نوٹ: تحریر میں شامل تصویر حکیم طوطا سنگھ کی نہیں ہے۔
سیدو شریف ’’سیدو بابا‘‘ کی برکت سے آباد تھا اور سیدو بابا کی برکت سے اکثر لوگ آکر بس گئے۔ تصوف کا زمانہ تھا۔ امن، سکون اور پناہ کی تلاش میں غوث الامت حضرت سیدو بابا کے آشیانے کے سائے میں جگہ مل جائے، تو اس سے بڑی برکت کیا ہوتی!
حکیم طوطا سنگھ کو سیدو شریف میں سیدو بابا جی کے تصوف میں گرونانک کے تصوف کا رنگ نظر آتا تھا۔ ریاستِ سوات کے قیام کے بعد شاہی طبیب قرار پائے۔ بہت پاک باز، خوش اخلاق، باعلم اور حکمت میں یکتا تھے۔
سیدو شریف میں رہنے والے نفاست پسند اور خوش مزاج حکیم طوطا سنگھ کو شاہی طبیب کی حیثیت حاصل ہوئی، تو ان کو دربار کا طبیب بھی کہا جانے لگا۔ خود صحت مند تھے اور بلاناغہ روز باقاعدگی سے سیدو شریف سے گورودوارہ صاحب (مینگورہ) پیدل چل کر جاتے۔ عام لوگوں میں اُن کا نام بابا جی مشہور تھا۔ بہت ہی شفیق انسان تھے۔ ہر وقت بچوں کے لیے گل قند جیب میں رکھتے۔ جہاں بچے دیکھتے یا بچے اُن کو دیکھتے، دونوں لپک جھپک کر ایک دوسرے کے قریب آجاتے اور اگلے لمحے بچوں کے منھ میں گل قند ہوتا۔
بابا جی کا حلقۂ احباب وسیع تھا۔ جید علما اور علم دوست لوگ فخر سے ان کی محفل میں بیٹھنے کو پسند کرتے۔ قریبی دوستی انجینئر شوکت علی شرار صاحب کے نانا گل بانڈئی بابا جی صاحب کے ساتھ تھی، جو خود ایک عالم اور صاحبِ حکمت شخصیت تھے۔
گل بانڈئی بابا جی کے اجداد کا تعلق صوابی کے کسی گاؤں سے تھا، جہاں کسی حادثے میں اُن کے اجداد کو وطن چھوڑنا پڑا۔ وہ اپنے علاقے کے مانے ہوئے لوگ تھے۔ صاحبِ جائیداد اور مرتبہ، مگر پشتو دور میں جرگے کا فیصلہ تھا کہ اپنی جائیداد، پہچان اور تعلق چھوڑ کر علاقے سے نکل جائیں اور پھر واپس نہ آئیں ۔
غیرت اور پشیمان پشتون خاندان نے صوابی کو آخری دفعہ دیکھا اور پھر کبھی مڑ کر نہ صوابی کو دیکھا نہ اس کا نام ہی لیا۔ حتی کہ پہچان بھی نئی بنائی۔ علم و حکمت کو گلے لگایا اور ساری زندگی اسی میں گزاری۔
حکیم طوطا سنگھ کا ایک اور بھی کام تھا۔ چوں کہ کراچی سے پہلے بمبئی (ممبئی) صنعتی اور کاروباری شہر تھا۔ اس لیے پورے ہندوستان سے لوگ بمبئی میں روزگار کے لیے جاتے اور شاید ہی کوئی خاندان ہو، جن کا کوئی رشتہ دار یا جاننے والا بمبئی میں نہ رہتا ہو۔ حکیم طوطا سنگھ خط لکھا کرتے تھے اور اس کی کوئی فیس نہیں لیتے تھے۔ چوں کہ خط لکھنے والے سلسلے طویل مدتی ہوتے تھے، اس لیے حکیم صاحب کو سابقہ مضمون اور موضوعات یاد رہتے تھے اور وہ بڑی محبت سے یہ خط لکھتے۔
حکیم طوطا سنگھ کا ایک بیٹا تھا اور اُن کے بیٹے کی بیٹیاں (حکیم صاحب کی پوتیاں) تھیں، جو شگئ سکول میں پڑھی تھیں۔
1948ء میں ایک ہوا چلی کہ ہندو، سکھ مذہب اور ان کی خواتین پاکستان میں محفوظ نہیں۔ اس طرح ہندوستان میں بھی یہی پروپیگنڈا زور سے چلایا گیا۔ سیاست میں ’’مذہبی ٹچ‘‘ بہت شدید تھا۔ اس سے علم و حکمت کیا، اخلاقیات کا جنازہ بھی نکال دیا گیا۔ یوں ایک معاہدہ ہوا اور ڈھیر سارے لوگ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر اپنی دانست میں اپنا مستقبل محفوظ کرنے ہجرت کر گئے۔ چوں کہ حکیم صاحب کے خاندان میں نرینہ اولاد کم تھی، خود اُن کی بیٹیاں جوان تھیں اور پوتیوں کا مستقبل اُنھیں فکر مند کر رہا تھا ۔ حکیم طوطا سنگھ صاحب اس معاملے میں بڑے حساس تھے۔ صرف اسی وجہ سے 1948ء میں اُنھوں نے سوات چھوڑا اور ہندوستان جا کر آباد ہوگئے۔
والی صاحب نے سکھ کاروان کو لنڈاکی کے مقام پر روکا اور سوات کا جرگہ ان کی خدمت میں بھیجا کہ آپ سوات چھوڑ کر نہ جائیں۔ پاکستان کی سیاست میں جو ہو رہا ہے، اس کا سوات سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔
جب اس سے سکھ برادری کا خوف دور نہیں ہوا، تو دوسرا نقطہ یہ رکھا کہ اگر ضرور جانا ہے، تو اَب نہ جائیں، حالات خراب ہیں، مذہبی فسادات ہو رہے ہیں، جب حالات ٹھیک ہوں گے، تو ریاست سوات کی ذمے داری ہوگی کہ آپ کو باعزت طریقے سے ہندوستان پہنچایا جائے۔
سکھ مشران نے اس جرگے کے شرکا کو گلے لگایا اور واپس آکر والی صاحب کو کہا کہ سوات ہمارا وطن ہے۔ ہم اس کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانے والے اور یہاں کی خدمت کو عبادت کی طرح اہمیت دیں گے ۔
مگر حکیم طوطا سنگھ دُکھی دل اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ پہلے ہی خاموشی سے چلے گئے تھے۔
کہتے ہیں کہ وہاں جاکر آباد ہونے والے بہت سے لوگ واپس آئے، تو پھوٹ پھوٹ کر روئے، مگر اب وہ ہندوستان کی شہریت لے چکے تھے۔ اب واپسی ممکن نہ تھی، مگر وطن کی محبت ہمیشہ ان کے سینوں میں تازہ رہی۔
کہتے ہیں کہ حکیم طوطا سنگھ پردے کے بہت قائل تھے۔ احترام ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ مرد اور خواتین دونوں اُن پر اعتماد کرتے اور شفایاب ہوتے تھے۔
حکیم طوطا سنگھ بابا جی 1947-48ئ کے ہنگاموں میں سیدو شریف اور سوات کا سکون کھوگئے۔ یوں سوات ایک وطن پرست عالم فاضل شخص سے محروم ہوگیا۔
جبری ہجرت خواہ تقسیم ہند کے وقت ہوئی یا مئی 2009ء میں، ڈھیر ساری انسانی المیوں کو رقم کرگئی۔ مذکورہ تقسیم نفرت، درد، تکلیف اور روحوں کو کرچ کر گزر گئی۔
جو سکھ آبادی ریاستِ سوات میں رہ گئی، یاد رہے کہ صرف وطن کی محبت نے اُن کو روکے رکھا۔ انھوں نے مذہب کے مقابلے میں آبائی وطن کو چنا۔ غیر یقینی صورتِ حال اور دوسرے درجے کے شہری بننے کا خوف ضرور تھا، مگر پھر بھی آنکھیں بند رکھ کر مٹی کی محبت میں…… آگے کچھ نہ سوچا۔
آئیں، آج حکیم طوطا سنگھ بابا جی اور سوات رہ جانے والے غیر مسلم سواتیوں کو خراجِ عقیدت پیش کریں، جنھوں نے سوات کی محبت میں ہر کسی سے زیادہ قربانیاں دیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔