جب قانون نافذ کرنے والے یہ سمجھنے لگیں کہ قانون کے نفاذ کے لیے اس کو توڑنا، مروڑنا یا صریحاً اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنا کوئی معیوب بات نہیں، تو سمجھیں کہ دال میں کچھ کالا ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہے۔
کچھ اس قسم کی دال کا نظارہ راقم نے اپنی ایک پیدل سیر سے واپسی پر بہ ذاتِ خود رواں ماہ 4 مئی 2024ء کی شام کو ملاحظہ کیا۔ ہوا کچھ یوں کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس دو افراد ایک 20، 22 سالہ نوجوان کو پکڑ کر پہاڑ سے سڑک کی جانب گھسیٹ رہے تھے۔ محلے کے کچھ نوجوان بھی ساتھ چل کر نوجوان کو چھڑانے کے لیے منتیں کر رہے تھے، لیکن سادہ کپڑوں میں ملبوس مذکورہ افراد کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔
طالع مند خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/taliman/
پہلی نظر میں تو مجھے یوں لگا کہ شاید مذکورہ نوجوان نے کسی سے جھگڑا کیا ہے، اور باقی لوگ بیچ بچاو کرکے اُسے لے جارہے ہیں، سو مَیں نظر انداز کرکے آگے گیا، لیکن تھوڑی دور چلنے کے بعد پولیس، چوکی اور چرس جیسے الفاظ سن کر واپس مڑگیا۔ پوچھنے کے بعد پتا چلا کہ سادہ لباس والے ننگولئی چوکی کے پولیس اہل کار تھے، جو نوجوان کو چرس پینے کے الزام میں راستے ہی سے پکڑ کر اور اسے گھسیٹ کر لے جارہے تھے۔ میرے لیے یہ منظر دردناک ہونے کے ساتھ ساتھ حیران کن بھی تھا۔ یوں اس موضوع پر اگلے دو دنوں میں مذکورہ ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر سیاسی و صحافتی حلقوں، چرس استعمال کرنے والوں اور اس مد میں پولیس کے ہاتھوں چڑھنے والوں سے مزید معلومات حاصل کیں، جو کسی کے بھی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہیں۔ البتہ اس موضوع پر ایک باقاعدہ وسیع اور گہری تحقیق کی ضرورت ہے، لیکن پولیس سے بچ کے۔
قارئین، ستم ظریفی یہ ہے کہ غلامی کی مملکتِ خداداد میں عموماً اور اس خطے میں خصوصاً یہ تاریخ اور روایت نہیں رہی ہے کہ کوئی بھی قانون کسی سائنسی تحقیق یا حقیقی عوامی مطالبے کے نتیجے میں عوام الناس کی ضروریات یا مفادات کی بنیاد پر بنایا گیا ہو، بلکہ مخصوص سیاسی قوت، مقصد اور طبقے کے مفادات سامنے رکھتے ہوئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ یوں اُسی انداز میں ان کا نفاذ بھی ہوتا ہے۔ جب قوانین زمینی حقائق، عوام کی اُمنگوں، اقدار و روایات، ضروریات اور مفادات پر مبنی نہ ہوں، تو نتیجہ سیاسی و سماجی انتشار، منافقت اور اخلاقی و کردار کی پستی کی شکل میں نکلتا ہے۔
قارئین! چلئے، پہلے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر سوات میں پولیس کی منشیات کے خلاف مہم، اس میں ’’خصوصی دل چسپی‘‘ کی وجہ، چرس ہی پر اس کی تان کیوں آکر ٹوٹتی ہے اور اس مقصد کے لیے کس قسم کے ’’طریقہ ہائے واردات‘‘ اپنائے جاتے ہیں، اس پر بات کرتے ہیں۔
قارئین! بنیادی حقیقت یہ ہے کہ سوات تاریخی طور پر ایک پُرامن اور مترقی علاقہ رہا ہے۔ جب بھی یہاں کوئی بگاڑ پیدا ہوئی ہے، تو وہ بیرونی ہاتھوں نے سیاسی اور تذویراتی مقاصد کے حصول کے لیے پیدا کی ہے۔ اس پر تحقیق و تحریر کا عمل ہوچکا ہے اور مزید بھی ہوسکتا ہے۔ جب تک ریاستِ سوات قائم تھی، سوات میں جرائم کی شرح تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سوات میں اَب بھی دوسرے اضلاع کی نسبت جرائم کی شرح کم ہے۔ اس لیے ڈھونڈ ڈھانڈ کے پولیس کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے منشیات رہ جاتی ہے اور منشیات میں بھی صرف چرس۔
ہر ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ اُو (خصوصاً نئی تعیناتی کے بعد) کو اپنے اپنے ماتحتوں سے کارکردگی چاہیے ہوتی ہے، جس کو اب محکمانہ زبان میں پرگراس کہتے ہیں۔ اس لیے مقامی انچارج سادہ لباس میں پولیس اہل کاروں کی ڈیوٹیاں لگاتا ہے اور وہ شکاری انداز میں اپنے ’’بیٹ‘‘ (Beat) میں شکار پر نکلتے ہیں۔ کچھ چرس استعمال کرنے والوں کی معلومات اُن کے پاس ہوتی ہیں۔ وہ اُن کو جہاں بھی نظر آتے ہیں، جامہ تلاشی کے عمل سے گزارتے ہیں۔ ساتھ ساتھ جو بھی اُن کو مشکوک نظر آتا ہے، وہ بھی دھر لیا جاتا ہے۔ اس قسم کے شکار کی ڈیوٹی کا کوئی روزنامچہ یا ریکارڈ میں روانگی یا ریکارڈ پہلے سے نہیں ہوتا، لیکن بعد میں بہ وقتِ ضرورت اندراج ہو بھی جاتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ پکڑنے والے کے پاس چرس بہ ہر صورت موجود ہو۔ یہ سہولت بھی پولیس اہل کاروں کے پاس موجود ہوتی ہے۔ بس ضروری یہ ہے کہ وہ چرس پینے والا ہو اور کوئی اُس کا پوچھنے والا نہ ہو۔
ایک چرس استعمال کرنے والے کے بہ قول، ’’ہمارے ساتھ جتنا مال پولیس برآمدگی میں دِکھاتی ہے، اُتنے کے لیے تو ہم ترستے ہیں۔‘‘
یہ واردات اُس وقت زیادہ شدت اختیار کرتی ہے، جب صاحب لوگوں کو پراگریس کی اشد ضرورت ہو۔ ذکر شدہ میرے گاؤں والے واقعے میں، مَیں نے پولیس سے پوچھا کہ آپ یہ کس قانونی اختیار کے تحت کر رہے ہیں؟ تو وہ پریشانی کے عالم میں بولا: ’’روانگی……!‘‘ مَیں نے پوچھا، روانگی کیا ہے؟ اس کے ساتھ ہی اُس نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا کہ فون کرو۔ اُس کا ساتھی ایک طرف ہوکر فون کرنے لگا۔ یہ روانگی کی واردات ڈالنے اور مزید نفری بلانے کے لیے تھا۔ دھرا گیا نوجوان چیخ چیخ کر بول رہا تھا کہ اُس کے پاس چرس نہیں تھی۔ ساتھ موقع پر موجود لوگوں بھی گواہی دے رہے تھے کہ پولیس نے اُس سے چرس برآمد نہیں کی۔ ہاں، البتہ جب اے ایس آئی نفری کے ساتھ پہنچ گیا، تو سادہ لباس میں ملبوس ایک مبینہ پولیس نے جیب سے ایک پڑیا نکال کر کہا، ’’جناب! یہ مَیں نے برآمد کیا ہے۔‘‘ برآمدگی جس انداز اور مقدار میں دکھائی جا رہی تھی، اس پر یقین کرنا دیوانے کی بڑ کے مترادف تھا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
اہلِ حاجی بابا سیرئی کا ڈی پی اُو سوات کے نام کھلا خط
سوات پولیس کی پریس ریلیز اور زمینی حقائق
فتح پور سوات، پُرامن مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ
ٹریفک پولیس سوات
رات کی تاریکی میں پولیس چوکی تلیگرام پر دہشت گردوں کا حملہ
قارئین! بعض اوقات جب پراگریس کی زیادہ ضرورت نہ ہو، تو پکڑنے والے کے ساتھ پرچہ کرنے سے پہلے ہی مک مکا ہو جاتا ہے اور عدالت میں پیش کرنے کی نوبت نہیں آتی، لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب جیب میں ضرورت کے مطابق کچھ ہو۔
عدالتوں میں پیش کیے جانے والوں کی اکثریت مزدور پیشہ اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ اس لیے پولیس کا بس اُنھیں پر چلتا ہے۔ کیوں کہ یہی کام اگر اشرفیہ کرتی ہے، تو فیشن، عیش اور سرور ہے۔ متوسط طبقہ کرتا ہے، تو انتشار ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ آج تک کسی جج نے چرس پینے کے جرم میں پیش کیے ہوئے خصوصاً نوجوان کے ساتھ لعن طعن اور سزا کے علاوہ کچھ معلوماتی بحث یا مکالمہ بھی کیا ہے۔ کیا متاثرین میں سے کسی کو ماہرِ نفسیات کی طرف بھیجا ہے، کیا یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس فعل کی وجہ کیا ہے، ان کی خاندانی و معاشی صورتِ حال کیا ہے؟ خیر، یہ کام تو وہ ریاستیں کرتی ہیں، جو ماں جیسی ہوتی ہیں۔ تاہم ان نوجوانوں میں زیادہ تر وہ ہیں، جن کا مقصد کسی خلیجی ملک میں جاکر روزی روٹی کمانا اور اس ملک کی اشرفیہ کی عیاشیوں کے لیے زرِ مبادلہ کماکر بھیجنا ہوتا ہے۔
قارئین! یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس ملک میں جتنا زرِمبادلہ آتا ہے، اُس میں زیادہ مقدار یہی خلیجی ممالک میں مزدوری کرنے والے بیچتے ہیں، لیکن یہاں کی پولیس برآمد کی ہوئی 5 گرام چرس کے ساتھ 20 گرام اپنے پلے سے رکھ کر عدالت سے سزا دِلوا کر انھیں مجرم بنا دیتی ہے۔
یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ کیا جعلی ادویہ، کیمیکلز سے بنے ہوئے دودھ، دو سے لے کر دس نمبر تک ملاوٹ شدہ بناسپتی اور خوردنی تیل، بوتل میں بند کیا ہوا بچنے والا پانی، ہر دُکان میں دست یاب زہریلی چپس تک چرس سب سے کم مضرِ صحت ہے۔
یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ سوات میں تو چرس نہیں بنتی، پھر اسے یہاں تک کون اور کس طرح پہنچاتا ہے؟ جن تھانوں کی حدود میں چرس نایاب ہوجاتی ہے اور پراگریس نہیں بنتی، تو متعلقہ تھانے دار کو کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں، تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے؟ عدالتوں میں دوسری منشیات کی نسبت چرس کے مقدمات کی بہتات کیوں ہے؟ اگر کسی آزاد و غیر جانب دار سائنسی تحقیق (ادویہ ساز کمپنیوں والی نہیں) نے چرس کی ایک خاص مقدار کو مضرِ صحت قرار نہیں دیا، مذہب بھی اس کو کھلے طور پر حرام قرار نہیں دیتا اور صوفیا اس کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں، عوام کی اکثریت بھی اس کو مضر نہیں سمجھتی، تو اس پر پابندی کس کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے اور اس مد میں پولیس کی اتنی پھرتی کیوں ہے؟
اس کے علاوہ یہ بات بھی تحقیق طلب ہے کہ عام آدمی کے علاوہ کون سے محکمے اور پیشے میں منشیات خصوصاً چرس کا استعمال زیادہ ہے؟ محکمۂ پولیس کو تو سالانہ اپنے تمام عملے کا ڈوپ ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ کیوں کہ یہی محکمہ اس قانون کا نفاذ کرتا ہے۔
قارئین! منشا ہر گز چرس پینے کی دلالت یا وکالت کرنا نہیں، لیکن بعض قوانین بھی آسمانی اور مطلق نہیں۔ یہاں اس بات کا تعلق بھی تاریخ سے ہے۔ ریاستِ سوات کے دور میں بالغوں کے لیے چرس پر کوئی پابندی نہیں تھی، لیکن اس کی خرید و فروخت ریاست کی طرف سے ریگولرائزڈ تھی۔ اس کا باقاعدہ لائسنس ہوتا تھا، جس کو سوات میں ’’ٹھیکا‘‘ اور بیچنے والے کو ’’ٹھیکے دار‘‘ کہتے تھے۔ یہ ٹھیکا اور ٹھیکے دار تقریباً ہر گاؤں ہوتے تھے اور یہ سلسلہ ریاستِ سوات کے بعد 1980ء کے عشرے کے وسط تک چلتا رہا۔ مجھے اپنے گاؤں کا ٹھیکے دار چرس بیچتے ہوئے آج بھی یاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چرس کو سوات میں نسوار کی طرح بے ضرر چیز سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ اگر چرس مضر ہوتی، تو والئی سوات اس کی اجازت نہ دیتے۔ تاریخ آج والی صاحب کی دور اندیشی اور فہم و فراست درست ثابت کر رہی ہے۔ کیوں کہ جن طاقت ور مغربی ریاستوں کے دباو پر پاکستان نے 70ء اور 80ء کے عشروں میں قانونی پابندی یا سختی لگائی، آج وہی ممالک چرس اور بھنگ پر سے پابندی اُٹھا رہے ہیں۔ ہالینڈ اور بلجیم نے پہلے یہ پابندی ختم کی تھی اور شمالی امریکہ کی کچھ ریاستوں اور جرمنی نے حالیہ وقتوں میں یہ پابندی ہٹائی ہے۔
اگر دیکھا جائے، تو 70ء اور 80ء کے عشروں میں مغربی دنیا کی کمیونیزم کے خلاف جنگ عروج پر تھی۔ اُس جنگ میں منشیات کی سمگلنگ، جس میں اُن ممالک اور اُن کے اتحادی ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کا کسی نہ کسی حوالے اور اس سے حاصل شدہ دولت کا بڑا کردار تھا۔ کیا اُس وقت یہ بہ ظاہر پابندیوں اور سختیوں کا عمل اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تو نہیں تھا؟
عین اسی طرح بھٹو نے سیاسی مصلحت کے تحت خود شراب کے عادی ہوتے ہوئے بھی شراب پر پابندی لگائی تھی۔ اَب اس تحقیق کی بھی ضرورت ہے کہ ریاستِ سوات کے دور میں جب چرس پر پابندی نہیں تھی، تو کتنی فی صد آبادی چرس پیتی تھی اور اب پابندی کے بعد یہ تناسب کتنا ہے؟ اندازے کے مطابق پابندی کے بعد یہ تناسب بڑھ گیا ہے۔
اس طرح پاکستان میں شراب نوشی کی مثال ہے کہ پابندی کے بعد اس کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے اور قیمتیں بھی…… لیکن اگر اس کے سماجی اور اخلاقی اثرات دیکھیں، تو ان پابندیوں کے بعد اس میں زوال آیا ہے۔ آج ہم بد عنوانی اور بے ایمانی کی فہرست میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ عقیدہ، اخلاق اور قومیں سخت قوانین سے نہیں بلکہ شخصی و اداراتی کردار سازی سنوارا کرتی ہیں۔
ضروری نہیں کہ پولیس یہ مقولہ سچ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے کہ ’’تیسری دنیا کی پولیس کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے جرائم کا ہونا ضروری ہے۔‘‘
یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ پولیس گردی سے عوام، خصوصاً غریب طبقے کے تحفظ کے لیے جو بھی ادارہ بنتا ہے، اس کے سربراہ سے لے کر ارکان تک پولیس اور انتظامیہ کے ٹاوٹ ہوتے ہیں۔ سیاسی اور منتخب لوگوں کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کے ادارے، انتظامیہ اور پولیس کے اثر سے آزاد ہوں۔ اس کے علاوہ سماجی اداروں خصوصاً بار ایسوسی ایشن، پریس کلب، محققین اور دانش وروں کو اس قسم کے موضوعات پر عوامی سطح پر علمی مباحثے منعقد کرنے چاہئیں۔ اس کا مقصد قانون نافذ کرنے والوں کی من مانی سے عوام کا تحفظ اور قوانین پر فیڈ بیک اور تجاویز دینا اور اس کے لیے ’’ایڈواکیسی‘‘ بھی ہو۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
