71 سالہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن گذشتہ ہفتے (18 مارچ) کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں پھر جیت گئے ہیں۔ یوں تاریخ میں سابقہ روسی سربراہ جوزف اسٹالن کے بعد پیوٹن وہ واحد راہنما ہیں، جو طویل عرصے تک حکم رانی کرنے والے حکم ران بن گئے ہیں۔
1999ء سے حکم رانی کے گھوڑے پر سوار ہونے والے پیوٹن پہلے وزیرِ اعظم اور پھر صدر منتخب ہوتے رہے۔ اب موصوف کی حکم رانی 2030ء تک جاری رہے گی۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ پیوٹن جو اوائلِ عمری میں روسی خفیہ ایجنسی کے اہل کار تھے، اپنے کسی سیاسی مخالف کو زندہ نہیں چھوڑتے تھے، لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے، تو روسی فیڈریشن کا شیرازہ بکھیرنے کے بعد پیوٹن ہی وہ راہ نما ہے، جس نے روس کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کا سفر شروع کیا۔
شام کی گرتی ہوئی حکومت کو سنبھالا دینا ہو، ایران کے ساتھ مستقل تعلق داری کو برقرار رکھنا ہو، کریمیا پر قبضہ ہو، یا حالیہ روس یوکرائن جنگ، پیوٹن نے ہر مرحلے پر روس کو پھر سے عالمی بساط پر اہم کردار تسلیم کروایا ہے۔
روس اور چین دونوں مغرب مخالف قوتوں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یوں روس کا وسیع ہوتا عسکری اور چین کا عالمی معاشی کردار دونوں مغرب (خاص کر امریکہ) کے لیے ایک بھیانک خواب بنتا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی بالادستی کے پیچھے ’’امریکنائیزیشن‘‘ یا ’’ڈالرائیزیشن‘‘ ہے، یعنی دنیا کا تجارت کے لیے امریکی کرنسی ’’ڈالر‘‘ کا انتخاب۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کیا چین، پاکستان پر افغانستان کو ترجیح دے رہا ہے؟  
کیا روس سے پینگیں بڑھانا ہمارے مفاد میں ہے؟  
مگر روس اور چین کے بڑھتے ہوئے عسکری اور معاشی اثر و رسوخ نے یہ کام ضرور ممکن بنایا کہ اب عالمی دنیا میں تقریباً 130 تک ممالک یہ سوچ رہے ہیں کہ عالمی اور باہمی تجارت کے لیے امریکی کرنسی کی بجائے کسی اور کرنسی کا انتخاب کیا جائے۔
اگر ایسا ہوتا ہے اور مستقبلِ قریب میں ایسا ہونے کے قوی امکانات روشن ہیں، تو اُس وقت ’’ڈی ڈالرائیزیشن‘‘ یعنی امریکی معاشی بالادستی یا بدمعاشی کا خاتمہ شروع ہوجائے گا۔
عالمی اُمور جاننے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کا مستقبل ایشیا سے جڑا ہے، یعنی مستقبل میں امریکی اور مغربی بالادستی کا خاتمہ ہوجائے گا اور ایک نئے ورلڈ آرڈر کی صورت میں دنیا کی امامت ایشیا کی پاس آجائے گی…… جس میں روس، چین اور بھارت کا اہم کردار ہوگا۔ خلیجی دنیا پر سرسری بات کی جائے، تو اُنھوں نے بھی امریکی حلیف ہونے کے باوجود چین اور روس کے ساتھ رشتے استوار کرنا شروع کیا ہے۔ وسطی ایشیا ممالک پہلے ہی سے چین اور روسی کیمپ میں شمار کیے جاتے ہیں۔
چین، روس اور بھارت کے بیچ ایک ایٹمی ملک پاکستان بھی واقع ہے، جو معاشی طور پر دیوالیہ، سماجی طور پر کھوکھلا اور سیاسی طور پر کرم خوردہ بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بدلتی دنیا اور ابھرتے ایشیا میں اس ملک کا مقام اور کردار کیا ہوگا؟
چین اور روس کی ٹیکنالوجی، مہارت اور قابلیت کی بات نہ بھی کی جائے، تو بھارت کے ساتھ موازنہ کیوں کر ممکن ہوگا؟ کیوں کہ یہ دونوں ممالک ایک ہی دن برطانوی تسلط سے آزاد ہوئے…… مگر آج بھات میں زیرِ آب (سمندر کے نیچے) سڑک اور ٹرین چل رہے ہیں۔ خلا میں بھارتی قدم موجود ہے اور اب سمندر کی تہہ سے معدنیات نکالنے کے لیے بھی بھارتی حکومت بھاری سرمایہ کاری کررہی ہے۔
اس طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی بھارت بہت آگے جاچکا ہے۔ یوں دونوں پڑوسیوں میں اب معاشی، سائنسی اور سیاسی مقابلہ ممکن نہیں رہا۔
پاکستان کے پڑوس میں ایک زخم خوردہ ملک افغانستان بھی ہے، جہاں آج کل عبوری طور پر بہ زورِ بازو قابض دین داروں کی عمل داری ہے۔ ایک ایسا نظام جس کو ابھی تک دنیا بھر میں کسی تنظیم یا ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود وہاں چین کی مدد سے کان کنی میں ترقی ہورہی ہے اور صحراؤں کو آباد کرنے کے لیے مصنوعی نہریں بنائی جا رہی ہیں۔
اسی طرح ایک اور پڑوسی ایران جو سال ہا سال سے عالمی پابندیوں کی وجہ سے معاشی طور پر کم زور ہے، باوجود اس کے سائنس سے ثقافت تک اور سیاست سے معاش تک ہر شعبے میں اپنی زبان اور روایت پر قائم ہے۔
قارئین! اس پورے منظر میں صرف پاکستان ہے، جو ہر حوالے سے ایک منتشر الخیال ریاست کا تاثر دے رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ بدلتے عالمی منظر اور خاص کر ’’ایشیائی کَروَٹ‘‘ میں اس بڑے اسلامی اور ایٹمی ملک کا مستقبل اور کردار کیا ہوگا؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔