پاکستان گھن چکر میں کیوں پھنسا ہوا ہے؟

Blogger Zubair Torwali

کارل مارکس نے برصغیر کے بارے میں کہا تھا کہ اس کی تاریخ بس اس پر مختلف سلطنتوں کی حملہ آوری اور اس پر نو آباد کاری ہی ہے۔
یہ وہ خطہ ہے جہاں پر سکندر مقدومی سے لے کر برطانوی انگریز تک سب نے چھڑائی کی ہے۔ یہاں سے کوئی خاص مزاحمت بھی کبھی نہیں ہوئی۔ گاندھی نے افریقہ سے متاثر ہوکر کچھ مزاحمت دِکھائی، تاہم اُس وقت کی دنیا کی میٹا ہسٹری قومی ریاستوں کی تعمیر تھی اور اس مزاحمت اور بعد میں دونوں ملکوں (پاکستان اور بھارت) کی آزادی کی تاریخ کو بھی برطانیہ اور روس کے بیچ ’’گریٹ گیم‘‘ (Great Game) کا نتیجہ تصور کیا جاتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
برصغیر کی ثقافت اور یہاں کا ذات پات پر مبنی سماج کسی اجتماعی عمل کی طرف لوگوں کو راغب نہیں کرسکتا تھا۔ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے کُل جیسے شجرۂ نسب (Lineage)، ذات پات اور کسبوں میں تقسیم تھے۔ ان کے پاس کوئی اجتماعی وِژن، بیانیہ یا "Ontology/ Episteme” کا وجود نہیں تھا۔ یہاں کوئی مجموعی یا کُلی ایتھنِک شناخت بھی پنپ نہیں سکی کہ وہ "Ontology” بن جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں سارے ہندی (Indic) گروہوں کو بہ آسانی بیرونی حملہ آوروں اور سلطنتوں نے زیر کیا۔
اب ان مختلف گروہوں کو ہندوستان میں ’’ہندوتوا‘‘ اور پاکستان میں ’’اسلامی نظریے‘‘ کے ذریعے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور یوں دونوں کو ان دونوں ملکوں میں واحد "Ontologies” بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح ایک مجموعی ’’عصابیہ‘‘ بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، تاکہ گروپ یک جہتی قائم کی جاسکے۔ عصابیہ "ontology” یا "Episteme” بنانے کے لیے جبر کو روا رکھا جاتا ہے۔
ہندوستان میں اس عصابیہ کو وہاں کے سرمایہ دار قائم رکھے ہوئے ہیں، جب کہ پاکستان میں اس کی ذمے داری فوج نے لی ہے۔ وہاں سرمایہ، دوسرے الفاظ میں بالائی ترقی کی مسابقت، اس رسی کو تھامے ہوئی ہے، جس کی وجہ سے معاشی طور پر ملک کسی ایک سمت میں جارہا ہے، جب کہ یہاں نری عسکریت نے پنجے گاڑ رکھے ہیں، جس کا بنیادی مفاد طاقت کی مرکزیت کو اپنے پاس رکھنا ہوتا ہے۔ یوں پاکستان ایک گھن چکر میں پھنس چکا ہے۔
ذیلی سطحوں پر بھی ’’انڈک ثقافتوں‘‘ (Indic Cultures) سے جڑی اقوام میں کوئی ایسے اتحاد کی صورت نظر نہیں آتی اور نہ ماضی میں رہی ہے۔ یہاں کی ’’نان انڈک قوم‘‘ میں ’’عصابیہ‘‘ کی خواہش زیادہ ہے، جس کو عسکریت سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے اور یوں اس کو گذشتہ 40 سالوں سے مختلف صورتوں میں دبایا ہوا رکھا ہے۔ کیوں کہ ان کی تاریخ میں اس طرح کی عصابیہ بنانے کی مثالیں موجود ہیں۔
لہٰذا مجھے نہیں لگتا کہ اس خطے کی ساری انڈک اقوام، چاہے ہند آریائی ہوں یا اس کی ذیلی شاخیں داردی وغیرہ، میں کبھی کوئی اتحاد جنم لے گا، جو مقامی یا ملکی سطح پر کسی قسم کا اثر چھوڑے گا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے