’’دُلھن‘‘ (ہندی، اسمِ مونث) کا اِملا عام طور پر ’’دُلہن‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’نور اللغات‘‘، ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘، ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘، ’’جامع اُردو لغت‘‘ اور ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ کے مطابق دُرست اِملا ’’دلھن‘‘ ہے، جب کہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘،’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘، ’’حسن اللغات‘‘ اور ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘کے مطابق ’’دلہن‘‘ دُرست ہے۔
کامریڈ امجد علی سحابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
اس طرح رشید حسن خان کی مرتبہ ’’کلاسیکی ادب کی فرہنگ‘‘ اور ’’فیرو ز اللغات (جدید)‘‘ کے مطابق دونوں طرح کا اِملا (یعنی ’’دلھن‘‘ اور ’’دلہن‘‘) دُرست ہے۔
’’فرہنگِ اثر (حصۂ سوم) نے اس حوالے سے ایک لوری کا حوالہ دیا ہے، ملاحظہ ہو: ’’دلھن مانگے مسّی پلاؤ، بھیّا کہے اپنے گھر کو جاؤ، دلہن گئی پھول، بھیّا کی گئی سٹی بھول۔ (بچے کے کھلانے کی لوری)‘‘ عجیب بات یہ ہے کہ لوری کے اوّل میں اِملا ’’دلھن‘‘ جب کہ آخر میں ’’دلہن‘‘ رقم ملتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
دولھا
شاکر، متشکر یا مشکور؟  
سیدھا سادھا
ٹھہرنا
آبا و اجداد  
رشید حسن خان کی کتاب ’’اُردو اِملا‘‘ (مطبوعہ ’’زُبیر بُکس‘‘، سنِ اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 254 پر ایک لمبی بحث کے بعد نچوڑ اِن الفاظ میں پیش کیا گیا ہے: ’’مختصر یہ کہ ’دلھن‘ کو واو کے بغیر لکھا جائے گا اور ’دولھا‘ کو مع واو لکھا جائے گا۔ ضرورتِ شعری کی بات دوسری ہے۔‘‘
’’دلھن‘‘ کے معنی ’’عروس‘‘ یا ’’زوجہ‘‘ کے ہیں۔
اس حوالے سے صاحبِ نور نے حضرتِ جلالؔ کا ایک شعر درج کرکے ’’دلھن‘‘ پر گویا مہرِ تصدیق ثبت کی ہے، ملاحظہ ہو:
کیا شرمگیں نگاہ سے کہتا ہے دل نہ پوچھ
راز و نیاز یار دولھا دُلھن کے ہیں
اس طرح حضرتِ امیرؔ کا شعر بھی نور اللغات ہی میں درج ہے، ملاحظہ ہو:
چلی ہے دُلھن بن کے کیا تیغِ قاتل
عروسِ اجل کے یہ چالے ہوئے ہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔