گذشتہ دنوں بری کوٹ پریس کلب کی تقریبِ حلف برداری کے موقع پر تحصیلِ بری کوٹ کے حوالے سے وقت کی کمی کی وجہ سے مجھے مختصر بات کرنی پڑی تھی، اس لیے ضروری سمجھا کہ اس کالم کے ذریعے تھوڑی سے کھل کر بات کی جائے۔ کیوں کہ تحصیلِ بری کوٹ ہر قسم کے قدرتی وسائل سے مالامال علاقہ ہے۔ اس لیے مَیں یہاں کے وسائل اور مسائل حکومت کے متعلقہ محکموں کے سامنے لانے کی کوشش کروں گا۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر سوات موٹر وے بنتی ہے، تو لوگ بری کوٹ کیوں آئیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کو یہاں آنا پڑے گا۔ کیوں کہ پورے سوات میں سب سے زیادہ آثارِ قدیمہ تحصیل بری کوٹ میں واقع ہیں۔ نیموگرام شموزئی سے لے کر کنڈاک جہانگیر درہ، نجی گرام درہ اور املوک درہ کی وادیوں سے لے کر ناوگئی، کنجر کوٹے اور وادئی غالیگے شنگردار تک پورا علاقہ ہزاروں سال کے قدیم قیمتی آثار سے اَٹا پڑا ہے۔ بری کوٹ کے بازیرہ میں شاید دنیا کے سب سے زیادہ بدھ مت کے آثار موجود ہوں گے۔
افضل شاہ باچا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/afzal-shah/
ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح میں نے سُنا تھا کہ بری کوٹ تحصیل کو آرکیالوجیکل پارک ڈکلیئر کیے جانے کی منظوری دی جاچکی ہے، اس کے اوپر کام تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان تمام سائٹس کو روڈ اور دوسری سہولیات مہیا کی جائیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ یہاں بری کوٹ میں ٹوور ازم غیرمعمولی ترقی کی جانب گام زن نہ ہوسکے۔ یہاں بدھ مت سے متعلقہ ممالک کے افراد کے علاوہ پاکستان کی یونی ورسٹیوں کے طالب علم اور تاریخ پر ’’ریسرچ‘‘ کرنے والے محقق یہاں کا رُخ کریں گے، جن کی سرگرمیاں علاقے کی ترقی اور روزگار کے نئے وسائل فراہم کرنے میں سنگِ میل ثابت ہوں گی۔
اگر دیکھا جائے، تو ملک بھر کے علاوہ سوات کے تعلیم یافتہ نوجوان انتہائی بے روزگاری کا شکار ہیں۔ آئے دن ہزاروں نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں۔ اگر بری کوٹ میں آئی ٹی پارک بنایا جائے، تو اس سے کمپیوٹر سافٹ وئیر میں مہارت رکھنے والے نوجوانوں کے علاوہ ’’فری لانسرز‘‘ کے طور پر اس شعبے سے وابستہ افراد غیرمعمولی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں لاکھوں لوگ اپنے ملک میں بیٹھ کر باہر کی دنیا میں کام کر رہے ہیں، جو کہ اربوں روپے کا زرِ مبادلہ اپنے ملک لا رہے ہیں۔ مَیں حکومت سے یہ مطالبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ تحصیلِ بری کوٹ میں آئی ٹی پارک کی منظوری دے، تاکہ یہاں کے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع ملے اور وہ اس شعبے میں نہ صرف خود روزگار حاصل کرسکیں، بلکہ ملک کے لیے قیمتی زرِ مبادلہ کمانے کا باعث بھی بنیں۔
ایک اور ذریعۂ روزگار یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت لوگوں کو سپورٹ کرکے دریائے سوات کے کنارے ’’’فش فارم‘‘ بنائے۔ اس سے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور اس سے مقامی سطح پر مچھلی کی ضرورت بھی پوری ہوسکے گی۔ کیوں کہ پنجاب سے سوات کے لیے روزانہ منوں کے حساب سے مچھلی آتی ہے، تو کیوں نہ ہم خود یہ کام خود شروع کریں۔ پانی اور جگہ ہمارے پاس وافر مقدار میں موجود ہے۔ ایک مرتبہ اگر تحصیلِ بری کوٹ کے لوگوں کو حکومت یہ موقع فراہم کرے، تو کاروبار اور روزگار کا پھیلاو خود بہ خود شروع ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ دنیا مُرغی کو کھانا بند کر رہی ہے، اس کے متبادل کے طور پر مرغابی فروغ پار رہی ہے۔ ہم دریا کے کنارے ڈک فارم بھی شروع کرسکتے ہیں۔
’’انگورا پراجیکٹ‘‘ ہزارہ میں شروع کیا گیا ہے، جو ایک قسم کا خرگوش ہے، جو ترکی سے منگوایا گیا ہے۔ اس کا اُون نہایت قیمتی ہے۔ یہاں تحصیلِ بری کوٹ اور سوات میں بھی یہ پراجیکٹ شروع ہونا چاہیے، تاکہ لوگوں کو ایک اچھا منافع بخش روزگار مل سکے۔
روزگار کے حوالے سے میں کئی بار مطالبہ کرچکا ہوں کہ تحصیلِ بری کوٹ کی معیشت کا دار و مدار یہاں کے فروٹ کے باغات پر ہے۔ اگر یہاں ’’فروٹ پروسیسنگ زون‘‘ بنایا جائے، تو یہاں کے زمین داروں کو معاشی طور پر آگے بڑھنے کا بہت اچھا موقع میسر آسکے گا۔ وہ مختلف پھلوں کی افزایش کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کریں گے۔ کیوں کہ ’’فریش فروٹ‘‘ کی ’’گریڈنگ‘‘ اور ’’پیکنگ‘‘ کے علاوہ اسے جوس میں تبدیل کرنے سے اس کی عمر بڑھ جائے گی اور یہ مصنوعات ہم باہر کے ممالک میں بھیج سکیں گے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ہمارے فروٹ کا معیار چین اور انڈیا سے بہت اچھا ہے۔ اس طرح ہم فروٹ اور اس سے جڑی مصنوعات دنیا کی بڑی مارکیٹ میں سپلائی کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ اس سے یقیناً اچھا خاصا زرِ مبادلہ کمانے کے مواقع ملیں گے۔ یوں تحصیلِ بری کوٹ میں فروٹ پراسسنگ زون سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ٹوور ازم کے حوالے سے تحصیلِ بری کوٹ میں ’’واکنگ ٹریکس‘‘ بھی نہایت ضروری ہیں۔ ان سے باہر سے آنے والے سیاحوں کے علاوہ مقامی لوگ بھی مستفید ہوں گے۔ فی الحال اگر بری کوٹ کی چھوٹی پہاڑی (غونڈئی) تک ٹریک بن جائے اور جگہ جگہ سیمنٹ کے بنچ او کوڑے دان رکھے جائیں، تو کافی لوگ اس کو انجوائے کریں گے۔ اس سے مقامی طور پر سرکاری آمدن میں اضافہ بھی ہوگا۔ اس کے ساتھ ایلم، بنجیر، نجی گرام اور دوسری جگہوں میں واکنگ ٹریکس ٹوور ازم کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
نیز دریائے سوات کے کنارے بری کوٹ میں ’’پارکس‘‘ بننے سے ٹوور ازم اور روزگار میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح تحصیل بری کوٹ میں دوسرے کئی مقامات پر بھی خوب صورت ٹوور ازم سپاٹ بنائے جاسکتے ہیں۔ جیسے بنجیر ایلم اور دوسرے پُرکشش مقامات تک اگر روڈ کی صورت میں رسائی ممکن بنائی جائے، تو علاقے کی سیاحت میں بہت اضافہ ہوگا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
بریکوٹ ہائی سکول، ریاستی دور کی نشانیوں میں سے ایک
شیر افضل خان بریکوٹی کی یاد میں
اس سلسلے میں نجی گرام درہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس درے کے جنگلات مقامی لوگوں کے اتفاق اور دور اندیشی کی وجہ سے پورے زیریں سوات میں مشہور ہیں۔ یہاں کے گھنے جنگلات میں قدرتی چشمے اور نایاب جنگلی جانور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس ہزار کے لگ بھگ بندروں کے ریوڑ ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں مرغِ زریں اور ہر قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں۔ یہ درہ ’’بائیو ڈائی ورسٹی‘‘ کا ’’ہب‘‘ ہے۔ یہاں ’’میڈیسنل پلانٹس‘‘ کے علاوہ جنگلی سبزیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ حکومت کا وائلڈ لائف محکمہ اس جانب توجہ دے۔ یہاں پر رکھوالی کے لیے سرکاری سطح پر اہلِ کار تعینات کیے جائیں، تاکہ پڑوس سے غیر قانونی شکار کرنے والے لوگوں کو روکا جاسکے۔ اس کے علاوہ یہاں پر جنگلی جانور چھوڑ کر ان کی افزایشِ نسل کی جائے، تاکہ مستقبل میں یہ علاقہ ’’ہَنٹنگ‘‘ کے لیے تیار کیا جاسکے۔ اس سے ’’ہَنٹنگ ٹوور ازم‘‘ شروع ہوسکے گی۔
ہم ایک عرصہ سے سُن رہے ہیں کہ حکومت ’’ایلم پہاڑ‘‘ کو نیشنل پارک کے طور پر ’’ڈی کلیئر‘‘ کررہی ہے، جس کے لیے ابتدائی انتظامات مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ تحصیلِ بری کوٹ کے لیے اچھی خبر ہے۔ اس سے علاقے کے ٹوور ازم پر مثبت اثر پڑے گا۔ ’’ایلم‘‘ پہاڑ میں ’’جوگیانو سر‘‘ تاریخی طور پر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں پر رام چندرجی نے بن باس کیا تھا۔ سٹیٹ کے دور میں یہاں پر سالانہ میلا ہوا کرتا تھا۔ دور دور سے ہندو برادری بیساکھ کے مہینے میں میلے میں شرکت کے لیے یہاں آتے تھے، جو مقامی لوگوں کے لیے ایک معقول روزگار کا باعث بنتا تھا۔ زیارت کے لیے آنے والے عمر رسیدہ لوگوں کو پیٹھ پر لاد کر اوپر پہاڑ تک لے جایا جاتا تھا۔ ان کے سامان بھی ’’پورٹر‘‘ اُٹھا کر پہاڑ کی چوٹی تک لے جاتے تھے، جس سے علاقے کے متعلقہ لوگوں کو اچھا خاصا روز گار میسر آتا تھا۔
میری تجویز ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے اگر ایلم پہاڑ کی چوٹی ’’جوگیانو سر‘‘ تک کیبل کار کی تنصیب ممکن بنائی جائے، تو یہ تحصیل کی ٹوور ازم کے لیے نہایت اچھا ہوگا۔ لوگ دور دور سے یہاں سیر و تفریح کے لیے آئیں گے، جب کہ ہندو برادری ملک کے اندر اور بیرونی ممالک سے یہاں اپنے مقدس مذہبی مقام کی زیارت کے لیے آئے گی۔ یہ پاکستان کے مذہبی ٹوور ازم کے حوالے سے ایک نہایت فائدہ مند منصوبہ ہوگا۔
تحصیلِ بری کوٹ اس وقت منشیات کی زَد میں ہے۔ اگرچہ مقامی پولیس اور انتظامیہ اس کے تدارک کے لیے کوشش کر رہی ہے، لیکن نتیجہ اس لیے صفر ہے کہ اب بھی علاقے میں ہر قسم کی منشیات وافر مقدار میں فروخت ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں عوام کا تعاون انتہائی ضروری ہے، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی نیا افسر یہاں تبدیل ہوکر آتا ہے، تو وہ محض اپنی دھاک بٹھانے کے لیے کارروائیاں کرتا ہے، لیکن بعد میں یہ کارروائیاں دَم توڑ دیتی ہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ پالیسی کے طور پر ’’زیرو ٹالرینس‘‘ ہو، تاکہ نوجوان نسل کے مستقبل کو بچایا جاسکے۔ تحصیلِ بری کوٹ کے عوام اس تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
تحصیلِ بری کوٹ کا ایک اور اہم مسئلہ یہاں کے گڈ گورننس کا ہے۔ پچھلے دنوں تحصیل کے دفاتر، جو بلڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے ابوہا میں عارضی طور پر موجود ہیں، میں 10 بجے تک متعلقہ اہلِ کار اپنی ڈیوٹی پر موجود نہیں تھے۔ اس سلسلے میں، مَیں نے ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی، لیکن کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اگر تحصیل میں بائیو میٹرک سسٹم نصب کیاجائے، تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ بائیو میٹرک سسٹم لگانے پر زیادہ سے زیادہ 30 ہزار روپے کی لاگت آئے گی، لیکن اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوگا۔ اس سلسلے میں تحریکِ انصاف کی حکومت سے درخواست ہے کہ جو سرکاری لوگ کرپشن میں ملوث ہیں یا ڈیوٹی ایمان داری سے ادا نہیں کر رہے ہیں، تو ان لوگوں کو فی الفور تحصیل بدر کیا جائے اور یہاں ایسے سرکاری افراد کی تعیناتی ممکن بنائی جائے، جو عوام کے خادم بن کر عوام اور علاقے کی خدمت کریں۔
تحصیل بری کوٹ کے لیے ہم ایک کمیونٹی سنٹر کے قیام کا بار بار مطالبہ کرچکے ہیں، لیکن ہمارے مطالبے کو کوئی پذیرائی ابھی تک نہیں مل سکی۔ اگر یہ سنٹر بنایا جائے، تو عوام کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس سنٹر میں لائبریری کے علاوہ ایک بڑا کمیونٹی ہال ہو، جس میں علاقے کے لوگ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات منعقد کرسکیں۔ اس کے علاوہ مشاعرے، سیمینار، اِنڈور گیموں کے ساتھ ساتھ یہاں دیگر صحت مند سرگرمیاں شروع ہوسکیں گی۔ اس مقصد کے لیے دریا کے کنارے تبلیغی مرکز کے آس پاس بہترین جگہیں موجود ہیں۔
آخر میں پوری دنیا اور پاکستان سمیت تحصیلِ بری کوٹ موسمی تغیر کے خطرات اور اثرات سے دوچار ہے۔ اس سال تیز بارشوں کے ساتھ ساتھ ژالہ باری کی وجہ سے باغات اور دیگر فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ دریائے سوات کے کنارے اور دیگر نالہ جات میں تجاوزات ختم کی جائیں، تاکہ سیلاب کی صورت میں نقصانات نہ ہوں۔ اس کے علاوہ نئے جنگلات لگائے جائیں اور موجودہ جنگلات کی کٹائی پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے۔ نیز تحصیلِ بری کوٹ کے تمام دروں میں فوری طور پر بارانی ڈیم بنائے جائیں، تاکہ ایک طرف پانی ذخیرہ ہو اور دوسری طرف سیلاب کو روکا جاسکے ۔ ضرورت کے وقت یہ پانی ’’ایری گیشن‘‘ کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔
اس سلسلے میں فرینڈز آف سوات جو کہ غیر سرکاری تنظیم ہے، اپنے طور پر آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ سیمینار منعقد کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔