’’سیدھا سادھا‘‘ (ہندی، اسمِ صفت، مذکر) کا اِملا عام طور پر ’’سیدھا سادہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
رشید حسن خان نے اپنی کتاب ’’اُردو کیسے لکھیں؟ (صحیح اِملا)‘‘، مطبوعہ ’’رابعہ بُک ہاؤس‘‘ کے صفحہ نمبر 117 پر ’’سیدھا سادھا‘‘ رقم کیا ہے۔
اس طرح ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ کے مطابق ’’سیدھا سادھا‘‘ جب کہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ اور ’’نور اللغات‘‘ کے مطابق ’’سیدھا سادا‘‘ اور ’’سیدھا سادھا‘‘ دونوں صحیح ہیں جب کہ اس کے معنی ’’سچا‘‘، ’’تصنع اور بناوٹ سے پاک‘‘، بھولا بھالا‘‘، ’’سادگی پسند‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
صاحبِ نور نے حضرتِ داغؔ کا جو شعر حوالتاً درج کیا ہے، اس کے مطابق اِملا ’’سیدھا سادھا‘‘ ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:
چل گئی چال آپ کی ہم پر
سیدھے سادھے تھے آگئے دم میں
دوسری طرف صاحبِ آصفیہ نے حضرتِ انشاؔ اور حضرتِ مولفؔ کے اشعار بالترتیب ’’سیدھا سادا‘‘ کے املا کے ساتھ یوں درج کیے ہیں:
کاٹی ہے ہم نے یونہیں اوقات زندگی کی
سیدھے سے سیدھے سادے اور کج سے کج رہے ہیں
تم کہاں وضع کہاں اور تکلف کیسا
سیدھا سادا ہے بنایا تمھیں سید حق نے
مذکورہ اشعار کے ذیل میں صاحبِ آصفیہ نے ایک محاورہ درج کیا ہے: ’’سیدھا سادھا بنّا/ بننا۔‘‘
حاصلِ نشست:
’’سیدھا سادہ‘‘ کے مقابلے میں ’’سیدھا سادھا‘‘ یا ’’سیدھا سادا‘‘ کو تحریر میں جگہ دینی چاہیے۔