ایک دن کابل میں

Blogger Afzal Shah

گذشتہ دنوں اپنے پڑوسی اور اسلامی ملک افغانستان میں ایک قریبی دوست کی بیمار پرُسی کے لیے کابل جانا ہوا۔ وہاں مَیں نے طالبان کی اماراتِ اسلامی کا طرزِ حکومت اور اپنے ملک اور عوام کے لیے اُن کے اقدامات دیکھے، تو سوچا کیوں نہ اپنے خیالات و مشاہدات اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کروں!
لنڈی کوتل تک مَیں اپنی گاڑی میں گیا، جسے مَیں نے لنڈی کوتل ہی میں اپنے دوست حفیظ اللہ خان کے ڈیرے پر چھوڑ دیا اور اُن کے ہم راہ طورخم کی راہ لی۔ تین دن بعد چوں کہ عیدالاضحٰی کا بابرکت دن آنے والا تھا، اس لیے تورخم بارڈر پر آج غیر معمولی رش نظر آ رہا تھا۔ ایک بات ہم بتاتے چلیں کہ افغانستان جیسے شان دار ملک تک رسائی اتنی آسان ہے کہ ہمیں وہاں پہلے ہی جانا چاہیے تھا، لیکن چلیں آج موقع ملا ہے، تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
افضل شاہ باچا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/afzal-shah/
مَیں نے پشاور میں افغان کونسلیٹ سے ارجنٹ ویزہ لیا، جو معمول کے ویزے کی فیس کی نسبت اُس روز دگنی فیس پر ملا۔ متعلقہ ’’ونڈو‘‘ میں پاسپورٹ دیا اور ایک گھنٹے کے اندر مجھے ویزہ جاری کر دیا گیا۔
طورخم بارڈر کے دونوں اطراف سے ہزاروں لوگوں کا بہ راہِ راست روزگار وابستہ ہے۔ اس بارڈر پر روزانہ کی بنیاد پر اربوں کی تجارت ہوتی ہے۔ چوں کہ میرے دوست حفیظ اللہ خان، افغانستان میں بچپن سے تجارت کر رہے ہیں، اس لیے لنڈی کوتل میں رہتے ہوئے وہ طورخم کے پیچ و خم سے خوب واقف ہیں۔ اس لیے ہمیں یہاں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔ اپنے پاکستان کے امیگریشن سے ہوتے ہوئے افغانستان کے امیگریشن کاؤنٹر کو ہم نے بڑی آسانی سے پار کیا اور اس طرح ہم اماراتِ اسلامی میں داخل ہوگئے۔
طور خم کے بس سٹینڈ پر ہر قسم کی گاڑیوں کی سہولت موجود تھی۔ یہاں پر بھی لاری اڈّا والوں کی روایتی کھینچا تانی کے بعد ہم ایک رجسٹرڈ ٹیکسی میں کابل کے لیے روانہ ہوئے۔ افغانستان میں ٹیکسی کا مخصوس رنگ ہے جو کہ طالبان کی حکومت نے عوام کی سہولت اور حفاظت کے لیے منظم انداز میں وضع کیا ہے۔ ٹیکسی گاڑیوں کا ہلکا نیلا رنگ ہے اور باقاعدہ نمبر پلیٹ کے ساتھ اسے سڑکوں پر رواں دواں رکھنے کی سہولت حاصل ہے۔ چھے بجے کے وقت ہم نے ایک جگہ رُک کر عصر کی نماز پڑھی اور پھر اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔ پبلک اور پرائیویٹ گاڑیوں کے لیے راستے میں جگہ جگہ پٹرول پمپ بنائے گئے ہیں، جن میں ڈیزل اور پٹرول کے علاوہ ایل پی جی کی سہولت بھی موجود ہے۔ وہاں معلوم ہوا کہ افغانستان میں گیس سستی ہے، اس لیے اکثر چھوٹی گاڑیوں میں گیس استعمال کی جاتی ہے جو کہ پڑوسی ملک تاجکستان سے نہایت کم ریٹ پر منگوائی جاتی ہے اور سستی قیمتوں پر ہی پٹرول پمپس کو وافر مقدار میں فراہم کی جاتی ہے۔
طورخم سے کابل 250 کلومیٹر دور ہے، جس کا راستہ عام طور پر چار گھنٹے میں طے کیا جاتا ہے۔ اس حساب سے ہمیں دس بجے کابل پہنچنا چاہیے تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد اندھیرا چھا گیا تھا۔ راستے میں ڈھاکہ، مارکوہ، بٹی کوٹ، ثمرخیل، جلال آباد، لغمان، سروبی، نغلو اور ماہی پر کے پہاڑوں سے ہوتے ہوئے ہم رات کے ساڑھے گیارہ بجے بہ خیریت کابل پہنچ گئے۔ راستے میں جگہ جگہ طالبان کی چیک پوسٹوں پر رُکے، لیکن ہر جگہ تحفظ کا احساس رہا۔ اُن کا رویہ عام لوگوں کے ساتھ انتہائی دوستانہ اور افغانوں کی روایتی مہمان نوازی کا مکمل آئینہ دار تھا۔
صبح اُٹھتے ہی فاختاؤں کی آوازوں سے اندازہ ہوا کہ افغانستان میں واقعی امن ہے۔ اگرچہ کچھ معاملات میں افغان لوگ دوسری دنیا کے مقابلے میں کم زور ہوں گے، لیکن درحقیقت وہ ایک نہایت پُرامن ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سویرے آنکھ کھلتے ہی کانوں میں فاختاؤں کی سریلی آوازوں سے صبح کا آغاز نہایت اچھا لگا۔ ہمارے ہاں تو پرندوں کے دُشمن رہتے ہیں، یہاں تک کہ مہمان پرندوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جاتا۔
جمعے کا دن تھا، اس لیے پورے افغانستان میں چھٹی تھی، جب کہ زندگی کی بنیادی ضروریات کی اشیا کی دکانیں کھلی تھیں۔ ہمارے میزبان کی روایت ہے کہ وہ جمعے کا دن اپنے باغ واقع سبز اولس والی میں گزارتے ہیں، جو کہ کابل سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ باغ لے جانے لگے۔ راستے میں ضرورت کا سامان سبزی اور گوشت وغیرہ لے کر ہم روانہ ہوگئے۔ معمول کے مطابق دوپہر کے کھانے میں آس پاس کے لوگ جو اس باغ میں کام کرتے ہیں، کے علاوہ یار دوست بھی شریک ہوتے ہیں۔ افغانوں کی روایتی خوراک اور مختلف قسم کے فروٹ کھانے کے لیے موجود تھے۔ ہمارے میزبان جن کی بیمار پُرسی کے لیے ہم گئے تھے، افغانستان کی بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں۔ ہمارے ہم سفر اور مہمانوں میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے بچن سنگھ بھی موجود تھے جن کے باپ دادا افغانستان کے شہر کابل میں مقیم تھے، جب کہ بچن سنگھ کا بچپن بھی کابل میں گزرا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اماراتِ اسلامی کی حکومت نے حکم جاری کیا ہے کہ وہ لوگ جو اصل میں افغانی ہیں اور کشیدہ حالات میں ملک چھوڑ چکے ہیں، واپس اپنے ملک آجائیں اور جن لوگوں نے اُن کی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کیا ہے، اماراتِ اسلامی کی ذمے داری ہے کہ اُن کی جائیداد اصل مالکوں کو لوٹا دے۔
بچن سنگھ آج کل دہلی میں رہتے ہیں، وہ اس سلسلے میں افغانستان آئے تھے کہ وہ اپنے باپ دادا کی جائیداد واپس لے سکیں۔ بچن سنگھ بھی ہمارے میزبان کے مہمان تھے جو بچن سنگھ کے والد کے دوست ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کابل ایران شاہراہ اور پاکستان  
کابل سے انخلا کا مشکل فیصلہ  
دریائے کابل کانفرنس  
زندگی کی رونقوں کا شہر تھا کبھی کابل 
کابل بازار میں جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں، جو امن و امان کے سلسلے میں امریکن فوجیوں نے لگائے تھے۔ اماراتِ اسلامی نے امن و امان کی بہ حالی کے سلسلے میں ڈھیر سارے اقدامات کیے ہیں، جن کی وجہ سے جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔
شہر بھر میں مخصوص ہلکے نیلے رنگ کی ٹیکسیوں کے لیے سٹینڈ بنائے گئے ہیں اور ان میں باقاعدہ طور پر ہر جگہ کے لیے کرائے مقرر ہیں، جن پر سختی سے عمل در آمد ہوتا ہے۔ طالبان جگہ جگہ اس کو مانیٹر کرتے ہیں اور کوئی بد نظمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس کے علاوہ پیلے رنگ کی پرانی ٹیکسی بھی شہر میں موجود ہے جن میں ٹاٹا انڈیا کے بنے ہوئے رکشوں کی ایک بڑی تعداد بھی گردش میں ہے۔
بازاروں اور دکانوں میں 60 فی صد اشیا ایران کی بنی ہوئی ہیں۔ افغانستان کی معیشت اور اقتصاد پر ایران کا مکمل قبضہ ہے۔ پہلے زمانے میں یہی اشیا جو کہ زیادہ تر خور و نوش پر مشتمل تھیں، پاکستان سے منگوائی جاتی تھیں لیکن ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے یہ مارکیٹ اَب ہم کھوچکے ہیں۔
ہمارے میزبان دوپہر کے بعد ہمیں کابل کے بازار میں لے گئے، تاکہ ایک تو ہم سیر کرسکیں اور دوسرا شہر کے خط و خال بھی سمجھ سکیں۔ ہم نے بازار میں دیکھا کہ دُکانوں کے سامنے اور روڈ کے کنارے ایک بڑی تعداد میں چھوٹی چھوٹی ہتھ ریڑھیوں میں خرید و فروخت جاری تھی۔ دو دن بعد بقر عید کی وجہ سے مال مویشی بھی ہر جگہ نظر آ رہے تھے۔ ہم اپنے میزبان کے ملکیتی شادی ہال گئے جو ’’ملینز ڈالر‘‘ کی سرمایہ سے بنا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں ایک شادی کی تقریب جاری تھی۔ دو ہزار لوگوں کے کھانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ یہ شادی ہال دو حصوں میں تقسیم تھا: زنانہ اور مردانہ۔ ہم مردانہ حصہ میں گئے۔ چوں کہ افغانستان میں گانا بجانا منع ہے، اس لیے اسلامی ماحول اور رواج کے مطابق شادی ہو رہی تھی۔ سٹیج پر تلاوت، نعت اور دوسرے اسلامی پروگرام جیسے اللہ پاک کے صفاتی نام نہایت میٹھی آواز میں سنائے جا رہے تھے۔ اس دوران میں ہمارے سامنے ایک قاری صاحب کو بلایا گیا، جنھوں نے اللہ پاک کے 99 صفاتی نام نہایت موثر اور سکون بخش آواز میں سنائے۔
ہمیں بتایا گیا کہ اِس وقت حکومتی مناصب پر زیادہ تر پختون تعینات ہیں۔ سرکاری طور پر اگرچہ افغانستان میں پختونوں کی آبادی 40 فی صد بتائی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود دوسری مختلف اقوام جیسے ہزارہ وغیرہ مجموعی طور پر 60 فی صد ہیں، جن کو حکومتی معاملات میں نظر انداز کر دیا گیا ہے، جو افغانستان کے مستقبل کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں۔
افغانستان کو چوں کہ رسمی طور پر کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے، اس لیے بین الاقوامی طور پر وہ انٹرنیشنل بینکنگ سسٹم کے ساتھ وابستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا پورا مالیاتی سسٹم کیش پر چل رہا ہے۔ البتہ افغانستان کے اندر بنک کی سہولیات موجود ہیں، لیکن بیرونی ممالک سے کاروبار حوالے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
شہر میں جگہ جگہ دکانیں برائے کرایہ خالی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن و امان کی بہتر صورتِ حال کے باوجود ملک کی معیشت کم زور ہے۔ اس لیے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں اماراتِ اسلامی کوشش کر رہی ہے کہ بے روزگاری میں کمی آجائے اور عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ زندگی کی بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں، لیکن ایک منظم حکومت کے لیے ہر شعبے کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن طالبان کے پاس ریاستی اُمور بہتر انداز میں چلانے کے لیے ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ پر مشتمل ماہر ٹیم موجود نہیں، مگر طالبان ان شعبوں کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور اس وقت وہ سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ عام لوگوں کو کامل یقین ہے کہ افغانستان جلد یا بہ دیر ترقی کی پٹری پر چڑھ جائے گا، مگر اس وقت طالبان پچھلی حکومتوں کے بنائے ہوئے اداروں کو جوں کے توں چلانے پر مجبور ہیں جن میں اصلاح کی بڑی گنجایش ہے۔
ایک اہم مسئلہ جس کی طرف پوری دنیا کی توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں چوکوں، بازاروں اور دیگر مقامات پر افغان بچے کچرا اُٹھاتے اور بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، طالبان کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان افغان بچوں کو اگر جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے، تو اس سے افغانستان کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ جب تک لوگوں کو باعزت روزگار اور بچوں کو تعلیم اور صحت کی معیاری سہولتیں فراہم نہ کی جائیں، اُس وقت تک کوئی انقلاب، اسلامی امارات یا جمہوری حکومت بے معنی ہوگی۔
ایک بات جو اطمینان بخش ہے، وہ یہ ہے کہ افغانستان توانائی کے معاملے میں ہم سے بہتر ہے۔ جگہ جگہ پٹرول پمپ میں ایل پی جی پاکستان کے مقابلے میں بہت سستی ہے۔ کیوں کہ گیس اور پٹرولیم مصنوعات پڑوس میں ایران اور ترکمانستان سے نہایت کم قیمت پر خریدی جاتی ہیں۔ پاکستان کے پڑوسی کی حیثیت سے افغانستان بھر کے بازاروں اور تجارتی مراکز میں پاکستانی مصنوعات کی بڑی گنجایش ہے، لیکن اس کے لیے جس پالیسی کی ضرورت ہے، وہ ہماری مقتدر قوتیں دانستہ طور پر سول حکومت کو بنانے کی اجازت نہیں دیتیں۔ وہ افغانستان کو اپنی مخصوص تزویراتی پالیسیوں کے تناظر میں دیکھتی ہیں جس کا ہمیں ابھی تک کوئی فائدہ نظر تو نہیں آیا، لیکن اس ناقص پالیسی کی وجہ سے افغان عوام ہمارے دشمن بن چکے ہیں اور موجود اماراتِ اسلامی نے ٹی ٹی پی کے ناراض کارکنوں کو پناہ دے رکھی ہے، جو وقتاً فوقتاً پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں جس کی حالیہ مثال بشام میں چینی انجینئرز اور ورکرز پر خود کُش حملہ ہے، جس میں کئی جانوں کا نقصان ہوا اور اس واقعے نے چین کی ناراضی کے علاوہ عالمی سطح پر پاکستان کو ہزیمت سے دوچار کردیا تھا۔
افغانستان کے عام لوگ پاکستان کے عوام اور حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم نے کرکٹ کے حوالے سے جوانوں کو باتیں کرتے ہوئے سُنا، تو ان کے رویے میں تلخی اور نفرت کا اظہار بہت نمایاں نظر آیا۔ اگرچہ مَیں نے کئی نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جو بھی ٹیم اچھا کھیلے گی، وہی جیتے گی…… لیکن وہ پاکستان سے ہارنے کے لیے قطعاً تیار نظر نہیں آ رہے تھے۔ بہ ہرحال ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اچھے پڑوسی اور اسلامی بھائی کی حیثیت سے ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ افغانستان ہمارا صوبہ نہیں، بل کہ یہ ہزاروں سالوں سے قائم ایک آزاد مملکت ہے۔
افغانستان میں ایک بہت بڑی نہر کھودی جا رہی ہے، جو تقریبا 3 سو کلومیٹر پر مبنی ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ مکمل ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے افغانستان کی بنجر زمینوں کو سیراب کیا جا سکے گا، جس سے افغانستان کی زرعی ضروریات پوری ہوسکیں گی۔ اس نہر کی بہ دولت وہ زرعی اجناس برآمد بھی کرسکے گا۔ عام لوگوں کو یقین ہے کہ آیندہ کچھ سالوں میں افغانوں کی مشکلات کم ہوجائیں گی اور افغانستان ایک مستحکم معیشت کے طور پر دُنیا میں ابھر سکے گا۔
میرا مشاہدہ اور تجزیہ ہے کہ بے روزگاری اور دیگر مشکلات کے باوجود افغانستان کے عوام مطمئن ہیں کہ اماراتِ اسلامی کے عدل اور انصاف سے افغانستان کا مستقبل وابستہ ہے۔ اس لیے وہ اپنی حکومت سے محبت کرتے ہیں۔
افغانستان میں جگہ جگہ نئے باغات اور عمارات بنتی نظر آ رہی ہیں۔ خاص طور پر جلال آباد کے آس پاس بہت بڑی سرکاری زمینوں کو لیز پر دیا گیا ہے جنھیں پرائیوٹ لوگ آباد کر رہے ہیں۔پورے افغانستان کو دیکھنے کے لیے کافی وقت چاہیے، ہم نے تو صرف تورخم بارڈر سے لے کر کابل تک روڈ پر سفر کیا ہے اور ایک دن میں بہت بڑا جہان دیکھا ہے۔ یہ ہماری زندگی کا ایک بہترین تجربہ تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پشاور شہر اور طورخم بارڈر کے درمیان صرف 45 منٹ کا فاصلہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب پختونوں کے درمیان تجارت اور آنے جانے پر اگر کوئی پابندی نہ ہو، تو اس سے پورے خطے کی ترقی اور خوش حالی ممکن ہوسکے گی۔
اگلے روز صبح کابل میں ناشتا کرنے کے بعد ہم پل چرخی کے لاری اڈّے سے طورخم کے لیے روانہ ہوئے اور نمازِ عصر کے وقت اپنی جنم بھومی سوات پہنچ گئے۔
طورخم بارڈر کراس کرنا پلِ صراط یا قیامت کا منظر ہوتا ہے۔ ہر طرف افراتفری، دھول مٹی، سامان کی بے ترتیبی اور بے انتہا شور و غل بارڈر کے دونوں اطراف میں ایک عجیب منظر پیش کرتے ہیں، جن کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کافی نہیں ہوں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس بارڈر کو جدید کمپیوٹرائزڈ طریقے سے بنایا جائے اور دونوں اطراف سے بے ہنگم ہجوم کو نظم و ضبط کا پابند بنایا جائے۔ اس سے ہم دنیا کو اپنے مہذب متمدن ہونے کا احساس بھی دلا سکیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے