (2004ء) تادمِ تحریر 6 مہینوں اور پندرہ دنوں میں 34 خواتین کو قتل کیا جاچکا ہے۔ قتل شدہ خواتین میں سے 10 کو غیرت کے نام پر قتل کیاگیا ہے۔ اس طرح 7 خواتین نے حالات سے مجبور ہوکر اپنی زندگی کا خود خاتمہ کیا ہے، جب کہ دیگر 21 خواتین کو مختلف وجوہات کی بنا پر قتل کیا جاچکا ہے۔
یہ اعداد و شمار تشویش ناک ہیں۔ اس قتلِ عام پر سول سوسائٹی، سیاسی تنظیمیں اور عام لوگوں کا کوئی خاص ردِ عمل سامنے نہیں آتا۔ اس حوالے سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ’’دی اویکننگ‘‘ کے سربراہ عرفان حسین بابک کہتے ہیں کہ ہمارے سماجی رویوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد اور اُن کی موت لوگوں کے لیے کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ اگر موجودہ واقعات پر نظر ڈالیں، توعام لوگ قتل ہونے والی خواتین پر الزام لگائیں گے۔ ’’یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ تحصیلِ کبل میں ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہوا ہے۔ ایک شخص اپنے ہی گھر کے افراد کو قتل کرتا ہے۔ اس کے بعد مزید ستم یہ کہ قاتل بیرونِ ملک بھاگ جاتا ہے۔ وہ ملک سے بھاگنے میں کیسے کام یاب ہوا؟ یہ اداروں، پولیس اور اس پورے نظام کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔‘‘
’’ خواتین پر تشدد اور قتل کے حوالے سے حکومت کے پاس واضح قانون موجود ہیں۔ سوات میں خواتین کے لیے خصوصی پولیس فورس بھی کام کر رہی ہے۔ تاہم اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہو رہاہے۔ اس طرح کے واقعات سے خواتین اپنے حقوق کا نہ تو دعوا کرسکتی ہیں اور نہ کسی سے انصاف کی توقع ہی کی جاسکتی ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے سیدوشریف میں درس دینے والی ڈاکٹر شازیہ حکیم کا، جس نے ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کے حوالے سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ خواتین کو دفاتر اور کام کی جگہ پر ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ کا سامنا ہے، مگر وہ مردوں کے معاشرے اپنے حقوق کے لیے بات نہیں کرسکتی۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی تین وجوہات ہیں:
’’پہلی وجہ، جن خواتین کو ہراسمنٹ اور دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، وہ بہ امرِ مجبوری اپنے گھر کا چولھا گرم رکھنے کے لیے نوکری کرتی ہے۔ ایسی خاتون کو ڈر ہوتا ہے کہ آواز اُٹھانے سے اُس کی عزت کو نقصان پہنچے گا۔ اُس کو انصاف نہیں ملے گا، اُلٹا اُس کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ دوسری وجہ، اُس کو اپنے گھر والوں کی عزت کی فکر ہوتی ہے۔ گھر پر بھی اُس کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتاہے۔ تیسری وجہ یہ کہ وہ جانتی ہے کہ اختیار مردوں کے پاس ہے۔ اس کے فیصلے دفتر، عدالت یا جرگے میں مرد ہی کرتے ہیں اور زیادہ تر فیصلے خواتین کے خلاف ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ مجبور ہوتی ہے کہ انصاف طلب ہی نہ کرے۔‘‘
اس طرح کے واقعات کی خبریں جب سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا پرنشر ہوتی ہیں، تو اس کے برے اثرات گھریلو خواتین کے ساتھ ساتھ کام کرنے والی خواتین پر بھی پڑتے ہیں۔ اس بارے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نیلم رحیم کا کہنا ہے کہ ’’اس عمل کے بہت برے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں، خاص کر کام کرنے والی اور تعلیم حاصل کرنے والی خواتین پر، ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ وہ اپنے جائز حق کی بات بھی نہیں کَہ سکتیں۔ اپنا حق نہیں مانگ سکتیں۔ اس طرح کئی خواتین اعلا تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیتی ہیں ۔ کیوں کہ وہ ڈرتی ہیں کہ اُن کے ساتھ اس طرح واقعات رونما نہ ہوجائیں۔‘‘
اس حوالے سے حکومتی ادارے کیا کر رہے ہیں اور متاثرہ خواتین کو کس قسم کی امداد فراہم کرتے ہیں؟ ایک تو اس کے لیے باقاعدہ خواتین ڈسک قائم ہے، خواتین پولیس سٹیشن بھی موجود ہیں، حتی کہ خواتین کے لیے مخصوص صوبائی احتساب کمیشن بھی قائم ہے۔ اس حوالے سے سوات میں دارالامان کی ڈائریکٹر نصرت بی بی کا کہنا تھا کہ دارالامان میں متاثرہ خواتین کو پناہ دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’ہم متاثرہ خواتین کا نفسیاتی علاج کرتے ہیں۔ ہم اُنھیں قانونی مدد دیتے ہیں۔ ہم اُنھیں مفت کھانا دیتے ہیں۔ نیز رہنے کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم اُنھیں مختلف فنون سکھاتے ہیں، تاکہ وہ اپنا کام خود کرسکیں اور کمائی کے قابل ہوجائیں۔ اس کے علاوہ مختلف غیر سرکاری ادارے ان متاثرہ خواتین کو قانون، حقوق اور امداد لینے کی تربیت بھی دیتے ہیں۔‘‘
سوات پولیس کے تفتیشی مرکز کے سربراہ ایس ایس پی باچا حضرت کا کہنا کہ پولیس ہر جرم میں قانون کے مطابق کارروائی کرتی ہے اور ملزمان کو جیل بھیجوا دتی ہے۔ عدالت اُن کا فیصلہ کرتی ہے۔
لیکن ایس ایس پی باچا حضرت نے یہ نہیں بتایا کہ پچھلے 5 سالوں میں 100 سے زائد غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے کسی مجرم کو سزا بھی ہوئی ہے؟ اس حوالے سے ’’دی اویکننگ کے سربراہ عرفان حسین بابک کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق غیرت کے نام پر قتل ہونے والے مقدمے میں ملزم کو ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ اس کا راضی نامہ ہوسکتاہے، مگر درجنوں ایسے مقدمات موجود ہیں، جن میں عدالت نے ملزمان کو ضمانت پر رہا کردیا ہے۔ حتی کے راضی ناموں میں اُن کو بری بھی کیا جاچکا ہے۔
13 جولائی کو چپریال میں قتل ہونے والی شادی شدہ چار بچوں کی ماں کے قاتل شوہر کو اُس کے بیٹے کی مدعیت میں پولیس نے گرفتار کیا ہے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بیٹا اپنی ماں کے قاتل جو کہ اس کا باپ بھی ہے، کو ایک لمبی اور اذیت ناک عدالتی کارگزاری کے بعد سزا موت تک لے جاسکے گا، یا اُس کو ایک دستخط کے ذریعے معاف کرکے جیل سے رہا اور مقدمے سے بری کر دے گا؟
یاد رہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والے کا مدعی ریاست ہوتا ہے اور ریاست کسی کے ساتھ کسی بھی جرم میں راضی نامہ نہیں کرتی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔