سرِ دست چند موقر نشریاتی اداروں کی نیوز یا سٹوری ہیڈنگز ملاحظہ ہوں:
’’ایشیا کو بڑی طاقتوں کے مقابلوں کا اکھاڑہ نہیں بننا چاہیے: چینی صدر‘‘ (انڈپینڈنٹ اُردو ڈاٹ کام، جمعرات 17 نومبر 2022ء)
’’سوشل میڈیا ففتھ جنریشن وار کا سب سے خطرناک اکھاڑہ‘‘ (جنگ ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے، میگزین ڈیسک، 10 ستمبر 2023ء)
’’بھارتی کھلاڑیوں نے فٹبال گراؤنڈ کو پھر اکھاڑہ بنا ڈالا‘‘ (اُردو ڈاٹ اے آر وائی نیوز ڈاٹ ٹی وی، 26 جون 2023ء)
’دنگل ‘ سے پہلے اکھاڑہ (نصرت جہاں کی تحریر جو بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، لندن سے 26 نومبر 2015ء کو شائع ہوئی ہے)
ایسے سیکڑوں حوالے گوگل سرچ کے ذریعے منھ چڑانے کے لیے کافی ہیں جہاں ’’اکھاڑا‘‘ کا اِملا ’’اکھاڑہ‘‘ لکھا گیا ہے۔
اُردو کا کوئی بھی مستند لغت اُٹھا کر دیکھ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ’’اکھاڑہ‘‘ لفظ کہیں بھی موجود نہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ذیل کے حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
کامریڈ امجد علی سحابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’نوراللغات‘‘، ’’فرہنگِ تلفظ (نستعلیق ایڈیشن)‘‘، ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘، ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘، ’’جامع اُردو لغت‘‘، ’’حسن اللغات (جامع)‘‘، ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘، ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘ اور ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ کے مطابق دُرست اِملا ’’اکھاڑا‘‘ ہے نہ کہ ’’اکھاڑہ۔‘‘
اب آتے ہیں اس لفظ کے تلفظ کی طرف جس میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے، ملاحظہ ہو:
’’آئینۂ اُردو لغت‘‘ اور ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘ کے علاوہ محولہ بالا تمام لغات کے مطابق ’’اکھاڑا‘‘ کا تلفظ بہ فتحِ الف ہے یعنی ’’اَکھاڑا۔‘‘
دیگر متعلقہ مضامین:
شاکر، متشکر یا مشکور؟
غبارہ یا غبارہ؟
آسامی یا اسامی؟
گھنٹہ یا گھنٹا؟
ٹھرنا یا ٹھہرنا؟
کمرہ یا کمرا؟
نو دولتیا یا نو دولتا؟
فَلاں یا فُلاں؟
’’آئینۂ اُردو لغت‘‘ نے بہ کسرِ الف یعنی ’’اِکھاڑا‘‘ لکھا ہے جب کہ ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘ نے بہ ضمِ الف ’’اُکھاڑا‘‘ لکھا ہے۔ البتہ ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘ کے مولف نے محاوارت کی تفصیل میں مذکورہ لفظ کی جمع یا مغیرہ صورت لکھ کر گتھی سلجھا دی ہے، مولف کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ’’اکھاڑے…… اَکھاڑا کی جمع یا مغیرہ صورت۔‘‘ یوں باآسانی یہ پتا چل جاتا ہے کہ یہ ٹائپنگ کی غلطی ہے۔
’’اَکھاڑا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کے معنی ’’کُشتی کا مقام‘‘، ’’وہ مقام جہاں پہلوان کسرت کرتے ہیں اور کُشتی لڑتے ہیں‘‘ یا ’’ناچ رنگ کی محفل‘‘ کے ہیں۔
لفظِ مذکور کے حوالے سے مستند ترین حوالہ رشید حسن خان کی کتاب ’’اُردو اِملا‘‘ (مطبوعہ ’’زُبیر بُکس‘‘، سنِ اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 91 پر ملتا ہے، جہاں ہندی الاصل الفاظ کی ایک لمبی فہرست ہاتھ آتی ہے۔ مذکورہ فہرست میں ’’اکھاڑہ‘‘ کی جگہ ’’اکھاڑا‘‘ درج ملتا ہے۔ نیز’’اُردو اِملا‘‘ کے صفحہ نمبر 90 پر مولانا احسن مارہروی کا یہ حوالہ بھی درج ملتا ہے کہ ’’ہندی الاصل الفاظ کے آخر میں ہاے مختفی نہ ہو، بل کہ الف ہو، جیسے: پتّا، بھروسا، سامنا، دھوکا، کلیجا، مہینا، ٹھیکا وغیرہ۔‘‘ (علمی نقوش، صفحہ نمبر 142)
نیز ’’اکھاڑا‘‘ کے حوالے سے ذرا حضرتِ عاشقؔ کا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو:
ترے دیوانے کا ہے عُرس کیا جلسے ہیں مرقد پر
اَکھاڑا راجہ اندر کا، پری رویوں کا دنگل ہے
اور حضرتِ امیرؔ کے بہ قول:
گرم اندر کا اَکھاڑا تو ہے مے خانے سے
رقص پریوں کا کوئی سیکھ لے دیوانے سے
محولہ بالا دونوں اشعار ’’نور اللغات‘‘ سے لیے گئے ہیں۔
حاصلِ نشست:۔
محولہ بالا نشریاتی اداروں کے رائج کردہ لفظ (اکھاڑہ) کا اِملا غلط ہے۔ کوشش کی جائے کہ نہ صرف اکھاڑا کو ہائے ہوز سے لکھنے سے اجتناب کیا جائے بلکہ تمام ہندی الاصل الفاظ کے لیے یہی اُصول اپنایا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔