محترم محمد علی خان گنڈاپور (ریجنل پولیس آفیسر ملاکنڈ ریجن)، اُمید ہے آپ بہ خیر و عافیت ہوں گے۔
محترم! یہ کھلا خط جو آپ پڑھنے جا رہے ہیں، اس سے پہلے محترم ڈاکٹر زاہد اللہ خان (ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر) کے نام روزنامہ آزادی کے ان صفحات کی زینت بنایا جاچکا ہے، جسے بدقسمتی سے بارامہ چوکی کی انتظامیہ نے اپنے خلاف ’’سازش‘‘ کے طور پر لیا اور ہر دکان دار سے دستخط لیے کہ جملہ دکان داروں کو چوکی کے انچارج یا انتظامیہ سے کوئی شکایت نہیں اور یہ کہ ’’امجد علی سحابؔ‘‘ نامی محلے دار نے محض پولیس چوکی کی بدنامی کے لیے ایک اخباری کالم کا سہارا لیا ہے۔
کامریڈ امجد علی سحاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
دکان داروں نے بھی بغیر سوچے سمجھے مذکورہ تحریر پر دستخط کیے۔ نتیجتاً باراما چوکی اور مینگورہ تھانے کی انتظامیہ کے دل میں اب یہ بات گھر کر گئی ہے کہ ’’امجد علی سحابؔ‘‘ ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑا ہے۔ حالاں کہ ایسا کچھ نہیں۔ آپ حضرات میرا ریکارڈ اٹھا کے دیکھ لیں، جہاں بھی کہیں کوئی بے قاعدگی ہوگی، چاہے وہ اس ملک کے طاقت ور ترین ادارے ہی کیوں نہ ہوں، ہم مقدور بھر ہر بے قاعدگی طشت از بام کرتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔
محترم! اپنے منھ میاں مٹھو بننے اور پہیلیاں بھجوانے سے بہتر ہے کہ سیدھا مطلب کی بات کی جائے۔ مَیں اس کھلے خط کے آغاز میں رقم کرچکا ہوں کہ ذیل میں دی جانے والی سطور اس سے پہلے ڈی پی اُو صاحب کی خدمت میں پیش کی جاچکی ہیں،مگر…… اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
اب یہ آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اس بار اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!
’’ہمارا چھوٹا سا محلہ جو تقریباً 100، 120 گھرانوں پر مشتمل ہے، بارامہ چوکی کی حدود میں آتا ہے۔ تین اطراف سے محلے دار یہاں داخل ہوتے ہیں۔ اسے ہماری بدقسمتی پر محمول کیجیے کہ اہلِ محلہ کو ایک دوسرے سے کوئی تکلیف نہیں، مگر محلہ کے ایک داخلی راستے (جو بارامہ چوکی کی طرف سے آتا ہے) پر کچھ دکانیں ہیں، جن میں ایک چھوٹی سی دکان ایک تکا فروش کی بھی ہے۔ مذکورہ د کان میں دیگر محلوں سے اوباش جمع ہوکر آنے جانے والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ خصوصاً محلے کی خواتین جو علاج معالجے یا بازار میں خریداری کی غرض سے گھر سے نکلتی ہیں، اُنھیں سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
جنابِ والا! بارامہ چوکی میں درخواست بھی دی جاچکی ہے کہ ہمارے سکول جانے والے بچوں (لڑکے اور لڑکیوں دونوں) کو مذکورہ اوباشوں سے تکلیف ہے ۔ اہلِ محلہ کو ڈر ہے کہ دیگر محلوں سے آنے والے مذکورہ اوباش جسے تکا فروش اپنی دکان میں بیٹھنے کی باقاعدہ طور پر سہولت فراہم کرتا ہے، کہیں ہمارے بچوں کو جنسی ہراسانی کا شکار بنا کر ہمیں زندگی بھر کے روگ میں مبتلا نہ کردیں۔
جنابِ عالی! ایک اور مسئلہ نہ صرف ہمیں (اہلِ حاجی بابا سیرئی) کو درپیش ہے بلکہ پنجا خان، بارامہ اور دیگر چھوٹے بڑے علاقہ جات کے باسیوں کے لیے بھی دردِ سر بنا ہوا ہے۔ اُس مسئلے کی نوعیت تھوڑی سی مختلف ہے۔ دراصل محلہ پنجا خان اور حاجی بابا سیرئی کے درمیان ایک برساتی نالہ گزرتا ہے۔ محلہ پنجا خان کے حصے میں پکی سڑک آتی ہے۔ اس سڑک پر عین عالم زیب دکان دار کے سامنے ایک دو راہا ہے، جہاں سے ایک راستہ بارامہ چوکی کی طرف نکلتا ہے اور دوسرا شیبر آباد کی طرف۔ یہاں ایک چوک سی بنی ہوئی ہے، جہاں بجلی کے کھمبوں پر بڑا ٹرانس فارمر نصب ہے۔ ٹھیک اس جگہ رکشا سٹاپ ہے۔ سٹاپ کے ساتھ دکان کے تھڑوں پر صبح و شام بارامہ، قونج اور دیگر محلہ جات سے اوباش اور مسٹنڈے جمع ہوکر ہر آنے جانے والی خاتون اور کم عمر لڑکوں کو تاڑتے اور بسا اوقات آوازے کستے پائے گئے ہیں۔ شرفا مذکورہ اوباشوں اور مسٹنڈوں سے دامن بچا کے چلتے ہیں کہ ہر کسی کو اپنی عزت عزیز ہے۔ اس حوالے سے ہم آپ کی خصوصی ہدایات کے منتظر رہیں گے۔‘‘
محترم! آپ کی خدمت میں یہ کھلا خط پیش کرنے کا مقصد کچھ اور نہیں۔ جس وقت میں یہ سطور رقم کر رہا ہوں، رات کے 11 بج رہے ہیں۔ دو گھنٹے پہلے محلے کے شرفا اور مذکورہ اوباش نوجوانوں کے درمیان باقاعدہ ہاتھا پائی ہوئی ہے۔ اہلِ محلہ نے باقاعدہ بارامہ چوکی میں ایک درخواست چھے لفنگوں کے خلاف دے رکھی ہے، مگر مجھے یقین ہے کہ دو تین دن بعد مذکورہ لفنگے ایک بار پھر جمع ہوں گے۔ یوں ہماری مائیں بہنیں اور جگر گوشے ایک بار پھر گھروں تک محدود ہوجائیں گے۔
محترم محمد علی خان گنڈاپور! اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوئی سبیل نکالیں۔ اس سے پہلے کہ محلے کے شرفا تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق قانون اپنے ہاتھوں میں لیں۔
مجھے اُمید ہے کہ آپ اہلِ حاجی بابا سیرئی کے اس تحریری جرگے کو ایک پشتون پولیس آفیسر ہونے کے ناتے قبول فرمائیں گے اور آہنی ہاتھوں سے مذکورہ لفنگوں سے اہلِ حاجی بابا سیرئی کی گلو خلاصی کا سامان کریں گے۔
والسلام!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔